کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختون خوا میں بھی سیاسی ہلچل میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ صوبے میں اثر رسوخ رکھنے والی تمام قابلِ ذکر جماعتیں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان جماعتوں کی سرگرمیوں سے یوں لگ رہا ہے گویا انتخابات کی آمد آمد ہے اور ہر جماعت اپنے کارکنان کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی کے حصول کے لیے خاصی پُرجوش اور متحرک نظر آتی ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی رجحان یہی ہے کہ ملک کی قابلِ ذکر جماعتیں سال کے بارہ مہینے تو کومے کی حالت میں ہوتی ہیں لیکن انتخابات کا طبلِ جنگ بجتے ہی لنگوٹ کس کر خاموشی اورگمنامی کے بلوں سے نکلنا شروع کردیتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے میں ان جماعتوں کی جے جے کار ہونے لگتی ہے۔ عام انتخابات کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ جب سے بلدیاتی انتخابات پارٹی بنیادوں پر منعقد کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے، اکثر سیاسی جماعتیں نتائج سے بے پروا ہوکر اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے چکر میں ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حالیہ ہلچل کے بارے میں فی الحال یقین سے کچھ کہنا تو قبل از وقت ہوگا البتہ یہ بات واضح ہے کہ ان سرگرمیوں کے پیچھے اصل سوچ 2018ء کے عام انتخابات کی تیاری ہے اورصوبہ خیبر پختون خوا کی مستحکم سیاسی اور انتخابی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر جماعت کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا جائے اورآنے والے انتخابات میں اُن علاقوں پر توجہ مرکوز کی جائیجہاں سے انہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی پذیرائی ملنے کے امکانات ہوں۔
خیبر پختون خوا میں ہر قابلِ ذکر جماعت کا اپنا اپنا ووٹ بینک اور اپنا اپنا اثر رسوخ ہے، جسے عام انتخابات کے موقع پر بروئے کار لایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی شاید ملک کی واحد قابلِ ذکر جماعت ہے جو اپنے مخصوص تنظیمی ڈھانچے اور دستوری تقاضوں کے باعث تقریباً سارا سال اپنے کارکنان اور عہدیداران کو مصروف رکھتی ہے۔ ایسے میں جب سے جماعت اسلامی کو ایک نیا اور جوان صوبائی امیر ملا ہے تب سے اس کی صوبہ گیر سرگرمیوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس مہینے کی 22 اور 23 تاریخ کو منعقد ہونے والے دو روزہ اجتماع عام کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ہر ضلع میں ورکرز کنونشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افرادکو شریک کرنے کے لیے ڈور ٹو ڈور رابطہ عوام مہم کے علاوہ اجتماع عام کے لیے ایک کروڑ افراد تک دعوت پہنچانے کا ہدف طے کرکے دعوتی مہم شروع کردی گئی ہے۔
جماعت نے اِس مرتبہ اپنی دعوت پھیلانے کے لیے نوجوانوں کو ہدف بنایا ہے اور اس ضمن میں خاصی مثبت پیش رفت نظر آتی ہے۔ اضاخیل نوشہرہ میں منعقد ہونے والے اس دو روزہ اجتماع عام کی خاص بات آنے والے 2018ء کے عام انتخابات کے لیے کارکنان کو ابھی سے ایک واضح پیغام اور ویژن دینا ہے۔ جماعت اسلامی اپنی حالیہ عوامی رابطہ مہم کو 2018ء کے عام انتخابات کی تیاریوں کا نقطہ آغاز قرار دے رہی ہے جس کے لیے ابھی سے بھرپور اور منظم مہم چلائی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ اضاخیل کے اجتماع عام کو جماعت اسلامی کے کارکنان اور اس کی برادر تنظیمات کے ساتھ ساتھ صوبے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے لیے امید کا مرکز بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں ہمارا اصل ہدف نوجوان اور خواتین رائے دہندگان ہوں گے جن کے لیے مناسب حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔
صوبے کی دیگر جماعتوں میں قومی وطن پارٹی اورمسلم لیگ(ن) بھی بہت عرصے سے متحرک نظر آتی ہیں۔ البتہ ان دونوں جماعتوں میں ایک واضح فرق جہاں وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کا حکومت میں ہونا ہے وہاں قومی وطن پارٹی کے جہاندیدہ سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ جو جنرل پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر وزارتِ داخلہ کے مزے لوٹ چکے ہیں، کرپشن کے بھاری بھرکم الزامات کے باوجود ایک بار پھر صوبائی حکومت میں تین وزارتوں کے ساتھ اپنا حصہ وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ آفتاب احمد خان شیرپاؤ چونکہ کئی مرتبہ اقتدار میں رہنے کے بعد اس عملی تجربے سے گزر چکے ہیں کہ اقتدار میں رہ کر ہی چونکہ اپنے رائے دہندگان کو مطمئن رکھا جاسکتا ہے اس لیے صوبائی حکومت میں دوبارہ شامل ہونے کے بعد وہ نہ صرف خود بلکہ ان کی ساری جماعت خاصی متحرک نظر آرہی ہے۔ انہوں نے پہلی دفعہ وسطی اضلاع سے نکل کر کوہستان اور شانگلہ میں بڑے بڑے جلسے کیے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کی ان سرگرمیوں سے لگ رہا ہے کہ وہ بھی2018ء کے انتخابات کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں ابھی سے اپنے لیے ترجیحات طے کررہی ہے۔
مسلم لیگ(ن) نے پچھلے کچھ عرصے کے دوران امیر مقام کی قیادت میں ملاکنڈ ڈویژن کے بعض مخصوص علاقوں کے علاوہ پشاور میں پارٹی کو متحرک کرنے کا کامیاب سلسلہ شروع کر رکھا تھا لیکن صوبائی صدر پیر صابر شاہ کے ساتھ ان کے واضح اختلافات سے جہاں ان کی سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں وہاں پیر صابر شاہ کے کسی حد تک متحرک ہونے سے پارٹی کے واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹنے کا تاثر بھی مزید پختہ ہوتا جارہا ہے۔ پیر صابر شاہ اور امیر مقام کے ان اختلافات کا پارٹی کی کارکردگی پر اثر پڑنا تو یقینی ہے، اس کا نقصان ان دونوں راہنماؤں کو ذاتی طور پر بھی اٹھانا پڑے گا۔ لہٰذا صوبے کی سیاست میں اگر مسلم لیگ (ن) کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے2018ء کے انتخابات سے پہلے پہلے ان اختلافات کا خاتمہ کرنا ہوگا، بصورتِ دیگر مسلم لیگ (ن) کے لیے صوبے کی سیاست میں اپنی موجودہ حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
صوبے کی ایک اور بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی اپنی صد سالہ تقریبات کے ذریعے اپنے کارکنان اور دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو متحرک کیے ہوئے ہے۔ صوبے کے طول وعرض میں عظمتِ اسلام کانفرنسوں کے علاوہ وہ اپنے مخصوص پاکٹس میں سیاسی سرگرمیوں اور وفاقی حکومت میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے ذریعے عام ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی طرح قبائل کے مستقبل پر دیگر جماعتوں کے برعکس مؤقف اپنانے کے ذریعے بھی جمعیت (ف) اپنے سیاسی کارڈ کامیابی سے کھیل رہی ہے۔ ان جماعتوں کی دیکھا دیکھی اے این پی جو دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بہت عرصے سے گوشۂ گمنامی میں چلی گئی تھی اور مرکز اور صوبے میں اقتدار سے باہر ہونے کی وجہ سے بھی اس پر جمود کی کیفیت چھائی ہوئی تھی، اب آہستہ آہستہ اس نے بھی سیاسی ردھم پکڑنا شروع کردیا ہے۔ سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کے بعد4 اکتوبر کو سی پیک کے مغربی روٹ کے ایشو پر یوم احتجاج مناکر اس نے بھی صوبے کے سیاسی تالاب میں چھلانگ لگاکر نہ صرف اپنے سیاسی وجود کی موجودگی کا احساس دلایا ہے بلکہ کسی ایسے ایشو کی تلاش میں ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ 2018ء کے انتخابات کی چوٹی سر کرنا چاہے گی۔ اس ضمن میں کالا باغ ڈیم کے مُردہ گھوڑا بننے کے بعد سی پیک کا مغربی روٹ ایک ایسی گیدڑ سنگھی ثابت ہوسکتا ہے جس کے ذریعے اے این پی کے لیے اپنی قوم پرستانہ سیاست کو آگے بڑھانا قدرے آسان اور سود مند ہوگا۔
صوبے کی اس سیاسی گہماگہمی میں اگر کوئی جماعت اسکرین سے غائب نظر آرہی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے، جس کا سارا انتظام ایڈہاک بنیادوں پرچل رہا ہے اور جو تاحال نہ صرف صوبائی صدر سے محروم ہے بلکہ موجودہ دھڑے بندیوں کے باعث2018ء کے انتخابات میں کسی بڑے بریک تھرو کی پوزیشن میں بھی نظر نہیں آتی ہے، جس کا فائدہ پی ٹی آئی اٹھانے کی کوشش کرے گی جس نے خود کو نہ صرف لبرل طبقے بلکہ نوجوانوں اور خواتین کی نمائندہ پارٹی کے طور پر بھی منوایا ہے جو کسی زمانے میں پیپلزپارٹی کا مضبوط ووٹ بینک تصور کیاجاتاتھا۔ویسے بھی تمام ترکمزوریوں اورخامیوں کے باوجود خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں2013ء کے انتخابات کے بعد سے اب تک کوئی خاص فرق نہیں پڑاہے۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جس سرعت کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں کے دورے اوروہاں ترقیاتی پروگرامات کے اعلانات کررہے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ پی ٹی آئی 2018ء کے انتخابات میں بھی صوبے کی دیگر جماعتوں کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہوگی۔
حرفِ آخر یہ کہ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود خیبر پختون خوا میں تمام قابلِ ذکر جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں اور ہلچل جہاں صوبے کی سیاسی جماعتوں کی سیاسی بلوغت کاپتا دیتی ہیں وہاں یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ خیبر پختون خوا کے عوام کافی سیاسی سمجھ بوجھ اور فہم وفراست رکھتے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے اجتماعی فیصلوں کے ذریعے کئی مرتبہ کرچکے ہیں۔
nn