(حکمت یار کی واپسی (امان اللہ شادیزئی

حزبِ اسلامی اور افغانستان کی حکومت کے درمیان 25 نکاتی معاہدے کا پہلا مرحلہ طے ہوگیا ہے۔ اب اس معاہدے پر صدر اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار دستخط کریں گے۔ کابل میں ابتدائی مسودے پر حزب اسلامی کی جانب سے حزب اسلامی فرانس کے صدر انجینئر امین کریم، امن کونسل کے سربراہ پیر سید احمد گیلانی اور رکن مولوی عطا الرحمن سلیم نے دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے اہم نکات یہ ہیں:
حزبِ اسلامی کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیے جائیں گے، سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہوگی، حزب اسلامی مسلح مزاحمت نہیں کرے گی، انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
گلبدین حکمت یار نے 40 سال جہاد کیا اور تاریخ رقم کی۔ افغانستان کے جہاد میں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ افغانستان میں آبادی کے لحاظ سے پشتون اکثریت میں ہیں اور پھر اس کے بعد تاجک ہیں۔ احمد شاہ مسعود کو ایک منصوبے کے تحت ہلاک کردیا گیا۔ وہ ایک طاقتور گوریلا کمانڈر تھے اور پروفیسر برہان الدین ربانی پر انہیں بالادستی حاصل تھی۔ سوویت یونین سے تاریخی مزاحمت کے دوران گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف، پروفیسر ربانی، مولوی محمد نبی، احمد گیلانی نے شہرت حاصل کی۔ گلبدین کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے ہمراہ افغان فوج کے آفیسر اور عام سپاہی تھے، انہوں نے نوجوانوں کو زیادہ متاثر کیا اور اُن کے تعلقات جماعت اسلامی سے زیادہ قریبی تھے، اور انہوں نے مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے زیادہ استفادہ کیا۔ ان کی ملاقاتیں مولانا مودودیؒ اور قاضی حسین احمدؒ سے بہت زیادہ تھیں۔ قاضی صاحب کا احترام تمام مجاہدین لیڈر کرتے تھے اور جماعت اسلامی نے ان کی سب سے زیادہ مہمان نوازی کی اور تعاون کیا۔ اس تمام مجاہدین لیڈرشپ میں گلبدین کی شخصیت زیادہ متوازن تھی اور حالات پر ان کی گہری نظر تھی۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان گلبدین حکمت یار سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان کے جلسوں میں گلبدین کے لیے نعرے گونجتے تھے۔ گلبدین دیگر قیادت کے مقابل Hard Liner کی شہرت رکھتے تھے۔ باقی لیڈرشپ میں یہ صلاحیتیں نہ تھیں۔ افغان فوج کا زیادہ حصہ گلبدین کی حزبِ اسلامی میں شریک تھا۔ سردار داؤد کے قتل کے بعد افغانستان میں جہاد کا آغاز ہوگیا اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی گئی، اور اُس وقت اس میں شدت پیدا ہوگئی جب سوویت یونین کی سرخ فوج دسمبر 1978ء میں افغانستان کی مقدس سرزمین میں داخل ہوگئی۔ سوویت یونین کے داخل ہونے کے بعد مغرب کو ہوش آیا اور انہوں نے سرخ خطرے کو زیادہ محسوس کیا۔ امریکہ کو احساس ہوا کہ سوویت یونین اگر افغانستان میں کامیاب ہوگیا تو مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والے ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور خلیج کونسل کے ممالک اس کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات خطرے میں نظر آئے، اور پاکستان کا اپنا خوف تھا، ان خدشات اور خوف نے عرب ممالک، پاکستان اور مغرب کو یکجا کردیا اور مجاہدین کے لیے اسلحہ اور ٹریننگ کا مکمل انتظام ہوگیا۔ اور پھر ہم سب اس کے شاہد ہیں کہ سوویت یونین کو افغان جہاد نے دنیا کے نقشے سے محو کردیا۔ امریکہ اور مغرب کا اپنا مفاد تھا، مسلم دنیا کا اپنا مفاد تھا، ان سب نے مل کر سوویت یونین کو افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار کردیا اور مجاہدین سرخرو ہوگئے۔
اس کے بعد کابل پر اقتدار کی خواہش نے مجاہدین میں انتشار پیدا کردیا اور وہ آپس میں متصادم ہوگئے۔ اس کھیل میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کا ہاتھ تھا۔ اس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور افغانستان سے مجاہدین کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کھیل میں نوازشریف اور بے نظیر مکمل شامل تھے، اور ان کی پشت پر امریکن سی آئی اے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ اس کے بعد طالبان کو اقتدار دیا گیا اور پھر امریکہ نے پاکستان کی مدد سے طالبان کا تیاپانچہ کردیا۔ یوں ان شاطر قوتوں کی وجہ سے پہلے مرحلے پر مجاہدین کے ہاتھ سے افغانستان کو نکالا گیا، اس کے بعد طالبان کو نکال کر حامد کرزئی کو حکومت دی گئی۔ اس میں مجاہدین کی تمام تنظیموں کو جس میں شیعہ تنظیمیں بھی شامل تھیں، اقتدار میں شریک کرلیا گیا اور تمام مجاہد تنظیمیں امریکی کھیل کا حصہ بن کر حامد کرزئی کی حکومت کا حصہ بن گئیں، لیکن حزب اسلامی علیحدہ رہی، البتہ اس کے کچھ منحرف رہنما حکومت میں شامل ہوگئے اور وہ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ حزب اسلامی کے قائد اور طالبان حکومت سے باہر تھے۔ گلبدین نے پوری کوشش کی کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے میں شریک ہوجائیں اور متحدہ ہوکر جدوجہد کریں، لیکن طالبان اور حزبِ اسلامی اکٹھے نہ ہوسکے۔ اس میں بھی خفیہ ہاتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اب گلبدین کے سامنے دو راستے تھے، ایک یہ کہ وہ اپنی جدوجہد ختم کرنے کا اعلان کرتے اور افغانستان کو چھوڑ دیتے اور جلاوطن ہوجاتے۔ اس لیے کہ ان کی پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوچکا تھا اور کئی لیڈر پارٹی چھوڑ چکے تھے، پاکستان نے بھی ہاتھ کھینچ لیا تھا، ایران سے بھی گلبدین کے تعلقات ایک لحاظ سے ختم ہوچکے تھے، اس لیے گلبدین کے لیے صرف ایک راستہ کھلا تھا، اور وہ تھا صلح کا راستہ۔ گلبدین نے تمام پہلوؤں پر غور کرکے سیاسی عمل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ انتخابات سے قبل ان کا فیصلہ درست