عالمگیر آفریدی

خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اسلام آباد میں سوات موٹر وے کی تعمیر سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوات موٹر وے صوبے کی تعمیر و ترقی، تجارت اور سیاحت میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں کسی قسم کی سُستی برداشت نہیں کی جائے گی اور درکار سہولیات اور وسائل کی فراہمی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ سوات موٹر وے کا سنگِ بنیاد 25 اگست کو چکدرہ کے مقام پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے مشترکہ طور پر رکھا تھا، اور بعد ازاں ایک بڑے عوامی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ان راہنماؤں نے کہا تھا کہ سوات موٹر وے کی تعمیر سے ملاکنڈ ڈویژن کی تقدیر بدل جائے گی اور یہ شاہراہ صوبے میں اقتصادی اور سیاحتی ترقی کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگی۔
سوات موٹر وے ملک میں اپنی نوعیت کی واحد موٹر وے ہے جسے صوبائی حکومت تعمیر کررہی ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی صوبے میں صوبائی سطح کی موٹر وے تعمیر نہیں کی گئی ہے۔ اس طرح خیبر پختون خوا ملک کا پہلا صوبہ ہے جس میں موٹر وے تعمیر کی جا رہی ہے۔ 81کلومیٹر طویل اس منصوبے پر تقریباً 42 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پشاور اسلام آباد موٹر وے پر واقع کیپٹن کرنل شیر خان شہید صوابی انٹرچینج سے شروع ہونے والی یہ موٹر وے نوشہرہ، صوابی، مردان اور ملاکنڈ ایجنسی کے اضلاع کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرے گی۔ جب کہ سوات، دیر بالا، دیر پائیں، چترال، بونیر، شانگلہ، بٹگرام اور کوہستان کے اضلاع اس شاہراہ سے بالواسطہ طور پر مستفید ہوں گے۔ سوات موٹر وے پر کرنل شیر خان انٹر چینج سے چکدرہ تک سات انٹرچینج بنائے جائیں گے۔ جب کہ مسافت کو کم کرنے کے لیے ملاکنڈ کے پہاڑوں میں اس شاہراہ پر ڈیڑھ ڈیڑھ کلومیٹر پر مشتمل دو ٹنل بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے پشاور تا چکدرہ تین گھنٹے کی مسافت گھٹ کر نہ صرف ایک گھنٹہ رہ جائے گی بلکہ اس سے موجودہ پشاور ملاکنڈ این 45 شاہراہ پر ٹریفک کے موجودہ بے پناہ رش میں کمی کے علاوہ ٹریفک کے حادثات میں کمی اور وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ وسائل کی بھی بچت ہوگی۔ ماہرین کے مطابق سوات موٹر وے کی ایک کلومیٹر تعمیر پر تقریباً42کروڑ 70 لاکھ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس میں دوٹنلز کے اضافی اخراجات بھی شامل ہیں۔ اگر ان اخراجات سے تین کلومیٹر پر مشتمل دو ٹنلز کی تعمیر کے اخراجات منہا کرلیے جائیں تو فی کلومیٹر اخراجات کم ہوکر 34 کروڑ 50 لاکھ روپے رہ جائیں گے۔
سوات موٹر وے کی تعمیر کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) کو دیا گیا ہے جو اس منصوبے کو دو سال میں مکمل کرے گی۔ جبکہ اس منصوبے کے لیے مالی اخراجات ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور حکومتِ چین مل کر فراہم کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق اراضی کی خریداری کا زیادہ تر کام سیکشن چار کے تحت مکمل ہوچکا ہے جس کے لیے مجموعی اخراجات میں 5 ارب 80 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے کو پچیس سال کی مدت کے لیے پانچ فیصد منافع پر قرض دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کو تکمیل کے بعد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے قانون کے تحت چلایا جائے گا۔ معاہدے کے تحت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے حاصل ہونے والا جرمانہ ٹریفک پولیس وصول کرے گی، جبکہ اوورلوڈنگ، اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے عوض معاوضے کی وصولی کا اختیار سرمایہ کاری کرنے والے ادارے کو حاصل ہوگا۔ زمین کی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم کو اس منصوبے کے اجتماعی اخراجات کے تخمینے میں شامل نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے لیے الگ سے پی سی ون بنایا گیا ہے، چونکہ یہ اراضی صوبائی حکومت کی ملکیت ہوگی اس لیے ان اخراجات کو مجموعی منصوبے کے اخراجات کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ڈبلیو ایف او اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ معاہدے کے تحت دیکھ بھال کے لیے سرمایہ کار ادارے کے حوالے کرے گا۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی اس منصوبے کو خطے کے لیے ایک بڑے گیم چینجر سے تعبیر کررہے ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید، صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی، صوبائی وزیر مواصلات اکبر ایوب خان، صوبائی سینئر وزیر برائے بلدیات و دیہی ترقی عنایت اللہ خان، صوبائی وزیر زکوٰۃ و عشر حبیب الرحمن خان، اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر، سینئر صوبائی وزیر صحت شہرام خان ترکئی اور صوبائی وزیر برائے بہبود آبادی شکیل خان نے اس منصوبے کو صوبے میں تبدیلی اور اقتصادی ترقی کے ایک بڑے منصوبے سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ صوبے کے شمالی اضلاع اور صوبے کے سب سے بڑے ڈویژن کے علاوہ مردان، صوابی، نوشہرہ اور پشاور کے وسطی اضلاع کے رہائشیوں کے لیے تجارت، زراعت اور روزگارکے حوالے سے ایک انقلابی منصوبہ ثابت ہوگا۔
اس منصوبے کی اہمیت اور ملاکنڈ ڈویژن کے ساتھ پسماندہ اضلاع کے علاوہ تین وسطی اضلاع کی لاکھوں آبادی کو اس منصوبے سے ملنے والے متوقع فائدے کے تناظر میں اب تک اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کو اس منصوبے کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں ہوئی ہے، حالانکہ ہمارے ہاں کے روایتی سیاسی کلچر کے مطابق حکومت جب بھی کسی بڑے منصوبے کا اعلان کرتی ہے تو اپوزیشن پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہی سہی، ایسے منصوبے میں کیڑے نکالنا اپنا فرض سمجھتی ہے، لیکن سوات موٹر وے جیسے عظیم منصوبے کی مخالفت کو چونکہ سیاسی خودکشی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے اس لیے اس منصوبے پر اپوزیشن کو عملاً سانپ سونگھا ہوا
(باقی صفحہ 41پر)
ہے، حالانکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان میاں نوازشریف پر تنقید کرتے ہوئے جہاں اُن کے مبینہ کرپشن اسکینڈلز کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں وہاں ان کی بنائی ہوئی موٹر وے پر بھی تنقید کے نشتر چلانے سے نہیں چوکتے۔ لیکن اب جب وہ خود خیبر پختون خوا میں موٹر وے اور میٹرو بس سروس جیسے ترقیاتی منصوبوں کے سنگِ بنیاد رکھ کر اپنا تھوکا ہوا چاٹ رہے ہیں تو خیبر پختون خوا کی اپوزیشن جماعتیں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو عمران خان اور صوبائی حکومت پر ان ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے تنقید کررہی ہیں اور نہ ہی انہیں ان کی دو رنگی پر کوئی طعنہ دے رہی ہیں۔ بہرحال ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کسی بھی علاقے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں شاہراہوں، سڑکوں اور دیگر ذرائع مواصلات کا کلیدی کردار ہوتا ہے، لہٰذا صوبائی حکومت سمیت جو حکومت بھی شاہراہوں کی تعمیر سمیت دیگر ترقیاتی اقدامات اٹھا رہی ہے اُس کا نہ صرف خیرمقدم کیا جانا چاہیے بلکہ ایسے منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے ذریعے ان منصوبوں کو ملک وقوم کی اجتماعی تعمیر وترقی کے لیے قومی جوش وجذبے اور قومی احساس ذمہ داری کے ساتھ بروئے کار لانے میں بھی اپنا قومی کردار ادا کرناچاہیے۔ توقع ہے کہ سوات موٹر وے کی تعمیر سے خطے میں اگر ایک طرف زراعت، باغبانی، کان کنی، تجارت اورسیاحت جیسی اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا تو دوسری جانب اس سے ملاکنڈ ڈویژن میں روزگار،تعلیم اور صحت جیسی سماجی سرگرمیوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔