کل پرزے اور پر پرزے

گزشتہ دنوں ایک اخبار کی سرخی تھی ’’۔۔۔ کل پرزے نکالنے لگے‘‘۔ اگر یہ پطرس بخاری کے مرزا کی بائیسکل ہو تو ایسا ہوسکتا ہے، کہ اس کا ہر کل پرزہ نکل بھاگنے کو تُلا ہوا تھا۔ ورنہ ’کل‘ تو کسی مشین کے لیے استعمال کرتے ہیں، جیسے بڑی مشہور کہانی ہے ’’کل کا گھوڑا‘‘۔ یہ وہ کل نہیں جو آج سے پہلے اور بعد میں آتی ہے، جیسے:
کل کی کل دیکھ لیں گے بادہ کشو
آج تو شغلِ جامِ جم ٹھیرے
اور پرزہ فارسی کا لفظ ہے، مطلب ہے ٹکڑا، کل کا وہ پرزہ جو اس کے چلنے کے لیے ضروری ہو۔ پرزہ دوات کے صوف کو بھی کہتے ہیں اور مختصر خط یا رقعہ کو بھی کہتے ہیں۔
مذکورہ سرخی میں ’’کل پرزے‘‘ کی جگہ ’’پر پرزے‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ممکن ہے سرخی نکالنے والے کے ذہن میں یہی محاورہ ہو۔ لیکن ’پر‘ جھڑنے سے ’کل‘ تحریر ہوگیا۔ پر، پرزے نکالنا یا نکلنا محاورہ ہے۔ پر پرزے نکالنے کا مطلب ہے ہوشیار ہونا، چالاک ہونا، شرارت پر آمادہ ہونا۔ چلیے، پر نکلنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ چیونٹیوں کی موت آتی ہے تو ان کے بھی پر نکل آتے ہیں۔ لیکن یہ پرزے کیسے نکلتے ہیں، سمجھ میں نہیں آیا۔ اس محاورے میں پرزے کا مطلب تو وہی ہے یعنی ٹکڑا۔ مستعمل ہونے کے بعد کپڑے، بالخصوص ریشمی کپڑے پر جو رُواں ظاہر ہوتا ہے اسے بھی پرزہ کہتے ہیں۔ پرزہ بڑے مزے کا لفظ ہے۔ پر پرزوں سے درست ہونا بھی محاورہ ہے، مطلب ہے سازوسامان سے درست ہونا۔ پر پرزے جھڑنا کا مطلب ہے ضعیف ہونا، سکت نہ ہونا، جیسے سیاست میں بڑا نام رکھنے والا وقت پڑنے پر پر پرزے جھاڑ دیتا ہے۔ پر تولنا ایک اور محاورہ ہے جیسے یہ شعر:
چٹکی کلی تو رہ گئے پر تولتے ہوئے
پتّی ہلی تو مل کے اڑے بولتے ہوئے
پرزے پر دو شعر گوارا کر لیں۔ داغ دہلوی کہتے ہیں:
گلی کوچوں میں تم نے اشتہارِ عشق پھیلائے
کہ اُڑ اُڑ کر مرے مکتوب کے پرزے بکھرتے ہیں
مصحفی کا شعر دیکھیے:
اس طفل کو ہم بھی کوئی لکھ بھیجتے پرزہ
ہوتا جو گزر اس کے دبستاں میں صبا کا
ایک چلتا پرزہ بھی ہوتا ہے۔ معنی سے تو واقف ہی ہوں گے اور ممکن ہے واسطہ بھی پڑا ہو۔
25 اگست کو تقریباً ہر ٹی وی چینل پر پلاٹوں پر قبضے کی خبریں چل رہی تھیں اور سب ہی نے ’’رفاعی‘‘ پلاٹوں کا حوالہ دیا، البتہ ٹی وی چینل ڈان نے اس سے گریز کیا۔ اخبارات میں بھی رفاعی ادارے، رفاعی منصوبے، رفاعی پلاٹ نظر آجاتے ہیں۔ ہمارے صحافی بھائی ذرا نہیں سوچتے کہ یہ رفاعی کیا ہے۔ یہ دراصل رفاہی ہے جسے جانے کیوں رفاع کردیا ہے۔ کراچی میں رفاہِ عام سوسائٹی بھی ہے۔
ایک عام غلطی معروف صحابیؓ ابوذر غفاری کے نام اور تلفظ میں کی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں شمالی کراچی سے گزر ہوا۔ وہاں پر ایک بڑا مدرسہ ابوذر غفاری سے منسوب ہے اور بڑے بڑے حروف میں غفاّری لکھا ہوا ہے۔ غفاّر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
علامہ اقبالؒ کا شعر ہے:
غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
لیکن حضرت ابوذر کا تعلق قبیلہ غِفار (غ بالکسر اور ف بغیر تشدید کے) سے تھا اور اسی نسبت سے وہ غِفاری کہلائے۔
علامہ اقبال کے ذکر پر یاد آیا کہ ہمارے ممدوح شیخ رشید بھی علامہ کی طرح شیخ اور کشمیری ہیں، چنانچہ عموماً ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ علامہ کو اِلاما کہنا چھوڑ دیں۔
لاہور سے ہمارے نادیدہ دوست جناب افتخار مجاز نے پوچھا ہے کہ ’’فیشن‘‘ کا اردو ترجمہ کیا ہے؟ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دے دی کہ بابائے اردو نے بھی اپنی تحریروں میں فیشن ہی استعمال کیا ہے۔ اب اگر بابائے اردو اس کا ترجمہ نہیں کرسکے تو ہم کس شمار، قطار میں ہیں۔ ویسے بابائے اردو کی انگریزی اردو لغت میں اس کا ایک نہیں کئی ترجمے موجود ہیں۔ مثلاً وضع قطع، رواج، طور طریق، طور طریقہ وغیرہ۔ IN SOME FASHION کا ترجمہ کیا ہے ’’کسی نہ کسی طرح‘‘۔ پھر یہ وضاحت بھی ہے کہ انگریزی لفظ فیشن اردو میں قابلِ قبول ہوگیا ہے۔ دراصل یہ فیشن اتنا کثیر المعنی ہے کہ درج بالا تراجم میں سے کوئی بھی پورا نہیں اترتا۔ فیشن سے فیشن ایبل ہے جس کا ترجمہ بابا نے خوش پوش کیا ہے۔ دراصل فیشن بھی ان الفاظ میں شامل ہے جو اردو کا حصہ بن چکے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر لفظ کا اردو ترجمہ تلاش کیا جائے ورنہ بڑی مشکل ہوجائے گی۔ مثلاً بل (BILL) ہے۔ گیس کا ہو یا بجلی کا، ہر خواندہ اور ناخواندہ اس سے واقف ہی ہے اور بھگتتا بھی ہے۔ اس کا ترجمہ تلاش کیا تو وہ ہے ’’قبض الوصول‘‘۔ یہ تو زبان پر ہی نہیں چڑھے گا، اور جب تک چڑھے تب تک تو بل جمع کرانے کی آخری تاریخ نکل چکی ہوگی۔ ممکن ہے کوئی سمجھے کہ یہ شاید قبض کی دوا ہے۔ اس کا ایک ترجمہ ’’حساب کی فرد‘‘ ہے۔ بل ادا کرنے کا مطلب ہے فردِ حساب کے بموجب روپیہ ادا کرنا۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ خاموشی سے بل ادا کردیں خواہ ہوٹل میں کھانے کا ہو۔ ’بل‘ مسودۂ قانون کو بھی کہتے ہیں جو منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔ اکبر الہٰ آبادی نے بھی بل کو جوں کا توں استعمال کیا ہے۔ طالب علم پڑھنے کے بعد
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجیے
اس مصرع میں ماسٹر بھی انگریزی کا ہے۔ اس کا ترجمہ استاد تو ہے لیکن خود ماسٹروں کو استاد کہلوانا پسند نہیں ہوگا۔ مدارس کے معلمین کی بات الگ ہے کہ وہاں واقعی اساتذہ ہوتے ہیں۔ خود ماسٹر بھی صرف اساتذہ کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً ویونگ ماسٹر، رِنگ ماسٹر، طنزاً استاد جی بھی کہا جاتا ہے کہ استاد ہوں، استاد جی نہ ہوں۔ داغ کا ایک شعر پڑھتے جائیے:
تُو بھی اے ناصح کسی پر جان دے
ہاتھ لا استاد کیوں کیسی کہی
ہوسکتا ہے اس پر ناصح نے ہاتھ جما دیا ہو۔ استاد فارسی کا لفظ ہے اور لغت کے مطابق آتش پرستوں کی کتاب ’’ژند‘‘ کی تفسیر کا نام اوستاد ہے۔ اوستاد میں ’و‘ پر زبر ہے، یعنی اوس تاد بمعنی دانا۔ اس سے فارسی میں اوستاد اور استاد بنا۔ عربی میں ’د‘کی جگہ ’ذ‘ استعمال کیا جاتا ہے یعنی استاذ۔ یہاں ہماری استادی تمام ہوئی۔