(اولی الامریا اصحابِ امر کے لیے ضروری اوصاف قرآن مجید کی روشنی میں (مرزا سبحان بیگ

ارشادِ نبویؐ ہے: ’’جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لیے دعوت دے تو تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے قتل نہ کرو۔‘‘(کنزالعمال، ج:5، ح:14359، بحوالہ عبدالرزاق فی الجامع۔ نسائی)
مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت پر زبردستی مسلط ہونا ایک سنگین جرم ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں:
’’امارت (اسلامی حکومت) وہ ہے جو مشورے سے بنائی گئی ہو اور بادشاہت وہ ہے جو تلوار کے زور سے حاصل کی گئی ہو۔‘‘ (طبقات ابن سعد، ج:6،ص،113، قول ابوموسیٰ اشعری، مسروق ابن الاجدع سے مروی)
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں:
’’خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔‘‘ (الخیرات الحسان فی مناقب الامام اعظم ابی حنیفۃ نعمان از علامہ ابن حجر مکّی)
اولی الامریا اصحابِ امر کے لیے ضروری اوصاف
علماء اور فقہاء اسلام کے نزدیک اولی الامر میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں شعبے شامل ہیں۔ نیز تمام قسم کے اصحابِ امر ہیں، خواہ وہ علمی وفقہی رہنمائی کرنے والے ہوں یا سیاسی قائد ہوں، یا ملک کا نظم ونسق چلانے والے حکام ہوں یا فوجی نظم ونسق کی قیادت کرنے والے افسر ہوں، یا عدالتوں کے جج ہوں یا معاشرتی و سماجی امور میں بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے نمائندے اور سماجی کارکن ہوں۔ بہرحال جو جس حیثیت میں اور جس سطح کا بھی صاحبِ امر یا ذمہ دار مقررکیا جائے وہ اس کا اہل اور مستحق ہونا چاہیے۔
(1) وہ کسی بھی منصب یا پوزیشن کا حریص یا طالب نہ ہو۔
’’وہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو دیں گے جو زمین میں نہ اپنی بڑائی کے طالب ہوتے ہیں اور نہ فساد برپاکرنا چاہتے ہیں‘‘۔ (القصص:83)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’بخدا ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب70)
’’تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جو اسے خود بڑھ کر طلب کرے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الامارۃ، عن ابی موسیٰ اشعریؓ)
’’ہم اپنی حکومت میں کسی ایسے شخص کو عامل نہیں بناتے جو اس کی خواہش کرے۔‘‘ (کنزالعمال، ج:6، ح:14785، ایضاً)
(2) وہ ایمان دار، خدا ترس اور نیکوکار امانت دار ہوں اور حد سے گزرنے والے فسادی نہ ہوں۔
’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن لوگوں کی طرح کردیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ کیا ہم پرہیزگاروں کو فاجروں کی طرح کردیں؟‘‘(ص:28)
(3) وہ ذی علم، دانا اور معاملہ فہم ہوں اور کاروبارِ حکومت کی انجام دہی یا متعلقہ کام کے لیے مطلوبہ ذہنی اور جسمانی اہلیت رکھتے ہوں۔
’’اپنے اموال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے ذریعہ قیام بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔‘‘(النساء5:)
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے حوالے کرو۔‘‘(النساء58:)
’’امانتیں اہلِ امانت کے حوالے کرو‘‘ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ذمہ داریوں کے مناصب پر اُن افراد کو فائز کیا جانا چاہیے جو مفوضہ ذمہ داریاں و فرائض انجام دینے کے لیے مطلوبہ صالحیت اور صلاحیت کے حامل ہوں۔ خلافت و حکومت ایک امانت ہے جسے نااہلوں کے سپرد کرنا تباہی کا موجب ہے۔
ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔ عرض کیاگیا کہ یارسول اللہ، وہ کیسے ضائع کردی جائے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جب حکومت کی زمام نااہلوں کے سپرد کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ (بخاری عن ابی ہریرہؓ)
ا13142شادِ نبویؐ ہے: ’’جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لیے دعوت دے تو تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے قتل نہ کرو۔‘‘(کنزالعمال، ج:5، ح:14359، بحوالہ عبدالرزاق فی الجامع۔ نسائی)
مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت پر زبردستی مسلط ہونا ایک سنگین جرم ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں:
’’امارت (اسلامی حکومت) وہ ہے جو مشورے سے بنائی گئی ہو اور بادشاہت وہ ہے جو تلوار کے زور سے حاصل کی گئی ہو۔‘‘ (طبقات ابن سعد، ج:6،ص،113، قول ابوموسیٰ اشعری، مسروق ابن الاجدع سے مروی)
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں:
’’خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔‘‘ (الخیرات الحسان فی مناقب الامام اعظم ابی حنیفۃ نعمان از علامہ ابن حجر مکّی)
اولی الامریا اصحابِ امر کے لیے ضروری اوصاف
علماء اور فقہاء اسلام کے نزدیک اولی الامر میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں شعبے شامل ہیں۔ نیز تمام قسم کے اصحابِ امر ہیں، خواہ وہ علمی وفقہی رہنمائی کرنے والے ہوں یا سیاسی قائد ہوں، یا ملک کا نظم ونسق چلانے والے حکام ہوں یا فوجی نظم ونسق کی قیادت کرنے والے افسر ہوں، یا عدالتوں کے جج ہوں یا معاشرتی و سماجی امور میں بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے نمائندے اور سماجی کارکن ہوں۔ بہرحال جو جس حیثیت میں اور جس سطح کا بھی صاحبِ امر یا ذمہ دار مقررکیا جائے وہ اس کا اہل اور مستحق ہونا چاہیے۔
(1) وہ کسی بھی منصب یا پوزیشن کا حریص یا طالب نہ ہو۔
’’وہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو دیں گے جو زمین میں نہ اپنی بڑائی کے طالب ہوتے ہیں اور نہ فساد برپاکرنا چاہتے ہیں‘‘۔ (القصص:83)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’بخدا ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب70)
’’تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جو اسے خود بڑھ کر طلب کرے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الامارۃ، عن ابی موسیٰ اشعریؓ)
’’ہم اپنی حکومت میں کسی ایسے شخص کو عامل نہیں بناتے جو اس کی خواہش کرے۔‘‘ (کنزالعمال، ج:6، ح:14785، ایضاً)
(2) وہ ایمان دار، خدا ترس اور نیکوکار امانت دار ہوں اور حد سے گزرنے والے فسادی نہ ہوں۔
’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن لوگوں کی طرح کردیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ کیا ہم پرہیزگاروں کو فاجروں کی طرح کردیں؟‘‘(ص:28)
(3) وہ ذی علم، دانا اور معاملہ فہم ہوں اور کاروبارِ حکومت کی انجام دہی یا متعلقہ کام کے لیے مطلوبہ ذہنی اور جسمانی اہلیت رکھتے ہوں۔
’’اپنے اموال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے ذریعہ قیام بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔‘‘(النساء5:)
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے حوالے کرو۔‘‘(النساء58:)
’’امانتیں اہلِ امانت کے حوالے کرو‘‘ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ذمہ داریوں کے مناصب پر اُن افراد کو فائز کیا جانا چاہیے جو مفوضہ ذمہ داریاں و فرائض انجام دینے کے لیے مطلوبہ صالحیت اور صلاحیت کے حامل ہوں۔ خلافت و حکومت ایک امانت ہے جسے نااہلوں کے سپرد کرنا تباہی کا موجب ہے۔
ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔ عرض کیاگیا کہ یارسول اللہ، وہ کیسے ضائع کردی جائے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جب حکومت کی زمام نااہلوں کے سپرد کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ (بخاری عن ابی ہریرہؓ)