کی صبح پانچ بجے لائن آف کنٹرول سے بیس کلومیٹر دور مقبوضہ کشمیر کے قصبے اوڑی میں بھارتی فوج کے کیمپ میں چار افراد نے داخل ہوکر زوردار حملہ کیا۔ یہ چاروں افراد خودکار رائفلوں، دستی بموں اور بارود سے مسلح تھے۔ انھوں نے فوجی چھاؤنی کے اندر داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کی۔ یہ معرکہ چار گھنٹے تک جاری رہا۔ حملے میں 17 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارتی فوج کی طرف سے 4 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ فوجی چھاؤنی پر حملے کے بعد بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اپنا دورۂ روس اور امریکہ ملتوی کردیا اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرنے کا روایتی بھارتی کھیل شروع ہو گیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ حملے کے مرتکب افراد سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ راج ناتھ سنگھ نے اعلان کیا کہ اس حملے میں پاکستان ملوث ہے اور پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دے کر تنہا کیا جائے۔ بھارتی فوج کے اہلکاروں نے یہ کہنا شروع کیا کہ حملہ آور چند دن قبل کنٹرول لائن عبور کرکے مقبوضہ علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ دونوں طرف کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا، پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ اگر بھارت کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پاکستان کو فراہم کیے جائیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، ترجمان دفتر خارجہ اور دیگر تمام نمائندوں کی طرف سے بھارتی الزام کو مسترد کیا گیا۔ خواجہ آصف نے تو غیر مبہم انداز میں کہا کہ پورے کشمیر میں آگ لگی ہوئی ہے اور ظلم کے بعد ردعمل نہ آنے کی توقع کرنا حقیقت سے چشم پوشی ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنے فوجی کیمپ پر حملے کا ناٹک رچایا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں شدید کشیدگی پہلے ہی موجود تھی، جس کا گراف اس واقعے کے بعد بہت اوپر چلا گیا ہے۔ اس لیے کچھ دفاعی مبصرین اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ بھارت اپنی خفت مٹانے کے لیے کنٹرول لائن پر چکوٹھی اور کوٹلی سیکٹروں میں سرجیکل اسٹرائیکس کی حماقت کرسکتا ہے۔ ایسا ہوا تو معاملہ سرجیکل اسٹرائیکس تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ایک باقاعدہ جنگ کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے اندر بھی حکومت اور فوج کے درمیان اوڑی حملے کے جواب کے انداز اور طریقے پر بحث چل رہی ہے۔ اس جنگ کی شدت اور حدت کیا ہوگی؟ یہ تصادم روایتی جنگ تک محدود رہے گا یا اس تصادم میں ایٹمی عنصر بھی داخل ہوگا؟کیا یہ ستّر سال کا فیصلہ کن تصادم ہوگا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، مگر بھارت کی فوجی قیادت خود اپنے فوجیوں کی صلاحیتوں سے بھی آگاہ ہے اور اسے پاکستان کے جوابی ردعمل کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ انڈین ایکسپریس نے بھارتی وزیراعظم کے مشیر خارجہ برائے قومی سلامتی اجیت دوال کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس کی خبر دی ہے جس میں کنٹرول لائن کے قریب پاک فوج کی بعض ایسی چھاؤنیوں پر حملے کے آپشن پر غور کیا گیا جہاں سے بقول اُن کے دراندازوں کو اندر داخل کرنے میں مدد دی جاتی ہے، مگر اس کے لیے شرط بھارتی فوج کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہونا ہے۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے ٹھکانوں پر حملے میں مسئلہ یہ ہے کہ ایسے کسی ٹھکانے کا ثبوت ہی نہیں کہ جہاں سے لوگ تیار ہوکر کشمیر میں داخل ہوتے ہوں۔ ممبئی حملوں کے بعد بھی بھارت نے ان آپشنز پر غور کیا تھا۔ امریکہ نے اس بات کی سفارش کی تھی کہ پاکستان علامتی طور پر ہی سہی، مگر بھارت کو آزادکشمیر کے اندر سرجیکل اسٹرائیکس کی اجازت دے تاکہ بھارت کی مشتعل رائے عامہ کو مطمئن کیا جا سکے۔ بھارت کے یہ مطالبات جاری ہی تھے کہ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے مظفرآباد کے نواح میں ایک پہاڑ کے دامن میں جماعت الدعوۃ کے ایک مرکز پر ہیلی کاپٹر سے چھاپہ مارا تھا اور وہاں سے کئی افراد کو ساتھ لے گئے تھے۔ بعد میں پتا چلا تھا کہ ان میں جماعت الدعوۃ کے راہنما ذکی الرحمان لکھوی بھی شامل تھے جنھیں بھارت اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے رہا تھا۔ اُس وقت بھی پاکستان نے ’’انوکھے لاڈلے‘‘ کی سرجیکل اسٹرائیکس کی خواہش کو مسترد کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ سرحدی خلاف ورزی کا مطلب جارحیت لیا جائے گا اور اس کے جواب کے لیے بھارت کو تیار رہنا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں عوامی مزاحمت سے عاجز آچکا ہے۔ تین ماہ ہونے کو ہیں بھارت کی بڑائی، سپرپاور اور سیکولر جمہوریہ کے دعووں کے چیتھڑے سری نگر کی گلیوں میں اُڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت کشمیری عوام پر ایسے ناقابلِ بیان مظالم ڈھا رہا ہے جو ایک امن پسند آدمی کو بھی خودکش بننے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اب موبائل، فیس بُک اور ٹویٹر کا زمانہ ہے، مظالم چھپے نہیں رہ سکتے۔ بھارتی فوجیوں کی طرف سے نوجوانوں پر تشدد کی وڈیوکلپس سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ لاشوں کی بے حرمتی کو بھی ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔۔۔ اور یہ سب کچھ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ اس ظلم نے کشمیر کے اندر نوجوانوں کو مشتعل کررکھا ہے اور وہ بھارتی فوج اور پولیس سے اسلحہ چھین رہے ہیں۔ رواں ماہ پولیس اہلکاروں اور گارڈز سے اسلحہ چھیننے کے گیارہ واقعات رونما ہوچکے ہیں، ان میں مقبوضہ کشمیر کی حکمران جماعت پی ڈی پی کے رکن اسمبلی کے گھر کے باہر متعین چار گارڈز سے چھینا جانے والا اسلحہ بھی شامل ہے۔ برہان مظفر وانی کی ساری عسکری تربیت جنوبی کشمیر میں کُکر ناگ کے جنگلوں میں ہوئی، وہیں اس کا سراپا تراشا جاتا رہا جو یہ بتا رہا ہے کہ پہلے کشمیریوں نے عسکری تربیت میں خودانحصاری حاصل کی تھی، اب وہ اسلحہ میں خودکفالت کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ ایک کشمیری صحافی کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ گیارہ مقامی عسکری لڑنے کے لیے میدان میں اُتر آئے ہیں۔ اوڑی کیمپ پر حملہ بھی ایسے ہی کسی مشتعل مقامی عنصر کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔
برہان مظفر وانی جس کی شہادت نے آج کشمیرکو آگ کا الاؤ بنا رکھا ہے، یہ نوجوان نہ پاکستان کا تربیت یافتہ تھا، نہ وہ پاکستان آیا تھا۔ یہ ایک مقامی پوسٹر بوائے تھا، بندوق اُٹھائے ہوئے اس کی تصویر کو کشمیری نوجوان آئیڈیلائز کرتے تھے۔ یہ کشمیر کے جنگلوں میں ہی رہا، وہیں تربیت حاصل کی، وہیں لڑا اور جام شہادت نوش کیا۔ بھارت نے تو برسوں پہلے باڑ لگاکر کنٹرول لائن سے دراندازی روکنے کا سامان کردیا تھا اور اُس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے بھارت کو پوری طرح اکاموڈیٹ بھی کیا تھا، تو اب دراندازی کا واویلا اپنے اندر وزن نہیں رکھتا۔ بھارت نے سیکڑوں نوجوانوں کو بینائی سے محروم کردیا، سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے، زخمیوں سے کشمیر کے ہسپتال اٹے پڑے ہیں۔ اب سترہ فوجیوں کی ہلاکت کا واقعہ رونما ہونے سے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے بھارت کے لیے کوئی قیامت برپا ہوگئی۔ جن کے بچے اندھے ہوکر ہسپتالوں میں پڑے ہیں، جن کے مستقبل قبرستانوں کی خاک میں ملتے ہیں، جن کے خواب خون کی تندی میں بہہ رہے ہیں اُن سے کسی بھی ردعمل کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی سے امید نہیں چھینی جانی چاہیے، امید چھن جائے تو زندگی بوجھ لگنے لگتی ہے اور پھر جان لینے اور دینے کا عمل معمول کی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے۔
nn