اخوند زادہ جلال نور زئی

یشنل پارٹی بڑی قوم پرست جماعت ہے۔ بلوچستان کے اندر اِس وقت حکومت میں ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ڈھائی سال وزیراعلیٰ رہے۔ نیشنل پارٹی کی حکومت بنی تو اس کی ترجیحات میں ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات سرفہرست تھے۔ اس طرح اس ضمن میں کچھ سرگرمی بھی ہوئی۔ ملاقاتوں اور بات چیت کا پس پردہ اور اعلانیہ دور چلا۔ ڈاکٹر عبدالمالک رابطہ کاروں میں شامل تھے۔ اس دوران نواب ثناء اللہ زہری نے بھی خان آف قلات میر سلیمان داؤد سے لندن جاکر ملاقات کی۔ نواب زادہ براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات میر سلیمان داؤد دونوں وطن واپسی کے اشارے دے چکے تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی اس لچک پر دوسری سخت گیر سوچ کی حامل بلوچ جماعتوں اور رہنماؤں نے سخت تنقید بھی کی۔ ان کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ بھی چلا۔ اس طرح ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارتِ عُلیا کی مدت ختم ہوئی تو ساتھ ہی شدت پسند رہنماؤں سے بات چیت کے حوالے سے سکوت طاری ہوگیا۔ اب نیشنل پارٹی کچھ کچھ بولنے لگی ہے، یعنی حقائق و نقائص سے پردہ اٹھانے کی جسارت کی جارہی ہے۔
بحیثیتِ مجموعی یہ ہمارا المیہ رہا ہے کہ کسی بھی قومی مسئلے پر جب تک کرسی اور اقتدار پر ہوتے ہیں، خاموش رہتے ہیں۔ پھر برسوں بعد لب کشائی کرتے ہیں، کتابیں لکھ کر حقائق بیان کرتے ہیں۔ اگر اقتدار کے ایوانوں میں چلی جانے والی ان سیاسی چالوں اور تضادات کو بروقت بیان کیا جائے تو بہت سارے مسائل حل ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں، اور جو عناصر قومی مفادات کو زک پہنچانے میں ملوث ہوتے ہیں، ان کے چہرے دورانِ اقتدار ہی عوام پر عیاں ہوسکتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن بول پڑے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے صدر اور وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو نے 22 ستمبر کو نوشکی کے سرکٹ ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ناراض بلوچوں سے بات چیت کا مینڈیٹ دیا گیا تو انھوں نے براہمداغ بگٹی سے ملاقات کی اور اس بات چیت سے متعلق فوج اور وفاقی حکومت کو آگاہ کردیا۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ ان کی یعنی نیشنل پارٹی کی پہلی والی پوزیشن نہیں، اب فوج اور وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری ہی ناراض بلوچوں سے متعلق بہتر بتاسکتے ہیں کہ انھوں نے موقف کیوں تبدیل کیا۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تو تفصیل سے بولے ہیں لیکن بہت ساری باتوں کو ہنوز راز ہی رکھا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا۔ ان کا یہ انٹرویو 29 ستمبر 2016ء کو اخبارات میں بھی چھپا جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نواب زادہ براہمداغ بگٹی نہ صرف سیکورٹی کو چیلنج نہ کرنے پر راضی ہوگئے تھے بلکہ پاکستان کے آئین کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہوچکے تھے۔ بقول ڈاکٹر عبدالمالک: یہ مذاکرات کا بڑا اچھا موقع تھا جس کو ہم سب نے گنوا دیا۔ یاد رہے وفاقی وزیر جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ برس جنیوا میں براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کیے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا تو ان کی یہ پالیسی تھی کہ بلوچستان کی شورش کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ:
’’حکومت میں آنے کے بعد مذاکرات کے لیے خان آف قلات اور براہمداغ بگٹی کو منتخب کیا، خان آف قلات کے پاس دو جرگے بھیجے۔ انھوں نے رضامندی ظاہر کی۔ اسی طرح دوستوں کی معاونت سے براہمداغ بگٹی سے رابطہ کیا، وہ بھی مذاکرات پر راضی ہوگئے۔ اس صورت حال سے میں نے نوازشریف کو آگاہ کیا۔ میاں نوازشریف نے مجھے اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کو یہ ٹاسک دیا۔ حکومت کے صرف دو مطالبات تھے کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں اور پاکستان کی سیکورٹی کو چیلنج نہ کریں۔ ان دونوں پر وہ راضی ہوگئے تھے۔ اور براہمداغ بگٹی کے مطالبات بھی خفیہ ہرگز نہیں تھے۔ ان مذاکرات میں عسکری اور سیاسی قیادت کی مشاورت اور رضامندی شامل تھی، کیونکہ عسکری قیادت کی رضامندی کے بغیر تو وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے تھے، اور اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس میں ساری عسکری قیادت شریک تھی، اور جب ہم مذاکرات کے لیے جارہے تھے تو اس میں بھی عسکری قیادت اور میاں نوازشریف کی رضامندی شامل تھی اور ہم نے صرف پل کا کردار ادا کیا۔ آگے جاکر یہ مذاکرات ایک باقاعدہ ٹیم کو کرنے تھے جس میں وفاقی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے لوگوں کو شامل ہونا تھا‘‘۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ:
’’یہ مذاکرات ایک بڑا موقع تھا جو گنوا دیا گیا۔ براہمداغ اور خان آف قلات کے بعد ہمیں دوسرے فریقین کے پاس جانا تھا۔ خان آف قلات بھی واپس آنے کو تیار تھے۔ خان آف قلات نے کہا تھا کہ جس جرگے نے انھیں یہاں (لندن) بھیجا تھا اگر وہ انھیں لینے آئے تو وہ واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ جس کے لیے سراوان اور جھالاوان کے چیف سمیت، نواب ایاز جوگیزئی اور پشتون قبائلی سرداروں پر مشتمل جرگہ بھیجنا تھا۔‘‘
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں معلوم نہیں ہے کہ مذاکرات کیوں آگے نہیں بڑھ سکے۔ اہلِ بلوچستان سمیت پاکستان کے عوام کی یہ خواہش ہے کہ اس صورت حال کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے، کیونکہ وہ بہت پیٹ چکے ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی ادارے برباد اور کاروبار ختم ہوچکا ہے۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ ایک غیر یقینی کی صورت حال ہے۔ اگر ان سب مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکلے تو بہتر ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ بلوچستان اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اگر کوئی کسی کی فکر سے مطابقت نہیں رکھتا تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ آزادی دشمن ہے اور موت کا حقدار ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے براہمداغ بگٹی کے مطالبات بتانے سے گریز کیا البتہ یہ کہا کہ وہ کسی اسٹیج پر بولیں گے
(باقی صفحہ 41پر)
یا براہمداغ خود بولیں گے۔ ڈاکٹر عبدالمالک ڈھائی سال وزیراعلیٰ رہے ہیں، ان کے سینے میں بھی بہت سارے راز پوشیدہ ہیں، تاہم پسِ پردہ کھیل کو بروقت عیاں کیا جائے تو مستقبل کی راہ ہموار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حکومت میں بیٹھے دوسرے رہنما مذاکرات کی راہ میں حائل عناصر اور وجوہات کا پتا لگائیں۔