مشہور جرمن نومسلم اسکالر علامہ محمد اسد سابقہ لیوپولڈویس (Leopold Weiss) کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو یورپ سے ملنے والا تحفہ قرار دیا تھا۔ محمد اسد آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ صحافتی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین آئے، جہاں ان کی ملاقات شیخ مصطفی سے ہوئی۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسلام اور مسلمانوں سے رابطہ ان کے قبولِِ اسلام کا سبب بنا۔ قبولِِ اسلام کے حوالے سے ان کی خودنوشت سوانح عمری ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب بھی کئی افراد کے قبولِ اسلام کا سبب بنی جن میں مریم جمیلہ اور سابق جرمن سفیر ولفرڈ ہاف مان شامل ہیں۔ 1932ء میں وہ عرب دنیا سے برصغیر ہند منتقل ہوگئے، جہاں ان کی ملاقات اور دوستی علامہ اقبال، بانی دارالاسلام چودھری نیاز علی خان اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ہوئی۔ انہوں نے ترجمہ قرآن اور صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے کے منصوبوں پر کام شروع کیا، لیکن جنگِ عظیم دوم میں جرمن نژاد ہونے کی وجہ سے نظربند کردیے گئے۔ ان کی رہائی کے بعد تحریکِ پاکستان شروع ہوچکی تھی، وہ اس کا حصہ بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مغربی پنجاب کی حکومت نے ادارہ احیائے اسلامیہ کا سربراہ مقرر کیا تاکہ وہ نوزائیدہ اسلامی مملکت کے فکری خدوخال کے لیے رہنمائی کریں۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے انہیں وزارتِ خارجہ میں لے کر اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ وہ پاکستان کے قیام کے بعد کے واقعات کے عینی شاہدوں میں شامل رہے ہیں۔ محمد اسد نے خودنوشت داستانِ حیات کا دوسرا حصہ خاصی تاخیر سے لیکن نامکمل قلم بند کیا۔ اس داستان کے متن کو معروف محقق اکرام چغتائی نے حاصل کیا اور اس کا ترجمہ ’’بندۂ صحرائی‘‘ کے نام سے کیا۔ ہم اس کتاب سے اہم اقتباس پیش کررہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ’’المیۂ کشمیر‘‘ بنانے میں برطانیہ نے کیا کردار ادا کیا اور ہمارے حکمراں ہمیشہ کیسے دھوکا کھاتے رہے۔ ملاحظہ کیجیے محمد اسد کے چشم کشا انکشافات۔