حزب المجاہدین

حزب المجاہدین کا شمار مقبوضہ جموں وکشمیر کی ان جہادی و عسکری تنظیموں میں ہوتا ہے جو اپنی نظریاتی کمٹمنٹ، تنظیمی ڈھانچے اور وسیع نیٹ ورک کی بدولت نہ صرف کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں میں اپنی مقبولیت اور ہردلعزیزی کی وجہ سے مشہور ہیں بلکہ پچھلی ڈھائی دہائیوں کے دوران حزب المجاہدین نے مقبوضہ کشمیر میں مسلط بھارتی درندہ نما مسلح افواج جنہیں مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے، کے خلاف وہ اعصاب شکن عسکری کارروائیاں کی ہیں جس کے باعث حزب المجاہدین اگر ایک طرف بھارتی سیکورٹی فورسز کے حواس پر بری طرح سوار ہے تو دوسری جانب حزب کی دھاک بھارتی سرکار پر بھی اس قدر بیٹھی ہوئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر کوئی پتّا بھی ہلتا ہے تو بھارتی سرکار کے کرتادھرتا اس کی ذمہ داری حزب المجاہدین پرعائد کرتے ہیں۔ حزب المجاہدین کا قیام اس پس منظر میں عمل میں آیا جب افغان جہاد تکمیل کے مراحل میں تھا اورکچھ عرصہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نہتے اور کمزور افغان مجاہدین سوویت یونین جیسی بڑی جنگی طاقت کو شکستِ فاش دے سکیں گے، لیکن جب افغان مجاہدین نے افغان عوام کی پشتی بانی اور پاکستان کی اخلاقی اور سیاسی مدد سے سوویت یونین کی شکست کے ناممکن کام کو ممکن کردکھایا تو یہی وہ موقع تھا جب دنیا کے بعض دیگر خطوں کی طرح مقبوضہ کشمیر کے غیور اور آزادی پسند مسلمانوں نے بھی خود پر غاصب اور مسلط بھارتی درندوں سے مسلح جدوجہد کے ذریعے نجات اور آزادی کا فیصلہ کیا۔ چونکہ یہ فیصلہ کشمیری عوام نے خود اپنی مرضی سے کیا تھا اس لیے جلد ہی پوری مقبوضہ وادی جہادِ کشمیر کی پشت پر کھڑی ہوگئی تھی جس کی قیادت حزب المجاہدین جیسی مقامی جہادی تنظیم کررہی تھی۔ حزب المجاہدین کا قیام چونکہ جہاد کے ذریعے بھارتی تسلط سے آزادی کے یک نکاتی ایجنڈے کے تحت عمل میں آیا تھا اس لیے جلد ہی کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی صفوں میں شامل ہوگئی۔ اسی طرح حزب نے چونکہ اپنے آپ کو مسلک اور فرقہ واریت کی سوچ سے بچاکر رکھا اس لیے اس کی صفوں میں ہر مسلک اور فرقے کے مسلمان نظر آتے ہیں۔ حزب کی ایک اور کامیاب حکمت عملی جہاں اس کا وسیع نیٹ ورک اور منظم تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل ہے وہاں حزب اور حریت کانفرنس کی قیادت کے درمیان کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اور مستقبل کے ایجنڈے کے حوالے سے جو واضح ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس نے بھی حزب کی عوامی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے جہادی قد کاٹھ میں بھی اضافہ کیا ہے۔ حزب المجاہدین اور حریت کانفرنس کے درمیان کشمیر کی آزادی کے حوالے سے جو واضح ہم آہنگی اور آزادی کی جدوجہد کے لیے جو تعاون نظر آتا ہے اس نے بھی حریت کانفرنس کو سیاسی میدان میں، اور حزب المجاہدین کو جہادی میدان میں کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیمیں بنادیا ہے۔
یہاں اس امر کی طرف اشارہ مناسب ہوگا کہ کشمیری عوام قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے اور تقسیم برصغیر کے وقت انہیں کامل یقین تھاکہ برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے تحت انہیں نہ صرف برطانوی سامراج بلکہ برہمن سامراج سے بھی ہمیشہ کے لیے آزادی نصیب ہوسکے گی۔ لیکن ان کی یہ امیدیں اُس وقت دم توڑ گئی تھیں جب برطانوی اور برہمن سامراج نے گٹھ جوڑ کرکے کشمیر کے مسلمانوں کی خواہشات کا خون کرتے ہوئے جموں وکشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا تھا۔ اُس دن سے لے کر آج تک کشمیر کے مسلمان بھارتی درندوں کے تسلط میں جکڑے ہوئے ہیں اور وہاں کے نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جدوجہدِ آزادی کی شمع کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ پچھلے 69 سالوں میں مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں کی غالب اکثریت نے ایک لمحے کے لیے بھی بھارت کے جابرانہ تسلط کو قبول نہیں کیا ہے۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کی مخالفت کی اس سے بڑی مثال اورکیا ہوسکتی ہے کہ جس دن بھارت برطانوی سازش سے مقبوضہ کشمیر میں اپنی افواج اتار رہا تھا اسی لمحے کشمیری نوجوان ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ یہ بھارت ہی تھا جس نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو اپنے ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر رام رام کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، اور یہ سلامتی کونسل ہی تھی جس نے مسئلہ کشمیر کو تقیسم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیتے ہوئے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصوابِ رائے کے ذریعے کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ دن اورآج کا دن، نہ تو اقوام متحدہ اپنے اس وعدے کو ایفا کرسکا ہے اور نہ ہی بھارت کشمیر سے اپنا غاصبانہ قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار ہے، نتیجتاً مقبوضہ کشمیر کے عوام کے پاس اپنی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ کشمیری عوام کے اس حق کو نہ صرف بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہے بلکہ اقوام متحدہ کا چارٹر بھی کشمیری عوام کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔ گو مسلح جدوجہد کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر میں بہت پہلے شرو ع ہوگیا تھا لیکن وہ جدوجہد چونکہ مذہبی کے بجائے کشمیری قومیت کی بنیاد پر استوار تھی اس لیے بعض ابتدائی قربانیوں اورکامیابیوں کے باوجود یہ جدوجہد وہ رنگ نہیں جما سکی جس کے نتیجے میں کشمیری عوام آزادی کی منزل کو پاسکتے تھے۔ اس ضمن میں آل جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ نامی جیسی قوم پرست مسلح تنظیم قابلِ ذکر ہے جس نے مقبول بٹ جیسے اولین اور مشہور کشمیری شہید کو جنم دیا تھا، لیکن بعد میں جب مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ان کی جدوجہد اُس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک اسے تقسیم برصغیر کے نامکمل ایجنڈے سے جوڑ کر ایک نظریاتی رخ نہ دیا جائے، وہیں سے کشمیری عوام میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ جب تک ان کی تحریک میں اسلام کا نظریاتی پہلو شامل نہیں ہوگا تب تک کسی بڑی قربانی کے لیے نہ تو عام لوگ آمادہ ہوں گے اور نہ ہی برہمن سرکار کو دباؤ میں لایا جاسکے گا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اس سوچ کو جلا بخشنے میں جہاں کشمیر کے بعض اندرونی عوامل کارفرما رہے ہیں وہاں اس سوچ کو عملی جدوجہد کا روپ دینے میں افغان جہاد نے بھی ایک بنیادی عامل کا کردار ادا کیا ہے۔ یہیں سے حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل جیسی خالص جہادی تحریکوں نے جنم لیا، جن کا مقصد مسلح جدوجہد کے ذریعے بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا یہ مرحلہ 1990ء کے عشرے میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور ان دنوں حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، جیشِ محمد اور انصارالمجاہدین جیسی مسلح جہادی تنظیموں کی بھارت مخالف کارروائیوں سے یوں لگ رہا تھا کہ شاید کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی منزل قریب آگئی ہے، لیکن پہلے نو گیارہ(9/11) اور بعدازاں جنرل مشرف کی یوٹرن پالیسی (جس کے نتیجے میں جدوجہدِ کشمیر سے امریکی اور بھارتی دباؤ پر ہاتھ کھینچ لیا گیا تھا) سے کشمیری عوام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اب جب حزب المجاہدین کے نوجوان مجاہد برہان مظفر وانی کی شہادت نے جدوجہدِ آزادی کشمیر کو ایک نیا رخ دے دیا ہے تو ایسے میں پوری مقبوضہ وادی کی نگاہوں اور امیدوں کا مرکز حزب المجاہدین جیسی سنجیدہ، مخلص اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رکھنے والی تنظیم بن گئی ہے۔ گزشتہ روز حزب المجاہدین کے روحِ واں اور سپریم کمانڈر سید صلاح الدین جماعت اسلامی کے ضلعی ورکرز کنونشن میں شرکت کے لیے پشاور تشریف لائے تو ان کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جسے اب مزید دبانا ہندو سامراج کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد آزادئ کشمیر کا یہ تازہ مرحلہ 21 سالہ برہان مظفر وانی جیسے نوجوان کی مبارک شہادت سے شروع ہوا ہے جس نے بھارتی درندوں کی درندگی کو چیلنج کیا، اور اب وہ پوری مقبوضہ وادی کا ہیرو بن چکا ہے۔ برہان مظفر وانی کے والد جو ایک ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ہیں، کے بڑے بیٹے خالد مظفر وانی بھی کچھ عرصے پہلے بھارتی افواج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور انہوں نے تحریک حریت کے قائد سید علی گیلانی سے ملاقات میں کہا ہے کہ اپنے دو بیٹوں کی شہادت کے بعد وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سید صلاح الدین نے کہا کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ننھا مجاہد پوری وادی کو بھارتی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کردے گا۔ انہوں نے کہاکہ اب تک ساڑھے پانچ لاکھ کشمیری آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ سولہ ہزار سے زائد کشمیری مختلف عقوبت خانوں میں گمشدگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سری نگر کے شہداء کا قبرستان پچیس ہزار سے زائد گمنام شہداء کی قبروں سے بھر چکاہے۔ پچھلے 52 روز سے کرفیو کے مسلسل نفاذ نے کشمیریوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ بھارتی درندوں کی جانب سے نہتے اور بے گناہ مظاہرین پر چلائی جانے والی مخصوص گولیوں کی فائرنگ سے سینکڑوں افراد ہمیشہ کے لیے نابینا بنا دیئے گئے ہیں۔ سید صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ان مظالم کا سب سے افسوسناک پہلو عالمی برادری اور بالخصوص اقوام متحدہ کی اس ساری صورت حال سے چشم پوشی ہے۔ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی کے خلاف اب تک نہ تو عالمی قوتوں اور نہ ہی اقوام متحدہ نے کوئی ایکشن لیا ہے، لہٰذا اس صورت حال میں کشمیریوں نے اپنی تمام تر امیدیں پاکستانی عوام اور یہاں کی قیادت سے وابستہ کررکھی ہیں۔ اگر پاکستان کے عوام اور قیادت نے اس نازک اور تاریخی موڑ پر کشمیریوں کا اس طرح ساتھ نہ دیا جو اُن کا پاکستان پر آئینی، اخلاقی اور نظریاتی حق ہے تو تاریخ پاکستانیوں اور یہاں کی قیادت کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے جہادِ کشمیر میں جماعت اسلامی کے مخلصانہ کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جماعت نے ہمیشہ ہر سطح پر کشمیری عوام کی جدوجہد کی دامے، درمے، سخنے، قدمے حمایت کی ہے اور اب جب جدوجہدِ آزادئ کشمیر کا نیا مرحلہ شروع ہوا ہے تو اس میں بھی جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے، اور توقع ہے کہ تعاون اور حمایت کا یہ سلسلہ آئندہ بھی اسی جذبے کے ساتھ جاری رہے گا۔
nn