متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف حکومت نے باقاعدہ ریفرنس برطانوی حکومت کو بھجوا دیا ہے جس میں الطاف حسین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزارتِ داخلہ نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف تقریر اور عوام الناس کو تشدد اور بدامنی پر اکسانے کے خلاف برطانیہ کو ریفرنس بھیجا ہے اور برطانیہ کو اس بارے میں شواہد بھی مہیا کردیے گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ریفرنس بھیجا گیا ہے۔ الطاف حسین کے خلاف ریفرنس بھجوائے جانے کا معاملہ ابھی پہلی سیڑھی ہے، اگرچہ حکومت نے ریفرنس بھیج کر گیند برطانیہ کے کورٹ میں پھینک دی ہے لیکن اس کے بعد حکومت کا خاموش ہوکر بیٹھ جانا بھی ممکن نہیں ہوگا، اس کیس کی پیروی کرنا ہوگی اور یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے متحدہ کے سر سے ہاتھ اٹھالیا ہے یا صرف الطاف حسین کی سرپرستی چھوڑی ہے؟ اور یہ سوال بھی جواب طلب رہے گا کہ کیا متحدہ اور الطاف حسین کے مابین لکیر کھنچ گئی ہے؟ یا متحدہ کے گھر کے اندر تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس تقسیم کی دیواریں اٹھائی جارہی ہیں؟ فی الحال تو ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں، اب کہا جارہا ہے کہ متحدہ لندن کے بجائے پاکستان سے آپریٹ ہوگی۔ یہ تقسیم فی الحال تو کاغذوں میں ہے، زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ جب تک متحدہ کے مسلح ونگ ختم نہیں ہوتے تب تک جو بھی تبدیلیاں رونما ہوجائیں، متحدہ چاہے تین ٹکڑوں میں بٹ جائے، معاملہ حل نہیں ہوگا۔
جب سے کراچی کی انتظامیہ نے شہر بھر سے متحدہ کے دفاتر گرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ کیا دیواروں نے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے؟ یہ سوال اٹھانے والے غیر نہیں بلکہ خود مصطفی کمال ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الطاف حسین کے کیے کی سزا ایم کیو ایم کو نہ دی جائے بلکہ الطاف حسین سے ہی حساب لیا جائے، انہیں ہی کٹہرے میں لایا جائے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کراچی میں متحدہ کے کارکن اور اس کے منتخب نمائندے الطاف حسین سے الگ ہوجانے کو تیار ہوچکے ہیں؟ متحدہ اور الطاف حسین کے بارے میں وفاقی حکومت اور پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی بچ جائے، لیکن متحدہ بھی ان کی اس مجبوری سے واقف ہے اور چاہتی ہے کہ سانپ بچ جائے اور لاٹھی ٹوٹ جائے۔ یہ دونوں فریق ایک دوسرے کو پھنکار رہے ہیں اور آگے بڑھ کر حملہ کرنے سے گریز بھی کررہے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے اگرچہ یہ بات متعدد بار کہی جاچکی ہے کہ الطاف حسین کے خلاف ثبوت برطانیہ کو فراہم کیے جارہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ برطانیہ حکومت کے فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر الطاف حسین کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ ہوجائے گا؟ جب کہ عمران فاروق قتل کیس بھی ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر پہلے سے موجود ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنی اس سیاسی حیثیت اور اہمیت کو خوب سمجھتی ہے اور وہ خاموشی اور عارضی پسپائی اختیار کرکے پتّے کھیلنا چاہتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ دباؤ کم کرنے کے لیے اپنے چند لوگ زیر زمین بھیج دے، یا پاک سرزمین پارٹی میں بھجوا دے، کیونکہ فاروق ستار کہہ چکے ہیں کہ ’’پہلے ڈیل نہیں کی تھی، اب ڈیل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ سوال تو یہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار جس طرح کی ڈیل چاہتے ہیں اُس کا اسکرپٹ کس نے لکھا ہے؟
ڈاکٹر فاروق ستار کو چند بنیادی سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ اگلے ہفتے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہونے والے ہیں، دونوں اجلاس متحدہ کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت حال اور تبدیل شدہ سیاسی حالات کے باعث نہایت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں موجودہ تمام جماعتیں متحدہ کے اراکین کو مشورہ دینے والی ہیں کہ وہ الطاف حسین کے مینڈیٹ کو لات ماریں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں۔ کیا پارلیمنٹ میں متحدہ کے اراکین ایسا کر پائیں گے؟ انہیں اب پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو پھر انہیں یہ کرنا ہوگا، کیونکہ اب کنویں سے چالیس ڈول پانی نکالنے سے کام نہیں چلے گا۔ اب متحدہ کی پاکستان میں لیڈرشپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ الطاف حسین یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ کھڑی ہوگی؟ اگر متحدہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے جولائی1997ء کے بعد ایک بار پھر اپنا نام اور آئین تبدیل کرنا پڑے گا، اور ہوسکتا ہے اسے آگے چل کر اپنا طرزِ سیاست بھی بدلنا پڑجائے۔ ’’ہجرت اور مہاجروں کے سیاسی حقوق‘‘ اب تک تو اس کی سیاست کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ متحدہ میں شامل ہونے کی پہلی شرط بھی یہی ہوتی ہے کہ ’’متحدہ میں شامل ہونے والا ہر شخص الطاف حسین کا وفادار رہے گا‘‘، اسی لیے نعرہ دیاگیا کہ ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘۔ اس حلف اور سیاسی ایمان کے بغیر نہ کسی کو تنظیم میں شامل کیا جاتا ہے اور نہ اسے اعتبار کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم کو یہ حلف اٹھانا ہوگا کہ وہ الطاف حسین کے بجائے پاکستان کے وفادار بنیں گے۔ یہی فیصلہ ہے اور اس فیصلے کی پشت پر فوج اور حکومت دونوں ہیں۔ ہزار فی صد یقین کے ساتھ یہ بات لکھی جاسکتی ہے کہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ متحدہ کے معاملے میں ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن چند سوالات بہت اہم ہیں، آگے بڑھنے سے قبل جن کے جواب ضرور مل جانے چاہئیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں عدالت میں غداری کا ریفرنس بھجوانے کے دو مقدمات کی نظیریں ہیں۔ پہلا ریفرنس نیپ کے خلاف تھا، جو بھٹو دور میں بنایا گیا۔ اور دوسرا پرویزمشرف کیس ہے، جسے اب نوازشریف دور میں عدالت میں بھجوایا گیا ہے۔ دونوں مقدمات ہم سب کے سامنے ہیں۔ نیپ ریفرنس کیس میں ولی خان، غلام احمد بلور، ہاشم غلزئی، حسین شاہ، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری، اور علی بخش تالپور سمیت تقریباً 88 افراد گرفتار ہوئے تھے، اور پرویزمشرف کیس میں صرف پرویزمشرف کو گرفتار کیا گیا۔ حیدرآباد ٹریبونل نے جب سماعت شروع کی تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ارکان عدالت کی کارروائی دیکھنے عدالت میں موجود ہوتے تھے۔ آج جب کہ زمانہ بہت بدل چکا ہے اور ماضی کے مقابلے میں میڈیا بہت وسیع ہوچکا ہے، اس ماحول کا مقابلہ کرنے کی سکت اور ہمت نواز حکومت میں ہے؟ یا پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتیں اس معاملے میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟ اور انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی میڈیا کس کے ساتھ ہوگا؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں۔ نیپ پر الزام تھا اور یہ الزام سینیٹ کی کارروائی کے ریکارڈ میں بھی شامل ہے کہ ’’پاکستان کے خلاف جنگ اور اس مقصد کے لیے ہتھیار جمع کرنے، پاکستان کے قیام کی مخالفت اور پاکستان کی خودمختاری ختم کرنے کی حمایت کی ہے‘‘۔ پرویزمشرف کیس میں بنیادی الزام مختصر الفاظ میں ہے کہ ’’آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کی ہے‘‘۔ نیپ کے حیدرآباد ٹریبونل اور پرویزمشرف کیس کی سماعت اور مقدمات کی اہمیت سامنے رکھ کر اگر یہ جائزہ لیا جائے کہ ان مقدمات کا کیا بنا؟ تو ساری بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج جب کہ انسانی حقوق، عالمی سطح پر اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کا ماحول ہے، اس کے پیش نظر متحدہ کے بانی الطاف حسین اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کرنا اور اس کا بوجھ اٹھانا اس حکومت کے بس میں ہے یا نہیں؟ اگرچہ حکومت نے ایک کمیٹی قائم کی ہے جو متحدہ کے خلاف ریفرنس تیار کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرے گی۔ ہمیں کمیٹی کی سفارشات کا انتظار کرنا ہوگا۔ یہ کمیٹی آئین کے آرٹیکل 17 اے کے تحت شواہد کا جائزہ لے کر الطاف حسین کے خلاف ریفرنس اور ایم کیوایم پر بطور سیاسی جماعت ان کے نظریات کے پرچار پر کارروائی کے بارے میں سفارشات تیار کرے گی۔ اٹارنی جنرل کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے ہیں۔ وفاقی سیکرٹری قانون، داخلہ اور چاروں صوبائی سیکرٹری داخلہ ان کی معاونت کریں گے۔ کمیٹی ٹرم آف ریفرنس کو بھی حتمی شکل دے گی اور پاکستان مخالف تقریر کے مواد اور اس کی حمایت سے متعلقہ شواہد اکٹھے کرے گی اور بانی ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم سے متعلقہ ان شواہد کا آئین کے آرٹیکل 17اے کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا۔ کمیٹی یہ بھی دیکھے گی کہ بیرونِ ملک بیٹھے شخص کا جرم آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے؟ اگر ہے تو برطانیہ میں اس کی سزا کیا ہے اور پاکستان میں کیا ہے؟کمیٹی یہ بھی جائزہ لے گی کہ دستورِ پاکستان کے تحت کوئی جماعت پاکستان مخالف ایجنڈے کی حمایت کرتی ہے تو اُس کے خلاف کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ پیش رفت اُس وقت ہوئی جب ایم کیو ایم لندن رابطہ کمیٹی کے رکن سلیم شہزاد دو برس بعد منظرعام پر آئے اور انکشاف کیا کہ وہ ساڑھے تین برس سے ایم کیو ایم کا حصہ نہیں رہے۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ فاروق ستار معاملات اپنے کنٹرول میں کرلیں گے۔ وفاقی حکومت نے بھی اس پیش رفت کے بعد ایم کیو ایم سے جُڑے معاملات اور متحدہ کے بانی کی پاکستان مخالف تقریر کے قانونی وآئینی جائزے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے۔ یہ کمیٹی ریفرنس تیار کرنے اور ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی سے متعلق سفارشات دے گی۔
یہاں تک تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں یکسو ہیں لیکن مملکت کے دیگر امور پر حکومت کچھ فیصلوں کے لیے تنہا پرواز کرنا چاہتی تھی اور اہم تقرریوں کے معاملے میں اپنی برتری چاہتی تھی، مگر اسے یہ موقع نہیں مل سکا اور حکومت کو سیکرٹری دفاع کے معاملے میں اپنی رائے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکومت چاہتی تھی کہ میجر جنرل عابد نظیر کو قائم مقام چارج دے کر یہ معاملہ کچھ وقت تک ٹال دیا جائے اور نومبر کے بعد ہی مستقل سیکرٹری دفاع بنایا جائے۔ لیکن سخت ردعمل کے باعث حکومت پسپا ہونے پر مجبور ہوئی اور جنرل (ر) ظہیر الحسن سیکرٹری دفاع بنا دیے گئے ہیں۔ البتہ حکومت کو کشمیر کے محاذ پر عسکری حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ صدر آزاد کشمیر کے عہدے کے لیے مسعود خان کے انتخاب کو سراہا گیا ہے اور اب وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے ارکان کے 22 وفود تشکیل دیے ہیں، یہ وفود یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے ہر اہم خطے میں جائیں گے جہاں اقوام عالم کے رہنماؤں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ ان وفود میں اگرچہ اہم ارکان شامل کیے گئے ہیں لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکانِ پارلیمنٹ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
nn