13156تاب۔۔۔ مسلم دنیا میں زوال کے اسباب
مصنف ۔۔۔ عبدالکریم عابد
مرتب۔۔۔ اختر حجازی
صفحات۔۔۔ 120۔۔۔ قیمت160 روپے
ناشر۔۔۔ ادارہ معارف اسلامی۔ منصورہ ملتان روڈ
لاہور، پوسٹ کوڈ 54790
فون۔۔۔ 042-35252475-35419520-4
ای میل۔۔۔ imislami1979@gmail.com
ویب۔۔۔ www.imislami.org
شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
سبب اس کا کچھ اور ہے، جسے تُو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا، بے زری سے نہیں
زوالِ بندۂ مومن کے اسباب کی تلاش کی بہت سی کوششیں مسلم اور غیر مسلم اہلِ فکر و دانش کی طرف سے کی گئی ہیں، زیر نظر کتاب انہی مفکرین کی سوچ و فکر کا ایک نچوڑ ہے جسے روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے مرحوم مدیر عبدالکریم عابد نے مرتب کیا، جو خود بھی نہ صرف ایک ممتاز اور معروف اخبار نویس تھے بلکہ امت کا درد رکھنے والے صاحبِ فکر و دانش اور حالات و واقعات کا تجزیہ کرکے اس سے ٹھوس نتائج اخذ کرنے کی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ’’مسلم دنیا میں زوال کے اسباب‘‘ کے نام سے مرتب کیا گیا یہ سلسلۂ مضامین قبل ازیں 1981-82ء میں ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوتا رہا جسے ادارۂ معارف اسلامی لاہور نے علمی و فکری حلقوں اور عوام کے استفادہ کے لیے باقاعدہ کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔
’’مسلم دنیا میں زوال کے اسباب‘‘ کے مرتب عبدالکریم عابد مرحوم ’’دیباچہ‘‘ میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پہلے باب میں برعظیم اور بیرونِ برعظیم کے مسلم مفکرین لیے گئے ہیں۔ ان میں شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید، سرسید، مولانا حالی، مولانا شبلی، سید سلیمان ندوی، مولانا اشرف علی تھانوی، اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی، علامہ اقبال، عنایت اللہ خان مشرقی، بہادر یار جنگ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی شامل ہیں۔ ان کے بعد ایک نگاہ ابن خلدون کے افکار پر، اس کے بعد امیر شکیب ارسلان، جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ، محمد بن عبدالوہاب نجدی، امام سنوسی، امام شوکانی، علامہ رشید رضا مصری، شیخ مصطفی المراغی، علامہ طنطاوی، مدحت پاشا، خیرالدین پاشا، عبدالرحمن کواکبی، اور سید قطب شہید اور محمد قطب کی آرا پیش کی گئی ہیں۔
دوسرے باب میں عالم اسلام کے زوال کے اسباب پر غیر مسلم فرانسیسی اور یورپی مفکرین اور دانشوروں کے خیالات زیر بحث آئے ہیں۔
تیسرے باب میں بعض نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ محض ہجومِ افکار سے پریشان خیالی پیدا نہ ہو اور یہ بحث سودمند ثابت ہوسکے۔‘‘
دیباچہ ہی میں مرتب مزید رقم طراز ہیں:
’’عام طور پر ملّی زوال پر غور کرتے ہوئے مرض اور نتائجِ مرض کو (ہم) آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں۔ اصل چیز مرض کی صحیح تشخیص ہے۔ بلاشبہ مسلمان بے عملی کا شکار ہوئے، علم و سائنس سے دور ہوگئے، تجارت و صنعت میں پیچھے رہ گئے، انفرادیت، خودغرضی، انانیت کی بیماری عام ہوئی، طبقۂ نسواں کو حقیر سمجھا گیا، اساسی امور کو نظرانداز کرنے اور جزئیات میں الجھنے کی عادت جڑ پکڑ گئی، نیکی اور برائی میں توازن و تناسب کا احساس کھو دیا گیا اور چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر شدید اصرار اور بڑی بڑی نیکیوں یا فرائض کو نظرانداز کرنے کی ذہنیت پیدا ہوئی۔ اسی طرح توہم پرستی، مشرکانہ رسوم، بدعات، قول و فعل کے تضاد، جھوٹ، کتمانِ حق، ریاکاری، بدعہدی، ملک و ملت سے غداری، فرقہ پرستی، تن آسانی، عیش پسندی، عدم رواداری، جمود، قدامت پرستی، شخصیت پرستی اور زر پرستی کی برائیاں معاشرے میں پھیل گئیں۔
لیکن یہ برائیاں ہم میں کیوں پیدا ہوئیں، ان کی جڑ ہمارے معتقدات میں ہے یا ہمارے اجتماعی نظام میں؟ اور دوسری قوموں نے ان برائیوں سے نجات پاکر یا ان برائیوں سمیت کیسے ترقی کرلی؟
ان سوالات کا جواب معلوم کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ آئندہ کے لیے سمتِ سفر صحیح ہوسکے گی نہ ہم منزل کو پاسکیں گے۔ اس سلسلے میں ذہنی و فکری تحریک و ترغیب کے لیے ماضی کے مفکرینِ ملّت کے افکار کا نچوڑ پیش کیا جارہا ہے، اسے پڑھ کر اگر صاحبِ فکر اور صاحبِ نظر لوگ اس موضوع پر سوچنا اور لکھنا شروع کردیں، تو وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہوگی۔‘‘
کتاب مرحوم عبدالکریم عابد نے اپنی زندگی ہی میں مرتب کردی تھی تاہم اس کی اشاعت مرتب کی وفات (23 مئی 2005ء) کے کم و بیش ایک سال بعد 2006ء میں ممکن ہوسکی اور پورے دس سال بعد اب کتاب کی اشاعت دوئم کی نوبت آئی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کتاب کی طلب اور نکاسی کی صورت حال کس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ محض ایک ہزار نسخوں کی تقسیم و فروخت میں پورا ایک عشرہ لگ گیا۔ بہرحال ادارہ معارف اسلامی لاہور مبارک باد کا مستحق ہے کہ ملّی موضوعات پر کتب کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ادارے کو عمدہ اور معیاری کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ انہیں ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں، جن کے پاس کتب کی خریداری کے لیے وافر فنڈز دستیاب ہوتے ہیں، میں اپنی دینی و علمی کتب پہنچانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہماری آئندہ نسل ان سے استفادہ کرسکے اور نوجوانوں کا شعور ملّی بنیادوں پر مثبت جانب پروان چڑھ سکے۔
nn