عاشورا محرم گزر گیا۔ یوم عاشور اور عاشورا ایک ہی بات ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں عموماً عاشورہ پڑھنے میں آتا ہے، جب کہ اس میں گول ’ہ‘ کے بجائے الف ہے اور یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ عشر، عشرہ وغیرہ اردو میں عام ہیں مثلاً رمضان المبارک کے تین عشرے۔
عاشورے ہی کے حوالے سے ایک عرصے سے دو اشعار خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے نام سے پیش کیے جارہے ہیں اور اس عشرہ محرم میں بھی ٹی وی چینلوں سے مرثیہ خوانوں نے خواجہ معین الدین کا حوالہ دے کر یہ شعر پڑھے:
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دیں است حسین، دیں پناہ است حسین
سرداد، نہ داد دست در دستِ یزید
حقاّ کہ بنائے لا الٰہ است حسین
ان اشعار کے معانی و مفہوم سے قطع نظر، یہ اشعار خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے نہیں ہیں بلکہ معین الدین نامی شخص کے ہیں جس کا تعلق برصغیر سے نہیں تھا اور وہ مسلکاً شیعہ تھا۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں ایک شعر پڑھا جاتا ہے جس کا ایک مصرع ہے
لافتا الاّ علی، لاسیف الاّ ذوالفقار
عموماً ’’فتا‘‘ کو فتح پڑھا اور لکھا جارہا ہے۔ جب کہ عربی لفظ فتا کا مطلب ہے دلیر، شجاع۔ یعنی سیدنا علیؓ جیسا شجاع اور دلیر کوئی دوسرا نہیں۔ ذوالفقارکیا تھی، اس کے بارے میں بہت سی تحریریں مل جاتی ہیں تاہم اس کا مطلب ہے ’’فقار‘‘ والا یا والی۔ اور فقار کہتے ہیں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کو۔
مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی ایک غزل میں ’’کوروکر‘‘ کا قافیہ باندھا ہے۔ ’کور‘ تو سب جانتے ہیں کہ اندھے کو کہتے ہیں۔
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
کور چشم، کور باطن، کور دل وغیرہ کئی ترکیبیں اردو میں عام ہیں۔ لیکن یہ ’’کر‘‘ کیا ہے جو کور کے ساتھ لگا ہوا ہے؟ ویسے تو ’کور‘ سکھ خواتین کے نام کے ساتھ بھی لگا ہوا ہوتا ہے جو کماری (شہزادی) کا بگاڑ ہے۔ کور دب بھی جاتی ہے۔ اردو میں کور دبنا محاورہ ہے جس کا مطلب ہے عاجز ہونا، مغلوب ہونا۔۔۔ جیسے پانامہ لیکس پر کچھ لوگوں کی کور دب رہی ہے۔ چلیے، دب رہی ہے یا کور بختی ہے۔ ’کر‘ کا مطلب ہے بہرہ (فارسی)، چنانچہ کوروکر کا مطلب ہوا اندھا، بہرہ۔ لیکن ’کر‘ کے اور بھی کئی مطلب ہیں مثلاً زور، طاقت، قوت، توانائی، شان و شوکت وغیرہ۔ کروفر ہم معنی ہیں۔ اردو میں’کر‘ اور ’فر‘ عموماً ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے فال و فر استعمال کیا ہے:
مغرب کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
اب تو بات کمر سے بڑھ کر ٹخنوں تک آگئی ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق ’’گوڈوں، گِٹوں تک‘‘۔ فال کا بھی وہی مطلب ہے جو فر کا ہے یعنی شان و شوکت، سطوت وغیرہ۔ عربی میں فال کا مطلب ہے شگون۔ فالِ بد، براشگون۔ ہمارے ہاں فال نکالنے کا نام طوطوں (یا توتوں) سے لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ قرآن کریم کو اسی کام کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ دیوانِ حافظ سے فال نکالتے ہیں۔ کمزور عقیدے کے لوگوں کے لیے ’فال نامہ‘ کے نام سے کتاب بھی دستیاب ہے۔ فال اختر کا مطلب ہے بدنصیب، بدقسمت۔ اردو کی ایک مثل ہے ’’فال کی کوڑیاں ملّا کو حلال‘‘۔ یعنی مفت کا قلیل مال بھی چھوڑنا نہیں چاہیے۔ لیکن کیا یہ کام ملّا ہی کرتا ہے؟ ہر گھٹیا کام ملّا سے منسوب کرنا ’’مسٹروں‘‘ کی عادت بن گئی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ملّا کا لقب بڑا معزز سمجھا جاتا تھا۔ ملّا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے نہایت عمدہ لکھنے والا، عالم فاضل، بچوں کو پڑھانے والا، مسجد میں امامت کرنے والا۔ ہم نے اسے طنز و تحقیر کا نشانہ بنا دیا اور اسے تنگ نظر مذہبی رہنما اور ظاہر پرست قرار دے دیا۔ علامہ اقبال نے بھی اس شعر میں طنز سے کام لیا ہے:
ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
یہ تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ایک سیاسی شعر ہے اور اُن لوگوں کے لیے ہے جو کہتے تھے کہ جب مسلمان آزادی سے نماز پڑھتے اور سجدے کرتے ہیں تو علیحدہ وطن کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن کیا یہ خیال صرف کچھ ملاّؤں کا تھا؟ اس نظریے کے حامل تو بے شمار مسٹر بھی تھے جو آج بھی قیام پاکستان کے مخالف ہیں گو کہ اب تو ہند میں سجدے کی اجازت بھی محدود ہو گئی ہے۔ ملاّ کے لیے کئی محاورے اور مثالیں گھڑی گئیں مثلاً ملاّ کی دوڑ مسجد تک۔ ملا کی ماری حلال اور دو ملاّؤں میں مرغی حرام۔ ذرا اقتدا رکی مرغی دیکھیے کہ کن لوگوں میں چھینا جھپٹی ہو رہی ہے۔
بہرحال، سیاست ہمارا موضوع نہیں ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کچھ اور سوچنے ہی نہیں دیتے۔ میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے چند دن پہلے بڑی مقدار میں چرس پکڑی ہے۔ اس کے حوالے سے ایک ٹی وی چینل کے اینکر (کیا اس کا ترجمہ لنگر اور لنگرباز کیا جائے؟) بتا رہے تھے کہ سیکورٹی ایجنسی نے بھی ’’مِہر تصدیق‘‘ ثبت کر دی ہے۔ بس اتنا ہوا کہ مُہر کی جگہ مہرومحبت والی مِہر ثبت کر دی گئی۔
بعض دفعہ اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے مثلا سردمُہری۔ مِہرْ اورمُہرْ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں۔ مہربانی اسی مِہر سے ہے۔ غنیمت ہے اسے کوئی مُہربانی یا مُہربان نہیں کہتا۔ فارسی میں مِہر سورج کو بھی کہتے ہیں۔ مرزا غالب خاصے مشکل پسند تھے، سامنے رکھے ہوئے الفاظ کا استعمال شان کے خلاف تھا، چنانچہ کہتے ہیں ’’پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم‘‘۔ اب سوچتے رہیے کہ یہ خور کیا ہے اور خواب و خور حرام کیجیے۔ مرزا نے دراصل خورشید کا مخفف ’خور‘ استعمال کیا ہے۔یہ اصلاح غالباً ماہرالقادری نے دی ہے کہ مرزا خور کی جگہ مہر استعمال کر کے اس ابہام سے بچ سکتے تھے۔ اچھا، ابہام سے تو سبھی واقف ہیں، یہ کوئی مبہم بات نہیں۔ لیکن ایک لفظ ’ایہام‘ ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنی قابلیت جھاڑنے کے لیے ساتھیوں سے پوچھ بیٹھتے تھے کہ یہ ’ایہام‘ کیا ہوتا ہے تو وہ عموماً ہماری تصحیح کردیتے تھے کہ ہجے درست کر لو، یہ لفظ ابہام ہے۔
اب ہمارے قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایہام کیا ہوتا ہے، سب جانتے ہی ہوں گے۔
لفظی معنی: وہم میں ڈالنا۔ علم بدیع کی اصطلاح میں کلام میں ایک لفظ ایسا واقع ہو جس کے دو معنی ہوں، ایک قریب اور ایک بعید۔ سننے والے کا ذہن قریبی معنی کی طرف جائے اور کہنے والے کی مراد دوسرے معنی سے ہو۔ معنی قریب سے مراد یہ ہے کہ وہ معنی اس مقام کے مناسب نہ ہوں، لیکن کسی ہلکے قرینے سے وہ کہنے والے کا مقصود معلوم ہوں۔ اِبہام میں الف کے نیچے زیر ہے یعنی وضاحت کا نہ ہونا، معنی یامفہوم میں اشتباہ۔ بعض لوگوں سے اِبہام بالفتح بھی سنا ہے۔ ایہام کے حوالے سے ایک مصرع دیکھیے ’’ایسا گنہ کیا ہے کہ کچھ جس کی حد نہیں‘‘ حد کا لفظ دو معنی رکھتا ہے یعنی انتہا اور گناہ کی سزا (حد جاری ہونا)۔
پچھلے شمارے میں پروف ریڈنگ کی ایک غلطی رہ گئی جس کے ہم بھی ذمے دار ہیں ’’تنخواہ بھی ’اچھے‘ لیتے ہوں گے‘‘۔ جب کہ اچھے کی جگہ اچھی ہونا چاہیے تھا۔