بھارت کی طاقت یا کمزوری؟

بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری ماحول میں جنگ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، جنگ سے کچھ نہیں ملے گا، مسئلہ کشمیر کو بات چیت سے حل کرنا ہوگا، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے، مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ سفارتی کوششیں کرنا ہوں گی، مذاکرات ایک دوسرے پر احسان نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے ایک بھارتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کو پیغام دیا کہ آیئے مذاکرات کریں۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارت کو یہ دعوت اس ماحول میں دی ہے کہ بھارت کے حکمراں، سیاست داں، اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے تمام دانشور بظاہر ہوش و حواس کھوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ بھارت نے کشمیر میں کنٹرول لائن پر فوجی کشیدگی کو جنگی ماحول میں تبدیل کردیا ہے۔ اس دوران میں بھارت نے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں وہ غیر مؤثر ہوگئے ہیں۔ فی الحال تو بھارت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی پھر زندہ ہوگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، نہتے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کے خلاف ننگی فوجی طاقت کے استعمال نے خود بھارت کے اندر باضمیر انسانوں میں ردعمل پیدا کردیا تھا۔ بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت کا خیال تھا کہ بدلتے عالمی و علاقائی حالات میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بے سہارا ہوچکے ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا عزم کچھ وقفے کے بعد تحریک آزادی زندہ کردیتی ہے۔ بھارت اس وقت تکبر میں مبتلا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اسے امریکہ نے عالمی اور علاقائی سیاست کے تناظر میں اپنا کلیدی اتحادی بنالیا ہے۔ اس وقت بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے جو متعصب، مسلم دشمن تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا سیاسی چہرہ ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر نریندر مودی فائز ہیں جو گجرات کے سابق وزیراعلیٰ ہیں، وہ وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت سے مسلمانوں کے قتلِ عام کے ملزم ہیں۔ اس کی شہادت خود امریکی ذرائع ابلاغ دے چکے ہیں جس کی وجہ سے ایک زمانے میں اُن کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی تھی، لیکن ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے قائد امریکہ نے نریندر مودی کو بھی اپنا کلیدی اتحادی بنالیا ہے۔ نریندر مودی وزیراعظم بننے کے بعد تکبر میں اس لیے مبتلا ہوگئے تھے کہ امریکہ نے بھارت کو علاقے کا پولیس مین بنادیا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ عالمی سیاست تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ اگر بھارت اور اُس کی قیادت اس حقیقت کا ادراک کرلیتی تو اس کے تقاضے بھی پورے کرتی۔ امن کا نام لے کر جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش نہ کرتی۔ بھارت کی مستقل کوشش یہ ہے کہ پاکستان اُس کی طفیلی ریاست بن جائے۔ یہ کوشش ان حالات کے باوجود ناکام ہوئی ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت مسلسل کمزوری کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس کمزوری کا اظہار جنرل (ر) پرویزمشرف کے دور سے شروع ہوگیا تھا جس میں انہوں نے ایسے فارمولے پیش کرنا شروع کردیے تھے جس کے مطابق پاکستان مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال سکتا ہے۔ جنرل (ر) پرویزمشرف کے دور کے اقدامات سے بھی مقبوضہ کشمیر میں مایوسی پھیلنے کا تاثر پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن پاکستان کا اجتماعی ضمیر کبھی بھی ایسے اقدامات قبول نہیں کرسکتا۔ نہ جانے کس بھرّے میں آکر وزیراعظم میاں نوازشریف نے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد یہ بیان دینا ضروری سمجھا کہ انہیں عوام نے بھارت سے دوستی کے لیے منتخب کیا ہے۔ اُس دن کے بعد سے بھارت کے بارے میں موجودہ حکومت کا رویہ اب بھی مشکوک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگی ماحول پیدا کردیا۔ وزیراعظم بھارت نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کا فیصلہ بھی منسوخ کردیا تاکہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان بات چیت کی صورت بھی نہ نکلے۔ نریندر مودی کی نمائندہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جارحانہ تقریر کی، جبکہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے نسبتاً بہتر انداز میں پاکستان کا مؤقف پیش کیا، اس لیے کہ اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں کی شہادت اور بھارتی فوج کے مظالم سلگتا موضوع بن چکے تھے۔ بھارت مسلسل پاکستان کو دہشت گرد ریاست یا دہشت گردوں کا سرپرست قرار دینے کی کوشش کررہا تھا، لیکن دنیا کی زبانوں کی بندش کے باوجود پاکستان آنکھیں تو بند نہیں کرسکتا تھا، اس لیے یہ دونوں ملکوں کی ضرورت تھی کہ وہ اس خطے میں حقیقی معنوں میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کریں۔ بھارت طویل عرصے سے مذاکرات سے بھاگ رہا ہے۔ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی واقعے کو بہانہ بنا کر مذاکرات ختم کردیتا ہے۔ اس کی پشت پر بھی عالمی کش مکش ہے۔ یہ حقیقت ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا کے وسائل پر قبضے کی خواہش مند عالمی طاقتوں کے راستے میں مسلمانوں اور مسلم ممالک کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ان طاقتوں کو تو اشتراکی اور قوم پرست ڈکٹیٹر بھی برداشت نہیں ہوتے جو بڑی آسانی سے آلہ کار بن سکتے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کو بنیاد پرست اور سیکولر میں تقسیم کرنے کی کوشش کی، لیکن عملاً ہر مسلمان کو چاہے وہ اپنے دین اور مذہب پر عمل پیرا ہو یا بے عمل ہو، اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کا وجود اور استحکام عالمی منصوبوں کے راستے میں ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔ پاکستان گزشتہ 30 برسوں میں عالمی سیاسی تبدیلیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ بظاہر پاکستان کو امریکہ نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر اپنا غلام بنالیا ہے، اس ملک میں ضمیر فروش مؤثر اور طاقتور طبقات کا ایک گروہ بھی موجود ہے جو اپنے ملک اور ملت کے خلاف کام کرتا رہتا ہے، لیکن تمام حالات کو پاکستانی قوم اور مسلم ملت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ہر عالمی منصوبے کا ہدف مسلم ممالک اور امتِ مسلمہ ہے۔ مسلمانوں میں یہ تصور پختہ ہوچکا ہے کہ عرب و عجم، ترک و ہند، مسلک و فرقہ کی تفریق کے باوجود مسلمان ایک ہیں اور ان کا دشمن بھی ایک ہے۔ جوہری پاکستان اتحادِ امتِ مسلمہ کے تصور کی علامت بن گیا ہے۔ جن ہولناک اور تباہ کن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں اس سے ان کی قوتِ مزاحمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس چیز کا اظہار موجودہ عشرے میں بھی ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کے جنگی جنون نے ملت کے بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کے جذبے میں اضافہ کیا ہے اور اس بات کو ظاہر کردیا ہے کہ مسلمان اپنے دفاع اور تحفظ کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔ اصل مسئلہ تمام مسلم ممالک بالخصوص پاکستان کی سیاسی قیادت کے طرزعمل کا ہے۔ امتِ مسلمہ کی تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں کو قوت و طاقت عطا کی ہے۔ ہماری قیادت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف جو قومیں کام کررہی ہیں اس کی وجہ مسلمان کا مسلمان ہونا ہے۔ وہ اپنے تحفظ اور سلامتی کی جنگ مسلمان بن کر ہی لڑسکتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیکولر اور وطنی قوم پرست قیادت نے اپنے ممالک کو تباہ ہی کیا ہے۔ یہ جنگ اسلام کا پرچم اٹھا کر ہی لڑی جاسکتی ہے۔1965ء اور 1971ء کا موازنہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ بھارت کی حکومت کا موجودہ رویہ اس کی کمزوری کی سب سے بڑی علامت ہے۔