(محسن ببر ترجمہ:(اسامہ تنولی

’’صوبہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو اپنے عہدے پر براجمان ہوئے دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مراد علی شاہ نے صاف ستھرا کراچی، سرسبز تھر اور محفوظ سندھ کے نعرے سمیت اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد متعدد دعوے کیے تھے۔ سب سے پہلے تو نئے وزیراعلیٰ سندھ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اب سندھ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی اور ماضی میں جو کچھ ہوا اس کو بھلا کر آگے بڑھنے اور چلنے کی بات کی جائے گی۔ سندھ میں آٹھ برس سے برسراقتدار پیپلزپارٹی کی حکومت کے سارے گناہ معاف کرکے ریفریش کرنے کی کوشش کی گئی اور لوگوں کے اذہان میں یہ بات جبری طور پر ڈالنے کی اب بھی کوشش جاری ہے کہ ہم سے گزشتہ آٹھ برس کا حساب نہ لیں۔ میں قبل ازیں گزارش کرچکا ہوں کہ مراد علی شاہ اس آٹھ سالہ عرصہ اور حکومت کے ہر اچھے یا برے کام کا مکمل حصہ رہ چکے ہیں۔ اس لیے انہیں کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سارے معاملات کو نظر میں رکھتے ہوئے مراد علی شاہ سرکار کی دو ماہ کی اچھائیوں اور برائیوں (خوبیوں یا خامیوں) کا تعمیری اور تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تعمیری جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ زیادہ چست، سرگرم اور قدرے بہتر ثابت ہوئے ہیں۔ انہیں افسران کو وقت پر دفاتر پہنچنے کے حوالے سے کی گئی کوششوں میں بھی کافی حد تک کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ لیکن یہ معاملہ محض کراچی تک ہی محدود ہے۔ سندھ کے باقی اضلاع میں تعلیم، صحت اور آب پاشی، کمیونی کیشن اینڈ ورکس اور بلدیاتی اداروں کے محکموں کے افسران آج بھی اپنے دفاتر خاص سرکاری گھروں یا بنگلوں میں رہتے ہوئے، وہیں سے چلا رہے ہیں۔ مراد علی شاہ سندھ کابینہ کے اجلاس بھی جلد سے جلد بلواکر امورِ حکومت آگے بڑھانے کی سعی میں مصروف ہیں، جو قائم علی شاہ کے دور میں کم ہی ہوا کرتے تھے۔ سندھ میں مدارس کی رجسٹریشن اور معلومات تک رسائی کے بارے میں کابینہ کے فیصلے بھی مثبت اقدامات ہیں، تاہم ان پر عمل درآمد کا انتظار ہے۔
وزیراعلیٰ کی چستی کے باعث کابینہ کے چند وزرا مثلاً سردار شاہ، مہتاب ڈہر، ڈاکٹر سکندر میندرو، محمد بخش مہر اور سعید غنی وغیرہ تو کسی حد تک سرگرم دکھائی دے رہے ہیں لیکن کابینہ کے بیشتر اراکین اپنے محکموں سمیت حسبِ سابق گہری نیند میں ہیں، جن پر میڈیا کی نظر ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے لوگ اس جانب دھیان دینے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا تو زیادہ تر مثبت یا منفی مرکز محض صوبائی وزیر ثقافت سردار شاہ کی خوشنودی یا تنقید تک ہی محدود ہے۔ فٹ پاتھ کے ہوٹلوں پر چائے پینے سمیت وزیراعلیٰ کی کچھ سرگرمیوں کو سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اگرچہ پیش کیا جاتا ہے، اس کے برعکس حکومتِ سندھ کے اقدامات اور کوششوں (اگر وہ ہیں تو) کو بہتر اور مؤثر انداز میں میڈیا پر نمایاں کیا جائے۔ (وہ سلسلہ دکھائی نہیں دیتا) کوشش یہ دکھائی دیتی ہے کہ وزیراعلیٰ کے بارے میں Impression Management کے ذریعے ان کی ذاتی تشہیر کو مرکز بنادیا جائے۔
مراد علی شاہ سندھ کے قدرتی وسائل کے حقوقِ ملکیت اور چھوٹے صوبوں کو قومی مالیاتی ایوارڈ دلانے کے حوالے سے مثبت انداز میں پیش رفت کررہے ہیں اور تھوڑا بہت ٹیکنالوجی کے توسط سے گورننس کو بہتر بنانے کے دعویدار ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ان کی دو ماہ کی مدتِ اقتدار میں سندھ کے گورننس کے ڈھانچہ میں کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند ماہ یا باقی رہنے والے 18مہینوں میں سندھ میں کوئی مجموعی بہتری سامنے نہیں آئے گی۔ وزیراعلیٰ کی خدمت میں عرض ہے کہ دو برس نہیں بلکہ ان کی حکومت 8 سال پہلے ہی گزار چکی ہے۔ لہٰذا حکومتِ سندھ کو 2018ء میں مجموعی طور پر 10 برس کا حساب دینا پڑے گا اور مطلوبہ تبدیلی لانے کے لیے 10برس کی مدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ 31 جولائی کو ان کے دیے گئے بیان کہ ’’ماضی کو بھول جائیں، قبروں سے لاشوں کو نکالنے کے بجائے نئے چیلنجز کو منہ دینا پڑے گا‘‘۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے اپنے ہی دیے گئے بیانات کو پس پشت ڈالنے سے مراد علی شاہ غیر روایتی وزیراعلیٰ سے روایتی وزیراعلیٰ بنتے جارہے ہیں۔
کیا سندھ میں کرپشن کا محض تاثر ہے؟
مراد علی شاہ نے آتے ہی پہلے دن یہ بیان جاری کیا اور آج بھی اس پر قائم ہیں کہ سندھ میں کرپشن محض ایک تاثر ہے جسے ختم کریں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ سندھ میں کرپشن بالکل نہیں ہے محض ایک تاثر ہی اس بارے میں قائم کیا ہوا ہے۔ مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سندھ میں ڈائنوں کی طرز کے حملے بند کرے۔ دوسری جانب میڈیا میں رپورٹیں ہیں کہ مختلف محکموں کے 589 افسران نے نیب کے روبرو اعتراف کرکے کرپشن کی رقومات واپس جمع کرائی ہیں۔ اب سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان افسران کو ملازمتوں پر بھی برقرار رہنا چاہیے یا نہیں۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ سندھ حکومت ان سرکاری افسران کو اس اعتراف کے بعد ازخود ہی ملازمت سے فارغ کردیتی، لیکن لگتا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی سرکار کرپٹ افسران کو بچانے کا پختہ عزم کیے بیٹھی ہے اور ہمیشہ کی طرح سے اب بھی سپریم کورٹ ہی کو اس بارے میں کچھ کرنا پڑے گا۔ معاملہ کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’’نیب کا پلے بارگین‘‘ پر مبنی قانون اگر برقرار رہا تو ملک کے جیل خانے خالی ہوجائیں گے۔ جسٹس امیر مسلم ہانی نے حکومتِ سندھ کے افسران کی طرف سے رقومات واپس کرنے سے متعلق معاملہ پر سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ چوروں کو پکڑ کر ان سے پیسے واپس لینے کے بعد ان کا احسان مانتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اب تم دوبارہ اپنے اپنے کام سے لگ جاؤ؟ کیا پیسے واپس لے کر ملازمین کو ان کے سابقہ عہدوں پر برقرار رکھنا خلافِ قانون عمل نہیں ہے؟ وزیراعلیٰ کے کرپشن کے تاثر پر مبنی اس معصومانہ دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایک کام کیا جائے اور گزشتہ 8 برس میں سندھ کے ان سرکاری محکموں (جہاں مال کی بہتات ہے) میں مقرر محض تقریباً منتخب 500 افسران، کلرکس اور دیگر عملہ اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثوں اور طرزِ زندگی پر ایک تحقیق یا سروے کروانے سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیسی شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کے بچے کراچی، حیدرآباد یا بیرون ملک کن تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹس میں کتنا بیلنس ہے؟ ان کے زیر استعمال سرکاری اور ذاتی گاڑیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اگر بدعنوانی کی روک تھام کے لیے قائم کردہ محکمہ اینٹی کرپشن کے افسران اور عملہ سے متعلق ہی سروے کروایا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، بلکہ صرف ان کی فہرستیں نادرا اور ایف بی آر کو بھیج دی جائیں تو محض کمپیوٹر کی ایک کلک سے ہی پتا پڑجائے گا کہ اس محکمہ کے عمّال کس قدر ’’مؤثر‘‘ ہیں۔ اس محکمہ کے حوالے سے اطلاعات مظہر ہیں کہ اسے ’’سندھ احتساب کمیشن‘‘ نامی ایک نیا ادارہ قائم کرکے اس میں ضم کردیا جائے گا اور نیا ادارہ سندھ میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے کام کرے گا۔ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ اینٹی کرپشن محکمہ کا مذکورہ نااہل عملہ جو سندھ میں کرپشن کو ختم کرنے کے بجائے اسے غیر معمولی طور پر بڑھانے کا باعث بنا اسے دوبارہ نیا نام دے کر اس سے سابقہ کام لیا جائے گا۔ احتساب کمیشن فی الحال تو کاغذات اور فائلوں تک ہی محدود ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ احتساب کمیشن کا قانون آخر کب لاگو ہوگا اور یہ ادارہ کب کام کرنا شروع کرے گا، اورکب یہ مؤثر کردار سرانجام دے پائے گا؟ آنے والے 18 ماہ میں تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
سندھ میں اچھے افسران کی عدم دستیابی کا دعویٰ:
عہدہ سنبھالنے کے دوسرے دن افسران کو ہدایت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ ’’ان کے پاس کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صرف 18ماہ ہیں‘‘۔ اب مراد علی شاہ نے ازخود اس بیان کے حوالے سے تبدیلی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’تبدیلی کے لیے باقی رہ گئے دو برس کم ہیں، ابھی وقت مزید درکار ہے‘‘۔ سکھر میں میڈیا سے دورانِ گفتگو وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ میں ’’اچھے‘‘ افسران دستیاب ہی نہیں ہیں، اس لیے ان کی تقرری کے حوالے سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے حکومتِ سندھ، صوبے کی بیورو کریسی میں وفاقی کوٹہ کے تحٹ مقرر کردہ افسران کی قلت کا معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھائے گی۔ وفاق سے سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے افسران طلب کرلیے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے اس بارے میں وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی افسران کے کوٹہ کے تحت اس وقت سندھ میں گریڈ 17 تا گریڈ 21 کے 100کے لگ بھگ افسران کی قلت ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے وفاقی افسران کے کوٹہ اور اس کے تحت اس وقت سندھ میں مقرر کردہ افسران کی تفصیل بھی وفاق کو روانہ کردی گئی ہے۔
مراد علی شاہ نے اپنے دو ماہ کے عرصۂ حکومت میں تقریباً60 افسران کا تبادلہ کیا ہے، ان میں سے بعض محکمے تو ایسے ہیں جن کے افسران کو دوماہ کے دوران دو سے تین بار تبدیل کیا گیا ہے۔ جبکہ چند ایک ایسے بھی ہیں جنہیں ایک دن میں دو مرتبہ بھی تبدیل کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ یا تو دبئی والی سرکار کے حکم پر افسران کا تبادلہ کررہے ہیں یا پھر وہ خود اس الجھن میں مبتلا ہیں کہ کسے رکھا جائے اور کس کو تبدیل کیا جائے؟ حال ہی میں وفاقی حکومت نے سندھ میں تعینات اچھی ساکھ کے حامل 21 ویں گریڈ کے افسر سید ممتاز علی شاہ کی خدمات طلب کی ہیں۔ اگر سندھ سرکار اچھے افسران رکھنے کی آرزومند ہے تو پھر اس نے آخر ممتاز علی شاہ کو کیوں ریلیز کیا؟ وفاقی حکومت نے ممتاز علی شاہ کو ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کردیا ہے۔ سندھ کی پروفیشنل بیوروکریسی کے ایک اور اعلیٰ افسر سے میری بات ہوئی جس نے وزیراعلیٰ سندھ کے ان بیانات کو سختی سے مسترد کردیا کہ سندھ میں اچھے اور اہل افسران موجود ہی نہیں ہیں۔ ان کے بہ قول ’’سندھ میں 100 کے لگ بھگ اچھے اور اہل افسران بالکل موجود ہیں جنہیں صرف اس لیے ’’کھڈے لائن‘‘ لگایا گیا ہے یا اہم عہدوں پر مقرر نہیں کیا گیا ہے کہ وہ ’’یس مین‘‘ بننے یا آنکھیں بند کرکے وزرا کے غیرقانونی احکامات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی سرکار غیرقانونی احکامات اور سیاسی مداخلت بند کرے اور اہل اور اچھی ساکھ کے حامل افسران کو تین برس کے لیے تعینات کرے تو بہتر حکمرانی کا پھل حاصل کرنا کوئی اتنا مشکل کام ہرگز نہیں ہے۔ تاہم امر واقع یہ ہے کہ حکومتِ سندھ اچھی ساکھ رکھنے والے اور ایمان دار افسران کو مقرر کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اور نہ ہی عمدہ ساکھ کے حامل افسران سندھ سرکار کے اس سیٹ اپ اور بدترین گورننس پر مبنی ڈھانچہ میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
نوکریوں (ملازمتوں) کی فراہمی صرف جیالوں ہی کو کیوں؟
22 ستمبر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ’’ہم نے پہلے بھی جیالوں کو میرٹ پر ملازمتیں دیں اور آئندہ بھی جیالوں کو میرٹ پر ملازمتیں دیں گے‘‘۔ حکمرانی کو بہتر بنانے کے دعویدار وزیراعلیٰ کا یہ بیان اقرباء پروری کا بدترین اعتراف اور مظاہرہ ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ پالیسی بیان آئین کی بھی پامالی ہے، جس کے مطابق حکومتیں بغیر کسی امتیاز کے تمام شہریوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ وزیراعلیٰ کے مذکورہ بیان کا صاف صاف مطلب یہ بھی ہے کہ ماسوائے جیالوں کے کسی کو بھی ملازمت نہیں ملے گی۔ لہٰذا اگر کسی کو نوکری درکار ہے تو اس کے حصول کے لیے پہلے اسے جیالا بننا پڑے گا۔ 2013ء کے انتخابات میں 98 لاکھ افراد نے اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا تھا، جس میں سے 32 لاکھ افراد یعنی 33 فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا تھا، جبکہ 66 لاکھ یعنی 67 فیصد نے پیپلزپارٹی کو مسترد کردیا تھا۔ وزیراعلیٰ کی طرف سے جیالوں کو ملازمتیں دینے والے حد درجہ متنازع پالیسی بیان، کرپشن کے خاتمے کے لیے کسی نوع کا کوئی انقلابی قدم نہ اٹھانا،8 برس سے اپنے سرکاری عہدوں پر براجمان انہی افسران سے خراب حکمرانی کا متواتر مظاہرہ، کاسمیٹک حکم اور نوٹیفکیشن اور چند فوٹو سیشن سندھ میں بہتر حکمرانی کی کوئی چنگاری بھی روشن نہیں کرسکیں گے۔
nn