کھانسی

کھانسی، سینے اور پھیپھڑے کی ایک ایسی دفاعی حرکت کا نام ہے جس کے ذریعے پھیپھڑے اور ان کے قریبی اعضاء (یعنی قصبہ الریہ (TRACHEA)، حجاب حاجز (DIAPHRAGM)، حجاب منصف الصدر (MEDIASTINUM) پسلیوں کے اندرونی جانب استر کرنے والی جھلی سینے اور پہلو کے عضلات) تکلیف کو رفع کرتے ہیں۔ کھانسی کے عمل میں سینے کے عضلات اور حجاب حاجز اس قدر سختی سے سکڑتے ہیں کہ پھیپھڑے اور ہوائی نالی میں موجود نقصان دہ اشیاء ہوا کے ساتھ جھٹکے سے نکل جاتی ہیں۔
کھانسی کے اسباب اور علامات ذیل میں درج ہیں:
1۔ پھیپھڑے میں کوئی اجنبی اور عارضی چیز داخل ہوجاتی ہے جسے باہر نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانے یا پانی پینے کے دوران کھانے کے اجزا یا پانی سانس کی نالی میں داخل ہوجاتا ہے، جسے خارج کرنے کے لیے پھیپھڑے اور اس کے قریبی اعضاء سکڑ کر ہوا کا دباؤ پھیپھڑے میں بڑھا کر جھٹکے سے اجنبی چیز کو خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اجنبی اور غیر طبعی اشیا خون، بلغم، پیپ بھی ہوسکتی ہیں۔ پیپ سینے کے زخم یا پھیپھڑے کے قریبی اعضا کے زخم میں پیدا ہونے والے تعدیے(INFECTION) کے نتیجے میں پیدا ہوکر آتی ہے یا ذات الجنب (PLEURISY)کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
2۔ پھیپھڑے کے زخم یا سیل (TUBERCULOSIS) کی وجہ سے بھی کھانسی ہوتی ہے۔ اس مرض کی ابتدا پھیپھڑوں کے ورم سے ہوتی ہے۔ جسے ذات الریہ (PNEUMONIA)کہتے ہیں۔ ورم کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کو طبیعت کھانسی کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن یہ تکلیف اُس وقت تک دور نہیں ہوتی جب تک ورم پک کر پھٹ نہ جائے اور اس سے پیپ خارج نہ ہوجائے۔
3۔ جگر کے ورم سے بھی کھانسی ہوتی ہے۔ جگرکے ورم کی وجہ سے رباطات (LIGAMENTS) میں بوجھ پیدا ہوجاتا ہے جس سے جگر اور پھیپھڑے سے اتصالی تعلق رکھنے والی جھلّیوں میں تناؤ پیدا ہوتا ہے لہٰذا پھیپھڑے میں تناؤ اور کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہوائی راستے تنگ ہوجاتے ہیں۔ اگر جگر میں ورم اس کے محدب(CONVEX) حصے میں ہو تو حجاب حاجز (DIAPHRAGM) پر دباؤ پڑتا ہے اور وہ تنفس کے وقت پوری طرح پھیل نہیں پاتا۔ لہٰذا اس تکلیف کو طبیعت کھانسی کے ذریعے دور کر نے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کھانسی بہ طور علامت یا عرض کے ظاہر ہوتی ہے۔
4۔ پھیپھڑے میں گاڑھی لیس دار رطوبت جمع ہونے سے کھانسی پیدا ہوتی ہے۔ اس قسم کی کھانسی زکام کے بعد زکام کی رطوبت حلق، قصبۃ الریہ(TRACHEA) اور پھیپھڑوں پر گرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ رطوبت (بلغم) پھیپھڑوں میں پہنچ کر گاڑھی لیس دار ہوجاتی ہے اور پھیپھڑے کی دیوار سے چمٹ جاتی ہے اور شدید کھانسی کے بعد بہ مشکل بلغم باہر نکلتا ہے۔
5۔ خون کے ذریعے جو غذا دماغ میں پہنچتی ہے، بعض اوقات دماغ اسے ہضم نہیں کرپاتا، لہٰذا دماغ ان خام رطوبات سے بھر جاتا ہے۔ دماغ کی حرارت سے ان رطوبات میں بھی تیزی اور جلن پیدا ہوجاتی ہے۔ جب یہ رطوبت ہوائی نالی میں یعنی قصبۃ الریہ پر گرتی ہے تو اس کی جلن اور سوزش کی وجہ سے کھانسی اٹھتی ہے۔
اس سبب سے اٹھنے والی کھانسی خشک ہوتی ہے، بلغم خارج نہیں ہوتا۔ رات میں کھانسی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر اس قسم کی کھانسی زیادہ عرصے قائم رہے تو مرضِ سل (TUBERCLOSIS) پیدا ہوجاتا ہے، کیونکہ زیادہ عرصے تک تیز اور گرم مادہ نرم و نازک ساخت والے پھیپھڑوں پر گرنے سے اس میں زخم ہوجاتا ہے۔
6۔ بوڑھوں اور مرطوب مزاج کے لوگوں میں پھیپھڑوں کی (ذاتی) رطوبت بڑھ جاتی ہے۔ اس سے بھی کھانسی اٹھتی ہے۔ ان رطوبتوں کے بڑھنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سردی و تری کی وجہ سے دماغ نہ تو غذا کو ہضم کرپاتا ہے اور نہ ہی اس کے فضلات تحلیل ہوپاتے ہیں، جس سے دماغ فضلات سے بھر جاتا ہے، اور یہ فضلات یا رطوبت کھانسی کے ذریعے بلغم کی شکل میں خارج ہوتے ہیں۔
اس قسم کی کھانسی میں بلغم زیادتی سے خارج ہوتا ہے۔ بلغم حلق میں لیس اور گاڑھے پن کی وجہ سے چپکا رہتا ہے، کیونکہ حرارت کی کمی کی وجہ سے وہ پک نہیں پاتا۔ سانس میں خرخراہٹ ہوتی ہے کیونکہ سانس کے آنے جانے میں دشواری ہوتی ہے، نیند کے وقت یہ کیفیت بڑھ جاتی ہے اور سونے کے بعد بھی خرخراہٹ زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
7۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ صفراوی خون پھیپھڑوں میں جمع ہوجاتا ہے جس سے اس کا مزاج گرم ہوجاتا ہے اور پھیپھڑے میں تناؤ اور سوزش ہوتی ہے، لہٰذا طبیعت چیزوں کو کھانسی کے ذریعے خارج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس قسم کی کھانسی میں سانس اونچا اونچا چلتا ہے اور سانس میں گرمی زیادہ ہوتی ہے، پیاس لگتی ہے، خاص کر تھکاوٹ کے وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے، ٹھنڈی ہوا اچھی لگتی ہے۔ چہرہ سرخ ہوتا ہے، بلغم بالکل خارج نہیں ہوتا کیونکہ بہت پتلا ہوتا ہے اور بعض اوقات خصوصاً جب کھانسی زیادہ پیدا ہو اور مادہ بھی زیادہ پتلا نہ ہو تو زرد رنگ کا بلغم خارج ہوتا ہے۔
8۔ بعض اوقات پھیپھڑوں کا مزاج سرد ہوجاتا ہے جس سے پھیپھڑے کی رطوبت گاڑھی ہوجاتی ہے جسے طبیعت کھانسی کے ذریعے خارج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کھانسی کے مریض کا رنگ سفیدی کے ساتھ زردی مائل ہوجاتا ہے، خون کم بنتا ہے، جس کی وجہ سے جسم میں سفیدی پیدا ہوتی ہے جس میں ہلکی زردی ہوتی ہے۔ خون کی چمک ضائع ہوجاتی ہے، پیاس کم ہوجاتی ہے، حمام اور گرم ہوا میں سانس لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔
9۔ بعض اوقات پھیپھڑوں میں گرم و خشک مزاج پیدا ہونے سے خشکی پیدا ہوجاتی ہے۔
اس مرض میں ورزش کی زیادتی یعنی زیادہ محنت کا کام کرنے، اور بھوک پیاس کی زیادتی کے وقت مریض کو کھانسی میں زیادتی ہوجاتی ہے، کیونکہ رطوبات ختم ہونے سے خشکی بڑھ جاتی ہے، لیکن تر حمام لینے یا تری پیدا کرنے والی اشیا کے لینے سے کھانسی کم ہوجاتی ہے۔ سانس میں تنگی ہوتی ہے، بلغم قطعی نہیں نکلتا، مریض دبلا ہوتا ہے، بخار نہیں ہوتا لیکن مرض زیادہ عرصے رہے تو لاغری کے ساتھ بخار بھی ہوتا ہے، نبض سریع اور متواتر جلد جلد اور پے بہ پے چلتی ہے۔
10۔ قصبۃ الریہ(TRACHEA) میں گردو غبار اور دھواں داخل ہونے سے اس کی رطوبت کے اجزا خشک ہوجاتے ہیں اور گردو غبار و دھویں کے ذرات اس کی سطح پر جم جاتے ہیں جو خراش پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا طبیعت انہیں کھانسی کے ذریعے خارج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
11۔ چیخنے، چلاّنے یا بلند آواز میں زیادہ دیر تک تقریر کرنے سے بھی کھانسی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیخنے کے لیے سانس کو بند کرنا پڑتا ہے اور آواز پیدا کرنے والے آلات کو حرکت دینا پڑتی ہے، جس سے حرارت ان مقامات پر بڑھ جاتی ہے اور قصبہ الریہ کی جھلی کی رطوبتوں کو خشک کردیتی ہے۔
اگر رطوبت لیس دار اور گاڑھی ہو تو اسے جوشاندے کی مدد سے پکاکر لطیف کرتے ہیں۔ جوشاندہ زوفا یا انجیر، میتھی، اصل السوس، ایرسا، شہد کے ساتھ پکاکر پلانے سے بلغم کھنکار کے ساتھ خارج ہونے لگتا ہے۔
12۔اگر کھانسی نزلے کی وجہ سے ہو تو نزلہ بند کرنے کے لیے شربتِ خشخاش پلاتے ہیں اور ایسے غرغرے کراتے ہیں جس سے قبض پیدا ہو، مثلاً پوست خشخاش، بزرالنبخ، باقلانیم کوفتہ، پوست باقلا نیم کوفتہ، برگ آس، تخم کاہو، گل سرخ کو جوش دے کر اس سے غرغرے کرائیں۔
13۔اگر کھانسی کے سبب بوڑھوں اور مرطوب مزاج والوں میں پھیپھڑوں کی ذاتی رطوبت ہو جو زیادتی سے خارج تو ہوتا ہو لیکن ساتھ ہی پختہ نہ ہونے کی وجہ سے لیس دار اور گاڑھا ہوتا ہے اور حلق میں چپکا رہتا ہے جس سے سانس میں خرخراہٹ ہوتی ہے تو بلغم کو پکاکر بدن سے خارج کرتے ہیں۔ بلغم کو پکانے کے لیے بادیان، تخم کرفس، اصل السوس، زوفا، پرسیا وشاں پانی میں جوش دے کر پلاتے ہیں۔
14۔ اگر پھیپھڑے میں گرم مزاج پیدا ہوگیا ہو تو سرد اشیا کے ذریعے سکون پیدا کریں۔ مثلاً لعاب اسپغول، خمیرہ بنفشہ کھلائیں اور دوسر ے لعوق چٹائیں۔
15۔ اگر پھیپھڑے میں سرد مزاج پیدا ہوگیا ہو اور اگر سردی کا سبب بیرونی ہو مثلاً ٹھنڈا پانی، ایرکنڈیشنر وغیرہ، تو اسے بند کردیں۔ اور اگر سردی کا سبب بدنی ہو تو شہد و پیاز سے بنا ہوا گل قند، آب انجیر، مویز منقیٰ، اصل السوس کے ساتھ کھلائیں۔
16۔ اگر کھانسی پھیپھڑے میں گرم و خشک مزاج پیدا ہونے سے ہے تو ماء الشعیر، لعاب اسپغول،آب ککڑی میں شکر کا شربت حل کرکے ملائیں۔ سردی و تری پیدا کرنے والی گولیاں منہ میں رکھیں۔
17۔ اگر چیخنے، چلاّنے یا تقریر کرنے سے خراش پیدا ہوکر کھانسی ہوتی ہے تو مرض کے مقام کو چکنا کرنے کے لیے لعوق چٹائیں جو لعاب بہدانہ، لعاب اسپغول، بنفشہ، کتیرا، مغز کدو شیریں، مغز ککڑی اور خشخاش سفید سے بنائے گئے ہوں۔ ایسا حریرہ پلائیں جو چھلے ہوئے جو، خشخاش، سفید شکر و روغنِ بادام سے بنائے گئے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س: مجھے پست فشارِ خون (لو بلڈ پریشر) کی شکایت ہے۔آپ کا کیا مشورہ ہے؟(عقیل عباس،کراچی)
ج: پست فشارِ خون کے متعلق ایک بات ذہن میں رکھیے، اس سے شاذ و نادر ہی شریانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا ہے۔ بلند فشارِ خون کے خطرات کے مقابلے میں پست فشار غنیمت ہوتا ہے۔ بیمہ کمپنیوں نے دریافت کیا ہے کہ دراز ترین عمر پانے والے اکثر وہی ہوتے ہیں جن کا فشارالدم پست ہوتا ہے۔ اگر اس سے کوئی تکلیف نہیں ہے اور پیشہ ورانہ مشورہ اطمینان دلاتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں تو اس کو نظرانداز کردیجیے۔
اس حالت میں سبز پتوں والی سبزیاں مفید ہوتی ہیں۔ مختلف سبزیوں کا کچومر (سلاد) بھی اچھا ہوتا ہے۔ ہر کھانے میں اس کو شامل ہونا چاہیے۔ بالخصوص کاہو سبز بہت مفید ہے، کیونکہ اس میں لوہا ہوتا ہے جو ایسی حالت میں خاص چیز ہے۔ روزانہ ایک انڈا کھانا اور چائے کے چمچے کے بقدر گُڑ یا راب اور چاچھ بھی مفید ہے۔
اس تفصیل سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پست فشارِ خون اور اصل نقص تغذیہ کا نتیجہ ہوتا ہے، بعض آدمی یہ کہیں گے کہ ہم تو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔ بے شک وہ کھاتے ہوں گے، لیکن ان کی غذا یقیناًمتوازن نہیں ہوگی۔ متوازن غذا تب کہلاتی ہے جب اس میں یہ سات گروپ شامل ہوں: (1) پتے والی اور ہرے رنگ اور زرد رنگ کی سبزیاں، (2) سائٹرس والے پھل مثلاً نارنگیاں، کینو اور ٹماٹر، (3) آلو اور دیگر قسم کی سبزیاں، (4)گوشت، انڈے، مچھلی، گری دار میوے، (5)دودھ، دہی، چاچھ، پنیر، (6)گیہوں، چاول، مکئی اور دالیں، (7) مکھن اور گھی۔ ہماری روزانہ غذا میں ان ساتوں گروپوں کی کوئی نہ کوئی چیز لازماً شامل ہونی چاہیے۔ اس پر بھی اگر کسر رہے تو حیاتین ’ب‘ اور ’ح‘ کا مرکب استعمال کیا جائے۔
قدرتی علاج کے عاملین کچھ خاص غذاؤں کے استعمال کی سفارش کرتے ہیں، جیسے سیب کا سرکہ، سورج مکھی کے بیج اور ان کا روغن، لیسی تھین، شراب سازی کا خمیر، گیہوں کی خام بھوسی، بحری نباتات، سویا بین کے مرکبات اور مختلف حیاتین (حسبِ حال)، ان میں سے جو بھی میسر آجائے اس کو معمول بنا لیا جائے، چینی کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔
س: سال بھر ہوگیا ہے میں آسانی سے ناک کے ذریعے سے سانس نہیں لے سکتی۔ ناک ہر وقت نزلے کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ میں مخصوص غذائیں، ٹکیاں،کیپسول، نک پھوار اور ہلاس وغیرہ استعمال کرچکی ہوں، لیکن بے سود۔ (اکبری بیگم،کمالیہ)
ج:کیا آپ نے کبھی سرد پانی کو ناک میں سڑکنے کا بھی تجربہ کیا ہے (جیساکہ وضو میں کرتے ہیں)؟ اگر آپ اس کو معمول بنا لیں تو آپ دیکھیں گی کہ یہ رکاوٹ کو دور کرنے میں کس قدر مفید ہے۔ یہ قدرتی طور پر ناک کے بلغم کے اخراج کا محرک ہے۔
پانی کو ناک میں اوپر دور تک چڑھانا چاہیے(یہی مشورہ وضو میں بھی دیا جاتا ہے)، یہاں تک کہ ناک کے پیچھے جو جوف ہے اس کے آخر تک پہنچ جائے۔ چلّو میں پانی لے کر زور سے سڑکیں۔ اس عمل سے اعصاب کے آخری سروں کو تحریک ہوتی ہے اور دماغ قوی ہوتا ہے۔ یہ عمل دن میں کئی بار کریں۔ تین سے پانچ، سات مرتبہ تک اس طرح پانی سڑکیں۔ سرد پانی میں سکیڑنے کی بھی تاثیر ہوتی ہے۔ یہ عارضی طور پر اندرونی ناک کی جھلی کو سکیڑتا اور رگوں کو نچوڑتا اور پھر صاف کرکے پھیلا دیتا ہے اور سانس کے راستے کو کشادہ کردیتا ہے۔ یہ ناک کے جوف کو صاف اور کشادہ رکھنے اور رکاوٹ کو رفع کرنے کی بہترین تدبیر ہے۔ ناک کو اس طرح غسل دینے سے ناک نہ صرف صاف ہوتی ہے بلکہ آنکھوں سے آنسو بہنے سے آنکھ بھی دُھل جاتی ہے اور اس میں چمک آجاتی ہے۔
س: میرے پیروں کے تلوے گرم رہتے ہیں اور ان سے خوب پسینہ رستا ہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ (عبداللہ شاہ، خان پور)
ج: اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ناقص اخراجِ فضلات اس ’’خود مسمومیت‘‘ کا ذمہ دار ہے۔ ماہرین کے خیال میں اچھی صحت اس بات پر موقوف ہے کہ جسم کے ہر خلیے کو مناسب غذا ملتی رہے اور اس کے فضلات ہر وقت خارج ہوتے رہیں۔
(باقی صفحہ 49 پر)
اگر دھویں کے نکلنے کی نالیاں کوڑے کرکٹ سے اٹ جائیں تو بھی اچھی طرح اپنا فعل انجام نہیں دے سکیں گی۔ تندرست انسان کے بہت سے فضلات پھیپھڑے، آنتوں اور گردوں سے خارج ہوتے ہیں۔ اگر فضلات کا اخراج ناقص ہو تو جسم کو فضلات کے اخراج کے لیے دوسرا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ پیروں سے پسینے کا بہاؤ تکلیف دہ فضلات کے اخراج کی متبادل کوشش ہے۔ نظام جسم میں فضلات کے رک جانے سے غنودگی سی طاری رہتی ہے اور طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے۔ فضلات کے اخراج کے لیے جگر کے فعل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ یہ زہریلے مادوں کے اخراج کا سب سے اہم عضو ہے۔
س: میرا بچہ تین ماہ کا ہے۔ اس کے کان میں درد ہے۔ روتے ہوئے ہاتھ کان کی طرف لے جاتا ہے۔ (اُم جمال، ملتان)
ج: لگتا ہے آپ کو بچوں کو پالنے کا تجربہ ہے۔ آپ نے صحیح اندازہ لگایا کہ بچے کے کان میں درد ہے۔ آپ کھانوں میں لہسن تو ڈالتی ہوں گی، لہسن کی دو کلیاں تل کے تیل میں جلا کر بچے کے کان میں ہلکا گرم ڈالیں،آرام آجائے گا۔