سلیم احمد پر گفتگو آسان بھی ہے

سلیم احمد پر گفتگو آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ ان سے ملنے والے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ انہیں سر سے پیر تک جانتے ہیں۔ اس آسانی کی تفصیل یہ ہے کہ سلیم احمد کے بلند ادبی قدوقامت اور تمام تر شہرت کے باوجود ان سے ملنے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ آپ کسی تعارف کے بغیر محض شاعر یا ادیب یا ادب کے قاری ہونے کی بنیاد پر کسی بھی وقت ان کے گھر پر دستک دے کر ان سے ملاقات کرسکتے تھے۔ فی زمانہ جو شخص اتنا سہل الحصول ہو اس کے بارے میں بے شمار لوگوں کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اس شخص میں کوئی عظمت نہیں ہے، عظمت ہوتی تو اس شخص سے ملنا اتنا آسان کیوں ہوتا! اس تناظر میں ہم نے سلیم احمد سے ملنے والے بعض لوگوں کو سلیم احمد پر اس طرح گفتگو کرتے ہوئے دیکھا کہ اگر وہ سلیم احمد کو Grace Marks نہیں دیں گے تو شاعری اور تنقید کے پرچے میں سلیم احمد کا پاس ہونا دشوار ہے۔ لیکن سلیم احمد اُن لوگوں میں سے تھے جنھیں سمجھنے کے لیے صرف قربت کی نہیں ’’محبت آمیز قربت‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ سلیم احمد کو سمجھنے کے لیے آدھی بات ہے۔ ان کو سمجھنے کے حوالے سے پوری بات یہ ہے کہ سلیم احمد کو سمجھنے کے لیے قربت اور دوری دونوں ضروری ہیں۔ سلیم احمد پر گفتگو اس لیے بھی دشوار ہے کہ ہمارا زمانہ اکہری شخصیتوں یا Single Dimensional Personality کا زمانہ ہے اور ہم ایسی ہی شخصیتوں کو دیکھنے، انھیں سمجھنے اور ان پر بات کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ مگر سلیم احمد ایک کثیرالجہات شخصیت تھے۔ وہ شاعر تھے، نقاد تھے، ڈراما نگار تھے، کالم نویس تھے، انھوں نے فلمیں لکھیں، مکالمات کی ہزاروں محفلیں برپا کیں۔ چنانچہ سلیم احمد کی شخصیت اور فکر کی قلت کو سمجھنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم احمد کے انتقال کو 33 سال ہوگئے ہیں مگر ان کی شخصیت بالخصوص ان کے فن پر سراج منیر کے مضمون کے سوا کوئی ڈھنگ کا مضمون موجود نہیں۔ لیکن بہرحال سلیم احمد کی فنی زندگی میں اصل اہمیت ان کی تنقید اور شاعری کی ہے۔ تنقید کا ذکر آتا ہے تو سلیم احمد کے ساتھ ان کے استاد محمد حسن عسکری کا حوالہ ضرورآتا ہے۔ عسکری اور سلیم احمد کی تنقید کی اہمیت یہ ہے کہ جس شخص نے عسکری اور سلیم احمد کی تنقید نہیں پڑھی وہ اردو ادب کے بارے میں کوئی بنیادی بات نہیں جانتا۔ اردو ادب کے بارے میں ثانوی باتیں بتانے والے تو بہت ہیں اور ثانوی باتیں بتانے والے بھی غیر اہم نہیں ہوتے، لیکن اردو ادب کے بارے میں جتنی بنیادی باتیں عسکری اور سلیم احمد نے بتائی ہیں اتنی باتیں کسی اور نقاد نے نہیں بتائیں۔ ان دونوں کی تنقید کی عظمت یہ ہے کہ انھوں نے ہماری تہذیب کے معلوم کو محسوس کا، مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنادیا ہے۔ عسکری اور سلیم احمد نے اپنی تنقید میں وہ سوالات اٹھائے ہیں جو ہماری تہذیب کے بنیادی سوالات ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سوالات ہماری تہذیبی ترجیحات اور تہذیبی حسیت یا Cultural Sensibilityکے دائرے میں رہتے ہوئے اٹھائے گئے ہیں۔ یہ کام کتنا دشوار ہے اس کا اندازہ کلیم الدین احمد کی تنقید پڑھنے سے ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد کا شمار اردو ادب کے بڑے نقادوں میں ہوتا ہے۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کا مطالعہ قاموسی تھا مگر ان کے تہذیبی فہم اور ثقافتی حسیت کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن قرار دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ غزل کو سمجھتے تھے نہ وحشی کا شعور رکھتے تھے۔ انھیں صنف کا فہم تھا اور نہ انہیں ہماری تہذیبی روایت میں سخن کے معنی کا ادراک تھا۔ لیکن تنقید میں عسکری اور سلیم احمد کا ذکر ایک ساتھ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں کوئی فرق ہی نہیں تھا۔ عسکری صاحب کی شخصیت کا خمیر علم سے اٹھا تھا، چنانچہ وہ محبت پر گفتگو کرتے تھے تو اسے بھی ’’علم‘‘ بنادیتے تھے۔ سلیم احمد کا خمیر محبت سے اٹھا تھا چنانچہ انھوں نے علم پر بھی اس طرح گفتگو کی ہے کہ اسے ’’محبت‘‘ بنادیا ہے۔ نثر زبان کی چہل قدمی اور شاعری زبان کا رقص ہے، مگر سلیم احمد نے تنقید میں ایسی نثر لکھی ہے کہ انھوں نے نثر کو بھی زبان کا رقص بنادیا ہے۔ عسکری صاحب کی تنقیدی نثر ’’کمال‘‘ ہے، مگر زبان کے رقص بن جانے کی یہ خوبی عسکری صاحب کی نثر میں بھی نہیں ہے۔ جدید اردو غزل میں ’’بڑی شاعری‘‘ کا امکان صرف دو شاعروں میں تھا، ایک عزیز حامد مدنی میں اور دوسرے سلیم احمد میں۔ مدنی صاحب کا شاعرانہ ہنر یا Poetic Skill سلیم احمد سے زیادہ تھا، مگر اس کی ایک وجہ ہے۔ مدنی صاحب کے پاس مواد کم تھا۔ کم مواد میں ’’کمال‘‘ پیدا کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سلیم احمد کے پاس اتنا شاعرانہ مواد تھا کہ ان کے معاصرین میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھنا ہو تو کہا جائے گا کہ مدنی صاحب ایک ایسے کمہار تھے جنہیں پانچ کلو مٹی سے صرف پیالے بنانے تھے۔ اس کے برعکس سلیم احمد ایک ایسے ’’ظروف ساز‘‘ تھے جنہیں پچاس کلو مٹی سے پیالے بھی بنانے تھے، گلدان بھی، انہیں صراحیاں بھی بنانی تھیں اور تلواریں بھی۔ چنانچہ ان کے لیے اپنی تخلیق میں حسن پیدا کرنا بہت زیادہ مشکل تھا۔ اس کے باوجود شاعری میں سلیم احمد کی خلاّقانہ صلاحیت بے مثال تھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’بیاض‘‘ ہے۔ بیاض گزشتہ پچاس سال کی اردو غزل کا سب سے بڑا ’’شاعرانہ تجربہ‘‘ ہے اور اس کی نوعیت ایک اعتبار سے تاریخی ہے۔ بیاض سے پہلے اردو شاعری کئی تہذیبی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل کا شکار ہوگئی تھی۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ شاعروں نے الفاظ، موضوعات اور طرزِ احساس کی سطح پر شاعرانہ اور غیر شاعرانہ کی تخصیص کرلی تھی۔ یعنی ان کی نظر میں کچھ الفاظ اور موضوعات اور احساس کی بعض صورتیں شاعرانہ تھیں اور بعض غیر شاعرانہ۔ یہ صورت حال کسی شاعرانہ یا تہذیبی ضرورت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ شاعروں کا شعور اتنا گہرا اور قوی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ پوری زندگی کے پورے تجربے کو گرفت میں لے سکتے۔ یہ ایک ہولناک صورت حال تھی اور اس میں پوری زبان کے شاعرانہ امکانات کے زائل ہونے کا اندیشہ موجود تھا۔ اس صورت حال کے خلاف شاعرانہ جہاد کی ضرورت تھی، مگر یہ شاعرانہ زبان کی شعوری تخریب یاConscious Distortionکے بغیر نہیں ہوسکتا تھا جو زبان کی پوری تہذیب کا شعور بھی رکھتا ہو اور ذوق بھی، اور جو مکمل تخریب کو مکمل تعمیر میں بدل سکے۔ سلیم احمد نے عسکری صاحب کی رہنمائی میں یہ کام کیا مگر وہ اس میں پچیس تیس فیصد ہی کامیاب ہوسکے۔ اگر سلیم احمد اس کام میں سوفیصد کامیاب ہوجاتے تو وہ اردو شاعری کی لسانی ساخت اور طرزِ احساس کو بدل کر جدید عہد میں اردو غزل کی پوری کلاسیکیت کو دریافت کرلیتے۔ لیکن سلیم احمد نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا شاعرانہ تجربہ تھا۔ اتنا بڑا شاعرانہ تجربہ کہ جدید اردو شاعری میں کوئی دوسرا شاعر اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ظفر اقبال نے سلیم احمد سے متاثر ہوکر اردو غزل کے سانچے کو توڑنے کی کوشش کی مگر وہ زبان کی تہذیب کا شعور رکھتے ہیں نہ ذوق۔ چنانچہ ان کا تجربہ ایک دلچسپ لسانی کھیل کے سوا کچھ نہیں۔ سلیم احمد کا ایک مجموعہ ’’اکائی‘‘ ہے۔ اس مجموعے میں سلیم احمد نے روح اور جسم کے اتصال کو دریافت کرکے روح کو جسم کا اور جسم کو روح کا آئینہ بنادیا ہے۔ یہ کام تصوف کی روایت کو جذب کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ مگر اہم بات صرف تصوف کی روایت کو جذب کرنا نہیں ہے۔ یہ کام تو بہت سے صوفی شاعروں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ اہم بات تصوف کی روایت کو جذب کرکے اسے عصر کے طرزِ احساس میں ظاہر کرنا ہے۔ سلیم احمد کا ایک قطعہ ہے: بدن ہی گو جدائی کا سبب ہے بدن ملنے سے جانیں مل رہی ہیں یہی خط دائرے کے درمیاں ہے اسی خط پر کمانیں مل رہی ہیں اکائی میں شامل ایک ثلانی میں سلیم احمد کہتے ہیں: بدن میں روح کا در پھوٹتا ہے نہیں ہوتی محبت بالا بالا یہ اکھوا تہہ کے اندر پھوٹتا ہے سلیم احمد کا ایک شعر ہے: بدن کی آگ کو کہتے ہیں لوگ جھوٹی آگ اس آگ نے مرے دل کو مگر گداز کیا انسانی وجودکی کلیّت کا یہ شعور اور اس کے اظہار کی یہ صورت اور سطح، جدید اردو غزل میں کمیاب نہیں نایاب ہے۔ سلیم احمد کا شعری مجموعہ ’’مشرق‘‘ آزاد اور پابند نظم کا منصوبہ ہے۔ اس شعری مجموعے کی اہمیت یہ ہے کہ اس مجموعے میں مغرب سلیم احمد کے لیے ایک ’’وجودی مسئلہ‘‘ بن کر سامنے آتا ہے اور اس مسئلے کی تہذیبی سطح پر ’’تخلیقی سعادت‘‘ سلیم احمد ہی کے حصے میں آئی ہے۔ مغرب کا حوالہ سلیم احمد کے کئی معاصرین کے یہاں موجود ہے مگر ان شاعروں کے یہاں مغرب ایک سیاسی، سماجی یا معاشی حقیقت ہے، تہذیبی حقیقت نہیں۔ سلیم احمد نے ’’مشرق‘‘ میں مغرب کے ساتھ اپنا تعلق تہذیبی سطح پر متعین کیا ہے اور انھوں نے اکبر اور اقبال کی طرح اس میں الفاظ کو علامتی سطح فراہم کی ہے۔ لیکن سلیم احمد کی یہ پوری نظم معنی اور تاثیر میں ایک سطح کی حامل نہیں۔ البتہ اس کے بعض حصے اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ سلیم احمد کا آخری شعری مجموعہ ’’چراغ نیم شب‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ایک طرف ان کے تصور اور لاشعور کی ہم آہنگی کا عکاس ہے اور دوسری جانب اس مجموعے میں سلیم احمد نے عصر کے حوالے سے فکر کو اس طرح احساس بناکر دکھایا ہے کہ جدید اردو شاعری میں اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ سلیم احمد کی دو غزلوں کے یہ اشعار اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت ہیں: جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شعور میں  میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شعور میں میری زبانِ آتشیں لو تھی مرے چراغ کی میرا چراغ چُپ نہ تھا تیز ہوا کے شور میں *** دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جایئے اس طرح ملیے کہ جزوِ زندگی بن جائیے اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جایئے دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جایئے وسعتوں میں لوگ کھو دیتے ہیں خود اپنا شعور اپنی حد میں آیئے اور آگہی بن جایئے عالمِ کثرت کہاں ہے اب اکائی میں سلیمؔ  خود میں خود کو جمع کیجیے اور کئی بن جایئے تخلیقی زندگی کا عام تجربہ ہے کہ شاعر اور ادیب کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ پچیس تیس سال کی عمر میں کہہ لیتا ہے، اس کے بعد یا تو وہ خاموش ہوجاتا ہے یا پھر ساری عمر اپنے آپ کو دہراتا ہے، لیکن سلیم احمد کا کمال یہ تھا کہ وہ 56سال کی عمر میں بھی تخلیقی طور پر زندہ اور توانا تھے اور اس عمر میں بھی ان کی شخصیت امکانات کی ایک دنیا تھی۔ یہ خیال سلیم احمد کے انتقال کے 33 سال بعد بھی ان کی موت کے دکھ کو کم نہیں ہونے دیتا۔ nn