مقبوضہ کشمیر میں آزادی و حریت کی جاری انتفاضہ کو تادم تحریر ترانوے روز گزر چکے ہیں اور روزانہ ایک مقتول کے حساب سے اب تک شہدا کی تعداد 92 تک پہنچ چکی ہے۔ شہدا کی فہرست میں نیا اضافہ بارہ سالہ کمسن جنید کا ہے، جو سری نگر کے ایک انگریزی اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جنید کی شہادت نے کشمیر کے پہلے سے خراب حالات کو مزید غصے اور ردعمل سے بھر دیا ہے۔ جنید کے جنازے کا جلوس ہزاروں افراد پر مشتمل تھا اور اسے آزادی کے نعروں میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لیے عیدگاہ لے جایا جارہا تھا کہ بھارتی فوج نے ماتم گساروں اور شرکائے جنازہ پر دھاوا بول دیا۔ آنسو گیس کے گولے اور پیلٹ گن سمیت طاقت اور ظلم کے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ جنازے پر بھی کئی گولے اور چھرّے لگے۔ اس کے باوجود شرکاء جنازہ لے کر اپنی طے شدہ منزل کی جانب بڑھتے رہے۔ جنازے کے جلوس پر فائرنگ سے چالیس افراد زخمی ہوئے جن میں ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے معصوم جنید کی شہادت پر اُس کے اہلِ خانہ اور کشمیری عوام سے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے اس ظلم وجبر کی مذمت کی ہے۔ 93 دن سے جاری انتفاضہ میں اس وقت تک 14500افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ 92 شہدا میں 14 افراد پیلٹ گن کے ذریعے شہید کیے گئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے سر اور سینے کا نشانہ لے کر گولیاں چلائی گئی تھیں۔
وادی میں ہونے والے بھارتی مظالم کو دیکھ کر جلیانوالہ باغ کا جنرل ڈائر بھول جاتا ہے، ہٹلر اور مسولینی کی یادیں ذہنوں سے محو ہونے لگتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت وادی میں عوام کے جذبوں کے آگے عملی طور پر تو شکست کھا ہی چکا ہے مگر کشمیر میں ذہنی طور پر بھی شکست خوردہ ہوچکا ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ کشمیریوں پر تادیر حکمرانی قائم نہیں رکھ سکتے، اسی لیے وہ طاقت کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تمام کارڈ پھینک رہے ہیں۔ بھارتی فوج طاقت کا اندھا دھند استعمال کرکے وادی میں ایک جُوا کھیل رہی ہے کہ اگر طاقت کے نتیجے میں کشمیری دب جاتے ہیں تو ٹھیک، اگر نہیں تو پھر وادی کو مضمحل اور مجروح کرکے چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ یہ سوچ کسی غاصب طاقت کے ذہن میں اُس وقت گھر کرتی ہے جب وہ کسی مظلوم پر اپنی طاقت کا دبدبہ قائم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔ یہ اس کے بظاہر مضبوط دکھائی دینے والے اعصاب کے چٹخنے کا عمل ہوتا ہے۔ آج کشمیر میں بھارت کے اعصاب چٹخ رہے ہیں۔ سرجیکل اسٹرائیکس کا ناکام ڈراما بھی ٹوٹتے حوصلوں کی گونج ہی تھی۔
وادی میں ناکامی کے بعد اب بھارت جموں اور لداخ کے علاقوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ تنازعے کا حل صرف وادی تک محدود رہے۔ اس کا ایک ثبوت جموں میں انتہا پسند ہندو نیم فوجی تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے ڈریس کوڈ کی تبدیلی کے بعد سڑکوں پر مسلح مارچ پاسٹ بھی ہے۔ جموں میں آر ایس ایس کی سربراہی بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئرسوچیت سنگھ کے پاس ہے۔ آر ایس ایس نے جموں کے تمام اضلاع میں مارچ پاسٹ کا پروگرام دے رکھا ہے، جس سے مسلمان آبادی 1947ء کی طرح خوف وہراس کا شکار ہے۔ یہ جموں کے مسلمانوں کو وادی کشمیر کے جذبات سے ہم آہنگ ہونے سے روکنے کی کوشش ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت وادی کشمیر کو اپنی بند مٹھی سے ریت کی مانند ذرہ ذرہ ہوکر نکلتا دیکھ رہا ہے۔ ننھے جنید کی شہادت کی صورت میں بھارت کی مٹھی سے ریت کا ایک اور ذرہ پھسل گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب جبر اور طاقت کی مٹھی خالی ہوگی اور ریت ہواؤں کے دوش پر اُڑ کر اس کا مذاق اُڑا رہی ہوگی، کیونکہ کربلا سے کشمیر تک تاریخ ظلم کا یہی انجام بیان کرتی ہے۔
صدرِ آزادکشمیر سردار مسعود خان وسیع سفارتی تجربے اور کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے رویوں کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے بھارتی سفارت کاروں سے بے شمار سفارتی رزم آرائیاں کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد اپنے تمام سفارتی تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے واپس آکر انہوں نے اخبار نویسوں کے ساتھ بہت کھل کر بات کی۔ وہ امریکہ اور اُس کی ہمنوا طاقتوں کے حوالے سے خاصے مایوس نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کشمیر کے حوالے سے اس وقت منفعت اور مصلحت کا شکار ہے اور انہی دو بنیادوں پر فیصلے کررہی ہے۔ ایسے میں بے حسی کی دیوار کو آسانی سے گرایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی بھارت جیسے سفاک اور ظالم ملک کو کسی معقولیت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے، اور یوں ہمیں جدوجہد جاری رکھنا ہے۔ تاہم اس کے باوجود سردار مسعود خان نے سینیٹر مشاہد حسین سید کی امریکہ میں کی گئی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں اور امریکہ نے کشمیر پر ساتھ نہ دیا تو پاکستان اپنے لیے نئے اتحادی ڈھونڈ لے گا۔ سردار مسعود خان کا کہنا تھا کہ ہمیں دنیا کے ہر ملک میں اپنے ہمنوا تلاش کرنے ہیں، حتیٰ کہ بھارت کی سول سوسائٹی کے ساتھ بھی رابطہ رکھنا چاہیے۔ تاہم اس دوران آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے24 نومبر کو تین مقامات سے کنٹرول لائن توڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہتے کشمیریوں پر ظلم وستم ناقابلِ برداشت ہوچکے ہیں اور کشمیریوں کو بھارت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ شملہ معاہدہ بھارت کا مسئلہ ہے کشمیریوں کا نہیں، کشمیری جب چاہیں کنٹرول لائن روند سکتے ہیں۔ سردار عتیق احمد خان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے وہ تمام جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔
سردار عتیق احمد خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم ناقابلِ برداشت ہوتے جارہے ہیں۔ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر ایک جسم کے دوحصے ہیں۔ یہ محض ایک حادثے کے نتیجے میں اُبھرنے والی حقیر سی لکیر ہے جس نے ایک جسم کو دو ٹکڑے کر رکھا ہے۔ کشمیریوں کو آرپار جب بھی موقع ملا انہوں نے اس لکیر کو پیروں تلے روند ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔ کشمیریوں کے لیے یہ محض حدِمتارکہ جنگ ہے جسے انگریزی میں ’سیز فائر لائن‘ کہا جاتا ہے۔ وہ مقام جہاں دو افواج کے مابین جنگ اور گولی رک گئی ہے، اور جنگ اور گولی ازخود بند نہیں ہوئی بلکہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی مداخلت اور بھارت کی کچھ یقین دہانیوں کے بعد رکی ہے۔ اس طرح جنگ بند ہوتے ہی جس فوجی کے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔ یہ مسئلے کا کوئی مستقل اور پائیدار حل نہیں تھا بلکہ ایک وقتی مصالحتی عمل تھا جس میں گولی کا رک جانا بنیادی شرط اور ترجیح تھی۔ مسئلے کے حل کے لیے اس کے بعد پائیدار اور جاندار اقدامات ہونا باقی تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قراردادوں کی منظوری کے ذریعے اس جامع اور دیرپا حل کی نشاندہی کردی تھی اور اس کی تائید پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں اور سری نگر کے لال چوک میں عوام کے جم غفیر کے سامنے کی تھی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جونہی کشمیر میں حالات معمول پر آئیں گے، کشمیری عوام سے رائے پوچھی جائے گی کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بعد میں بھارت نے اس عارضی انتظام کو ہی مستقل حل بنانے کے لیے جعل سازی کا سلسلہ شروع کیا۔ کشمیری عوام کے قائد شیخ عبداللہ نے جب بھارت کو اپنے وعدے یاد دلانا شروع کیے تو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کرکے جیل میں ڈال دیا اور شیخ عبداللہ جیل میں بیٹھ کر رائے شماری کا مطالبہ دہراتے رہے۔ پاکستان دولخت ہوا، پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس میں سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن کا نام دیا گیا۔ کشمیریوں کے لیے نام کی یہ تبدیلی ہمیشہ بے معنی ہی رہی۔ وہ اسے دیوارِ برلن کی طرح دیوارِ برہمن سمجھ کر موقع ملتے ہی روندتے رہے۔ اس طرح فوری جنگ کا خطرہ تو شاید ٹل گیا ہے لیکن کشیدگی ختم ہونے کے دور دور تک آثار نہیں۔