الاقوامی سازشوں نے دسمبر 1971 ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بزور قوت دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور اقوام متحدہ جو درحقیقت نیتشے کے فلسفہ قوت کا مظہر ہے‘ پاکستانی شکست و ریخت کا تماشا دیکھتا رہا۔ اقوام متحدہ پر صہیونی قبضہ اور سامراج کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ اظہر من الشمس ہے۔
ہم یہ سمجھتے رہے کہ محض سفید و سرخ سامراج نے ہندوستان سے اس ’المیہ‘ کو اسٹیج کیا اور اسی لیے ہماری نظریں دست ہندی اور دست روسی سے آگے نہیں جاسکیں۔ صحافت بھی روس کے مکروفریب پر بین کرتی رہی۔ بدقسمتی سے ہماری نظریں دست اسرائیل کا انکشاف نہیں کرسکیں حالانکہ وہ خفیہ طور پر پروٹوکل کے نظریات پر عمل پیراتھے۔ اور اسلامی ریاست پاکستان کو توڑنے کے لیے اس لیے درپے تھے کہ اسے پیغمبر اسلام کے ساتھ محبت تھی اور عربوں کے ساتھ ہمدردی بھی۔
جون 1967 ء میں اسرائیل نے جس طرح شرق اوسط کو روندا ہے دنیا نے دیکھا۔ جنگ کے بعد اسرائیل کی نظریں پاکستان کی طرف اٹھیں۔ چنانچہ 1967 ء کی جنگ کے بعد پہلے اسرائیلی وزیراعظم بن گورین (Bin Gurion) نے پاکستان کو توڑنے کی ہدایات عالمی صہیونیت کو دیں جو برطانوی یہودی ہفتہ وار جیوئش کرونکل(The Jewish Chronicle) مورخہ 19 اگست 1967 ء میں منظر عام پر آئیں۔ بن گورین نے ساربون (Sorbone) پیرس میں تقریر کرتے ہوئے عالمی صہیونیت کو حسب ذیل الفاظ میں مخاطب کیا۔
عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کے خطرہ سے بے خبر رہنا نہیں چاہیے بلکہ اب صہیونیت کا پہلا نشانہ پاکستان پر ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لیے ایک چیلنج ہے پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ عرب ہمارے لیے اتنے خطرناک نہیں ہیں۔ جتنا عربوں کے ساتھ محبت کرنے والا پاکستان خطرناک ہے اس خطرے کے پیش نظرصہیونیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف قدم اٹھائے۔
اس کے برخلاف ہندوستان کے ہندو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتے رہے ہیں‘ پاکستان کے خلاف جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کے لیے ہندوستان ہی ہمارے لیے سب سے اہم محاذ (Base) ہے ضروری ہے کہ ہم اس محاذ کو استعمال کریں اور بھیس بدل کر یا خفیہ پلان کے ذریعہ یہیں سے یہودیوں اور صہیونیت سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں پر کاری ضرب لگائیں اور انہیں فنا کردیں۔
بن گورین تنہا پروٹوکل پر عمل پیرا نہیں بلکہ ہر فرد اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ پروفیسر ہرٹز ایک یہودی امریکی عسکری ماہر نے اپنی کتاب کے صفحہ 215 پر پاکستان کے خلاف حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا۔
’’پاکستانی افواج میں پیغمبر اسلام کی بے پناہ محبت موجود ہے، یہی محبت پاکستانیوں اور عربوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ یہ عالمی صہیونیت کے لیے عظیم خطرہ ہے اور اسرائیلی توسیعات کے لیے رکاوٹ بھی۔ اسرائیلیوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی طرح اس محبت کو مٹادیں۔‘‘
مشرقی پاکستان کو تورنے میں خفیہ طور پراور بھیس بدل بدل کر کیا کچھ صہیونیوں نے کیا اس کا علم عوام کو نہیں۔ البتہ جو حقائق منظر عام پر آچکے ہیں وہ حد درجہ عبرتناک ہیں اور تاریخی تنبیہ کے لیے کافی بھی۔1967 ء کے بعد سے بن گورین کی ہدایات پر کس طرح عمل ہوا اور ہندوستانی محاذ کو کس طرح استعمال کیا گیا اس کے دو ایک واقعات کی طرف اشارہ کافی ہے۔ اسرائیلی خفیہ کاوشات کا نتیجہ تھا کہ 1967 ء کے بعد محض تین سال کے اندر 1971 ء میں پاکستان کو توڑ دیا گیا۔
انگریزی روزنامہ ’’ڈان ،،22 دسمبر 1971 ء کو لندن کے نمائندہ کی زبانی (مورخہ 21 دسمبر 1971 ء ) حسب ذیل حقائق کو منظر عام پر لایا۔
ہندی افواج میں مشرقی کمانڈ کے یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جیکب نے جس کے قریبی فیملی تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم ہیں۔ مشرقی پاکستان کو توڑنے میں کارہائے نمایاں انجام دیے جدید روسی اسلحہ جات اور تکنیکی مدد سے اس نے آخر اس اسلامی جمہوریہ کو توڑا مقبوضہ مشرقی پاکستان میں پہلے ہندی فوجی کمانڈر کی حیثیت سے جنرل جیکب کا تقرر عمل میں آیا۔ 1967 ء کی شرق اوسط کی جنگ کی بعد ہندی فوجی ہائی کمان نے جنرل جیکب کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ اسرائیلی حربی داؤ اور برق رفتار جنگی مہارت کا خصوصی مطالعہ کرے اور ہندی طیاروں کو اس کے لیے تیار کرے تاکہ چین اور پاکستان کے خلاف اسے استعمال کیا جاسکے۔ جیکب نے روسی تکنیکی مدد سے مشرقی پاکستان پر حملہ کا پلان تیار کیا۔ اس حملہ کی تیاری کئی
(باقی صفحہ 41پر)
سالوں سے ہورہی تھی۔ جیکب نے پاکستان کے اندر اور دونوں بازوؤں کے درمیان کہربائی انٹرسپشن کی تنصیبات کا نظم کیا۔ جاسوسی کا جال وسیع پیمانہ پر پھیلادیا۔ ہپی لڑکیوں کو مامور کرکے پاکستانی فوجی کنٹونمنٹ میں ارسال کرتا رہا اور تمام اہم فوجی خبریں حاصل کرتا رہا جو حملہ آور ہندوستانی فوجی افسران کے لیے بے حد اہم تھیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے فوراً بعد اسی ہفتہ ’’جیوئش آبزرور،،لندن میں میجر جیکب کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جیکب راکٹ کے فوجی استعمال میں مہارت رکھتا تھا اور ہندی افواج کو اس کی تربیت دی تھی۔ جیکب کی بہن جیوئش ایزرور میں شعبہ اشتہارات کی منیجر کی حیثیت سے ملازمہ ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں بلاتامل کہا جاسکتا ہے کہ شکست پاکستان میں بین الاقوامی صلیبی سازشوں کے ساتھ صہیونی سازش بے حد طاقتور تھی۔ اسے صرف اشتراکی اسلحہ جات کی مدد حاصل نہیں تھی بلکہ اس کے مربی اعلیٰ برطانیہ کی حمایت بھی حاصل تھی جس نے تقسیم ہند میں بھی کھلی ناانصافیاں کی تھیں۔ چرچل خود صہیونی تھا اور اسرائیل کی مدد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا۔ کسے معلوم ہے کہ سرزمین ہند پر یہودی اثرات کو قائم کرنے میں اس کا کیا اثر تھا۔ ہندی وائسرائے لارڈویول نے احتجاجاً فلسطین کے موضوع پر ایک خصوصی کیبنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم چرچل پر بڑی جسارت کے ساتھ یہ تبصرہ کیا کہ وہ غالی صہیونی ہے۔ ویول کے نقد میں یہودیوں کے لیے تاریخی مسیحی نفرت کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔
ان بین الاقوامی سازشوں کی روشنی میں ہر محب پاکستان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس نظریاتی مملکت کی حفاظت کے لیے سربکف رہے۔
] انتخاب از: فلسطین اور بین الاقوامی سیاست، مصنف پروفیسر سید حبیب الرحق ندوی۔ ناشر: اکیڈیمی (سینٹر فار اسلامک اینڈ اورینٹل اسٹیڈیز، کراچی یونیورسٹی ۔ اشاعت اکتوبر 1976 ء[