(کشمیروں کی نسل کشی اور پاکستان کے خلاف امریکہ ،بھارت گٹھ جوڑ (پروفیسرشمیم اختر

بھارت،افغانستان گٹھ جوڑ پاکستان کے خلاف بھرپور فوجی اور اقتصادی پابندیاں لگانے میں کوشاں ہے تاکہ عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ افغانستان میں مقامی آبادی کی جدوجہدِ آزادی سے ہٹاکر پاکستان کو داخلی بحران میں مبتلا کرکے مندرجہ بالا مقبوضہ علاقوں پر اپنا اپنا (بھارت اور امریکہ) قبضہ مستحکم کرلیں۔ یاد رہے مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ افغانستان کی آبادی بھارت اور امریکہ کے قبضے سے آزادی کی جدوجہد کررہی ہے جس میں انھیں پاکستان کی سیاسی حمایت حاصل رہی ہے، کیونکہ اس خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے پاکستان بھارت اور امریکہ کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ بھارت کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست میں سلامتی کونسل کی نگرانی میں استصوابِ رائے عامہ کرائے کہ آیا وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے۔ جبکہ افغانستان میں حکومتِ پاکستان قابض امریکی فوج اور افغان طالبان کے مابین مصالحت کرانا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت اور امریکہ دونوں ملک گیری کی ہوس میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ افغانستان کے بارے میں بھی اقوام متحدہ افغانستان سے غیر ملکی افواج اور ملیشیاؤں کے انخلا کے بعد اس ملک میں وسیع البنیاد غیرجانبدار اور اسلامی تشخص کی حامل حکومت کے قیام کی ہدایت کرچکی ہے، لیکن جیسا کہ اوپر کی سطور میں بیان کیا جاچکا ہے یہ دونوں قابض ریاستیں کشمیر اور افغانستان پر اپنا ناجائز قبضہ خالی کرنے سے منکر ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ غیر ملکی فوجی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد ہے جو اقوام متحدہ کی 1970ء کی قرارداد کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح دیگر ریاستوں کو مقبوضہ ممالک کے عوام کی جدوجہدِ آزادی کی ہر طرح سے مدد کرنے کی اجازت ہے (اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرارداد1971)۔ چنانچہ امریکہ اور بھارت دونوں قابض ریاستیں پاکستان سمیت دوسری تمام ریاستوں کو کشمیری اور افغان عوام کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت سے روکنے کے لیے ایک گھسا پٹا پروپیگنڈا استعمال کررہی ہیں جو نوآبادیاتی طاقتیں الجزائر، ویت نام، رہوڈیشیا، جنوبی افریقہ کے حریت پسندوں کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں، وہ یہ ہے: (1) غیر ملکی قبضے سے اپنے وطن کو آزاد کرانے والی حریت پسند تنظیمیں دہشت گرد ہیں۔ چنانچہ الجزائر کی تنظیم آزادی FLN، جنوبی افریقہ کی نیشنل کانگریس اور جنوبی رہوڈیشیا کی محاذ آزادی اور فلسطین کی تنظیم آزادی فلسطین دہشت گرد ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس کشمیر کی لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اور جیشِ محمد دہشت گرد تنظیمیں ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کا سابق بھارتی گورنر جگ موہن اور مودی سرکار کی قابض فوج مظلوم، بے گناہ اور معصوم ہے جس نے کشمیر میں اسّی تا ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کردیا اور آج بھی 8 جولائی کو برہان مظفر وانی کے قتل کے بعد سے برپا شورش میں بھارتی فوج نے 103 افراد کو ہلاک اور پیلٹ گن سے سات سو سے زائد افراد بشمول عورتوں اور بچوں کو بینائی سے محروم کردیا ہے۔ قابض فوج نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے جو تادم تحریر 73 دن سے جاری ہے۔ اس دوران متاثرہ آبادی خوراک، ادویہ اور دیگر ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوگئی ہے۔ لوگ عیدالاضحی، جمعہ اور معمول کی نمازیں نہیں ادا کرسکتے۔ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ منگل 20 ستمبر 2016ء)
کشمیریوں کی نسل کشی پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت 18 ستمبر 2016ء کو بارہ مولا کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے 17 فوجیوں، جب کہ اوڑی فوجی ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ پار حملوں میں ایک فوجی کی ہلاکت پر ماتم کررہا ہے اور استعماری ٹولے میں کہرام مچا ہوا ہے۔ فرانسیسی، برطانوی اور امریکی حکام قابض بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر تعزیتی پیغامات بھیج رہے ہیں لیکن سو سے زائد کشمیری عوام کے قتل عام اور سات سو سے زائد مرد، زن اور اطفال کو بینائی سے محروم کرنے والے بھارتی درندوں کی مذمت نہیں کرتے اور الٹا کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ اگر انہیں حقائق معلوم کرنا ہیں تو بھارت سے کیوں نہیں سوال کرتے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو آنے سے کیوں منع کردیا۔ بھارت کے طول و عرض میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفاتر کیوں بند کرائے؟ (جنگ منگل 20 ستمبر 2016) اور کنٹرول لائن کی نگرانی کرنے والے سلامتی کونسل کے فوجی مبصرین کو بھارت سے کیوں نکال دیا؟
کیا یہ کشمیری عوام کے خلاف امریکہ، برطانیہ، فرانس کی سازش نہیں ہے؟ کیا یہ طاقتیں کشمیریوں کی نسل کشی کی حمایت کرکے اس سنگین جرم کی مرتکب نہیں ہورہی ہیں؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہیں بھارت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ جنگ زدہ صورت حال کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مبصرین کے لیے اپنے بند دروازے کھول دے۔ اور بین الاقوامی مبصرین بھارت کے فوجیوں اور حریت پسندوں میں سے جن جن افراد کو جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب قرار دیں انہیں بین الاقوامی تعزیراتی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔
کیا بھارت، امریکہ، فرانس، برطانیہ اس پر آمادہ ہیں؟
یہی حل مقبوضہ افغانستان میں دہرایا جانا چاہیے کہ
(1) امریکہ نے عراق کی طرح طالبان پر 11 ستمبر(2001ء) کے حملے کا الزام لگایا تھا وہ درست ہے یا بے بنیاد؟
(2) امریکہ نے افغانستان کی شہری، دیہی اور قبائلی بستیوں پر ڈیزی کٹر بم گرائے تھے یا نہیں؟
(3) امریکی حملہ آوروں نے مساجد، مدارس، خانقاہوں پر بمباری کی تھی یا نہیں؟
(4) امریکی حملہ آوروں نے طالبان کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کے ساتھ مع رائفلوں کے گروپ فوٹو کھنچوائے تھے یا نہیں؟
(5) امریکی قابض فوج نے مشتبہ افغان جنگجوؤں کو بلافردِ جرم عائد کیے بگرام کے عقوبت خانے میں ذہنی، جنسی، جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا یا نہیں؟
(6) امریکی قابض فوجیوں نے گاؤں میں راتوں کو گھروں میں کود کر مردوں کو قتل اور عورتوں کی عصمت دری کی تھی یا نہیں؟
(7) کیا زیر حراست افغانوں سے اقبالِ جرم کرانے کے لیے امریکی فوجی پانی سے بھرے حوض میں ان کے سروں کو ڈبویا کرتے تھے یا نہیں؟
(8)کیا یہ احکامات خود جارج بش نے افغانستان کی قابض فوج کو نہیں دیے تھے؟
(9)کیا یہ جنیوا کنونشن سوم برائے اسیران جنگ مجریہ 12 اگست 1949 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
(10) کیا ان جنگی جرائم کے مرتکبین کو قانون کے مطابق سزائیں ملیں؟
(11) کیا مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ افغانستان میں مندرجہ بالا انسانیت سوز جرائم کے مرتکبین کو بین الاقوامی برادری نے جنگی مجرم یا دہشت گرد قرار دیا؟
نہیں۔۔۔ اس لیے کہ یہ انھی کے کرتوت ہیں پھر وہ اس کی مذمت کیوں کریں گے؟
لیکن پاکستان کی سابق حکومت نے امریکہ اور سلامتی کونسل کے دباؤ پر الٹا لشکر طیبہ، حقانی نیٹ ورک اور جیشِ محمد کو دہشت گرد قرار دے دیا اور ان کی گرفتاری اور ان کے اثاثوں کو ضبط کرنے کی ہامی بھر لی۔ لیکن موجودہ حکومت کو امریکہ اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ بھارت کی قابض فوج کو کشمیریوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دے اور امریکی صدر اور فوجیوں کو افغانستان میں جنگی جرائم کی پاداش میں سزا دینے کا مطالبہ کرے۔ nn