مھک

مولانا مودودیؒ اور نوجوان
۔۔۔ظفر جمال بلوچ۔۔۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے فکر و عمل سے نہ صرف معاشرے میں موجود جمود کو توڑا، بلکہ اسے ایک مثبت حرکت پذیری کے عمل میں تبدیل کردیا۔ آج علم و ادب کا ہر شیدائی نہ صرف ان کی اصطلاحات سے واقف ہے، بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت سے تسلیم بھی کرتا ہے، جو صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں بلکہ انسانیت کے دین کے طور پر سامنے آئے، یہ مولانا مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ انھوں نے دین کو ایک تحریک میں بدل دیا۔
لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے نوجوانوں میں اجتماعیت کا احساس پیدا کیا، جو آخرکار اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام پر منتج ہوا۔ اس تنظیم نے اپنی دعوت، اپنی تنظیم اور اپنی تربیت کے حوالے سے ایک ہمہ جہت پروگرام ترتیب دیا۔ اس کام کے اثرات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برابر محسوس کیے جارہے ہیں۔ بلامبالغہ آج جہاں جہاں بھی دین کے حوالے سے کوئی منظم کام ہورہا ہے، اس کی پشت پر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کا جذبہ اور وژن کام کررہا ہے۔ اگرچہ یہ علم، دلیل اور حکمت مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے، لیکن اس سے کام لینے کا درس مولانا مودودیؒ نے ہی اس دور میں دیا اور نوجوانوں نے اسے وظیفۂ زندگی بنا لیا۔ یہ نوجوان عملی زندگی میں داخل ہوئے تو ان میں سے کئی ایک نمک کی کان میں نمک بن گئے، لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں، جنھوں نے اپنی شناخت اور پہچان کو گم نہ ہونے دیا۔ جنھوں نے مقصدِ زندگی سے تعلق کو قائم رکھا۔ یہ علم کے حصول میں ایک سے دوسری جگہ پہنچے یا تلاشِ معاش نے انہیں آمادۂ سفر کیا، ہر حال میں انھوں نے اپنا رنگ برقرار رکھا اور اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔
آج کوئی چاہے تو اپنے تعصب کے باعث اسلام کو کوئی بھی برا نام دے ڈالے، لیکن مولانا مودودیؒ کی طرف سے دی جانے والی علم، دلیل اور حکمت کی روشنی اپنا راستہ خود بنا رہی ہے۔ مجھے کچھ عرصہ امریکہ اور کینیا میں رہنے کا اتفاق ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں دین کی دعوت پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒ سے اختلاف رکھنے والوں نے بھی ’’دینیات‘‘ کو دعوت کے ابلاغ کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھا اور اسے اپنایا۔ میں ایک مرتبہ مشی گن کے ایک نواحی علاقے میں گیا، جو اپنے جرائم کے حوالے سے کبھی بہت مشہور تھا، لیکن اب وہاں کے کالوں کی اکثریت مسلمان ہوچکی ہے۔ وہ جگہ جہاں دن کے اجالے میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا، اب وہاں رات کو بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہاں کی مسجد میں ایک نیگرو نوجوان نے جو امام تھا، مولانا مرحوم کی کتاب Towards Understanding Islam (دینیات) کو ہاتھ میں لہراتے ہوئے کہا: ’’اس کتاب نے یہاں کے مکینوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا ہے‘‘۔
یوں مولانا مودودیؒ کو نوجوان سفارت کار ملے، جنھوں نے دنیا کے کونے کونے تک اسے پہنچایا، اور یہ وہی نوجوان تھے جن کی تربیت خود مولانا مرحوم کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔
(’’کچھ باتیں، کچھ تاثرات‘‘۔۔۔ماہنامہ ترجمان القرآن، مئی 2004ء)