اخوند زادہ جلال نور زئی

4 اکتوبر 2016ء کو دہشت گردوں نے سفاکی کی ہر حد پار کرتے ہوئے خواتین کو بھی موت کے گھاٹ اتارکر دینِ اسلام اور قبائلی اقدار و روایات کا جنازہ نکال دیا۔ ٹارگٹ کلرز نے چار خواتین کو شناخت کے بعد قتل کیا۔ حوا کی ان بیٹیوں کو فقط اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ ہزارہ قوم سے تھیں اور شیعہ تھیں۔ یہ خواتین شام کے وقت وسطی شہر سے لوکل بس میں ہزارہ ٹاؤن جارہی تھیں۔ کرانی روڈ پر زنگی نالہ کے قریب موٹر سائیکل سواروں نے بس روک دی۔ وہ زنانہ کمپاؤنڈ میں گھس گئے، ان خواتین کو شناخت کیا اور ایک ایک کرکے گولیاں برسانا شروع کردیں، جس کے نتیجے میں موقع پر ہی چاروں عورتیں خالق حقیقی سے جاملیں۔ ایک خاتون اور ایک مرد زخمی ہوا۔ زخمی خاتون عزیزہ گل بھی ہزارہ قوم سے تھی۔ قتل ہونے والی تین عورتیں مریم، بیٹی خاتمہ اور مریم ہزارہ ٹاؤن کی رہائشی اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ بی بی طوطیہ سنّی تھی اور تعلق پشتون قبیلے کی بارکزئی شاخ سے تھا۔ اب اس غلیظ فعل و حرکت کی کن الفاظ میں مذمت کی جائے! یقیناًمذمت اور نفر ت کا سخت سے سخت لفظ بھی اس کے لیے ناکافی ہے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نامی تنظیم نے قبول کرلی اور اسے شام کے لوگوں کا بدلہ قرار دیا۔ دہشت گرد اپنے حرام افعال و عملیات کو دین اور مذہب کا لبادہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا عمل اگر کوئی غیر ملکی دہشت گرد کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ افسوس کہ مقامی افراد بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ ان کو بلوچستان کی روایات کا ذرا بھی خیال نہ آیا۔ اسلام میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں۔ یہ سانحہ یقیناًبلوچ پشتون قبائلی روایات و نظام پر بدنما داغ ثابت ہوا۔
چیف جسٹس جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بینچ کوئٹہ میں سانحہ آٹھ اگست کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے موجود تھا اور خواتین کے قتل کا یہ شرمناک سانحہ رونما ہوا۔ اہلِ بلوچستان نے اس واقعہ پر برہمی اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
حکومت اور سیکورٹی اداروں کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں کیونکہ اب دہشت گردوں نے خواتین کو بھی مارنا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ شہر اور نواحی علاقوں میں سیکورٹی انتظامات کے باوجود یہ ناخوشگوار واقعہ کیسے رونما ہوا؟ اس کے لیے حکومت اور سیکورٹی کے تمام ادارے جوابدہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ازخود نوٹس کیس کی سماعتوں کے دوران کمشنر کوئٹہ ڈویژن قنبر دشتی اور ڈپٹی کمشنر داؤد خلجی کو عہدوں سے ہٹادیا گیا۔ ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر عبدالرحمان میاں خیل کو معطل کردیا گیا۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ ظہور بابر سے بھی چارج لے لیا گیا۔ سیکریٹری صحت ڈاکٹر عمر بلوچ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا کہ وہ نان کیڈر تھے۔ ایسے کئی نان کیڈر ملازمین کو حکومتی احکامات کے تحت ذمہ داریاں سونپی جاچکی ہیں۔ کئی نان کیڈر ملازمین کو ڈپٹی کمشنر کے عہدوں پر مختلف اضلاع میں تعینات کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ پولیس اور حکومت پر خوب برسی ہے لیکن اس ذیل میں فرنٹیئر کور کو مکمل استثنیٰ دیا گیا۔ پولیس، لیویز اور محکمہ صحت کو نااہل سمجھا جارہا ہے، مگر ایف سی کی طرف کوئی دھیان نہیں، حالانکہ ایف سی کے پاس گزشتہ تین سالوں سے پولیس کے اختیارات ہیں اور شہر کے اندر، قومی شاہراہوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ریلوے لائنوں کی سیکورٹی پر یہ فورس مامور ہے۔ سول اسپتال خودکش دھماکے میں زخمی ہونے والی دو خواتین وکلا عندلیب قیصرانی اور صابرہ اسلام ایڈووکیٹ کوئٹہ میں ہونے والی سپریم کورٹ کی 6 اکتوبر کی سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہوئیں۔ خواتین وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ’’کوئٹہ میں قدم قدم پر ایف سی کی چیک پوسٹیں قائم ہیں اور اختیارات بھی ان کے پاس ہیں، لہٰذا ان کو بھی عدالت میں بلایا جائے اور پوچھا جائے کہ اتنی چیک پوسٹوں کے باوجود ایک خودکش بمبار کیسے اسپتال تک پہنچا؟‘‘ اسی نوعیت کا مطالبہ عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدر اصغر خان اچکزئی نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو تو طلب کیا لیکن عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ آئی جی ایف سی کو بھی عدالت بلاتی۔ یہ بات سچ ہے کہ ایف سی کو پولیس اختیارات سمیت بہت سارے اختیارات حاصل ہیں۔ چنانچہ بازپرس سب سے ہونی چاہیے۔ ریلوے ٹریک کی حفاظت پر ایف سی تعینات ہیں اور 7 اکتوبر کو مچھ کے مقام پر ٹریک پر دو دھماکے ہوئے جس میں سات مسافر جاں بحق اور پچیس سے زائد زخمی ہوئے، تو کیا اس دہشت گردی کی بابت محض پولیس اور لیویز کی سرزنش کی جائے گی؟ یقیناًایف سی حکام سے بھی پوچھنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے صوبائی حکومت فرنٹیئر کور کو خطیر رقم دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے سانحہ آٹھ اگست کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہزارہ خواتین کی ٹارگٹ کلنگ کے سانحہ کی سنجیدگی سے جنگی بنیادوں پر تحقیقات کرائی جائے اور ملوث دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔ اس ضمن میں دینی و سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ شہر کوئٹہ میں عورت ذات کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف مؤثر احتجاج کے ذریعے دہشت گردوں پر واضح کریں کہ بلوچستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ہزارہ قبیلہ دہشت گردی کا شکار ہے۔ ان کی خواتین اور بچوں تک نہیں بخشا گیا ہے۔
nn