ٹیگ: اشارے

اہم بلاگز

مایوسی ایک ایجنڈا 

مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ  خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام  صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔ ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔...

مسلمانوں کی حکمرانی اور زوال

اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔ مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔ اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔ مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔ خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔ ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔ عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔ مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد،...

حق دو عوام کو

ّجس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے جنرل الیکشن میں ناکامی کے بعد جماعت کا عام کارکن بددلی کاشکار تھا کہ اب عوام کو اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے ایسے میں جماعت کے لیڈرز نے اپنے پیغامات میں عوام کی خدمت جاری رکھنے اور نئے جوش و ولولے سے کام کرنے کا پیغام دے کر کارکنان میں نئی روح پھونکی ثابت ہوا لیڈر لیڈر ہوتا ہے۔ حافظ نعیم صاحب کراچی کے ہردلعزیز لیڈر کے طور پر ابھرے مگر مقتدر حلقوں نے واضح جیت کے باوجود کراچی کا میئر نہ بننے دیا۔جماعت اسلامی نے انہیں امیر جماعت منتخب کر کےعروج کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔اب حافظ حافظ کے نعرے وہی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں جو کبھی بھٹو بھٹو اور قیدی نمبر کو حاصل تھے۔ کامیاب دھرنے کے بعد حکومت نے بجلی کے بلوں میں کمی کی اور بقول مریم نواز عوام کا پیسہ عوام پر لگا دیا ۔مگر عوام کا پیسہ عوام پر لگوانے کے لیے جماعت اسلامی کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے بزرگ شہریوں ہزاروں کارکنان نے گرمی دھوپ اور دیگر  مشکلات کی پروا  نہ کرتے ہوئے عوام کی خاطر قربانی دی۔ملک میں اسلامی حکومت ہو اور حکمرانوں کے دل میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس ہو تو کیا عوام کو مہنگائی اور بےروزگاری کی چکی میں پیس سکتے ہیں بدمعاشیہ یہ کر سکتا ہے کہ وہ اپنی عیاشیوں کے بل عوم سے وصول کریں۔پھر کیا ملک ہر سال ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوبار ہو سکتا ہے۔پھر کیا آئی ایم ایف غریبوں پر ہی مزید بوجھ ڈالنے کا کہ سکتی ہے۔ کمپنیوں سے بجلی بنانے کے مہنگے معاہدے کرتے ہوئے حکومت کو پتہ تھا یہ بوجھ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گا پچھلی حکومتوں نے سبسیڈی دے کر کچھ بوجھ کم کیا مگر اب یہ سب عوام سے سود سمیت وصول کیا جا رہا ہے، غالب نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد لکھا ! کوئی اُمید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی آج بھی نظام کی خرابیوں پر عوام اسی غم وغصہ اور مایوسی کا شکار ہیں ۔امیر جماعت نے کارکنان سے کہا کہ پھول بانٹیں اختلافات سے گریز کریں۔یہ پھول وہ مسکراہٹ ہےجو عوام کو بتاتی ہے زندگی بوجھ نہیں مسئلے کا حل موجود ہے ممبرسازی کی مہم جاری ہے یہ ایک طرح کا قرض حسنہ ہے کسی دل میں امید ڑا لنا مایوسی سے نکالنا ہائیکنگ کرتے ہوئے ایک ایک قدم بہت بھاری لگتا ہے مگر امید ہوتی ہے کہ پہاڑ پہ پہنچ کر اوپر کا نظارہ بہت خوب صورت ہو گا، اقبال نے کہا !  جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہیں روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو اس فرسودہ نظام میں عوام کے کیے کچھ نہیں اسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان ہے ممبر بنو طاقت بنو۔

انسانیت نشانے پر !۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دشمن ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل یہودی موسٰی علیہ السلام کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے جرائم کی بڑی لمبی فہرست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اپنی قوم کا سب سے بڑا خیر خواہ ہوتاہے۔ وہ اپنی قوم میں اخلاق کے اعلٰی درجے پر فائز ہوتاہے وہ اپنی قوم کی اصلاح کے لیے بے لوث خدمت سر انجام دیتاہے۔ یہودی قوم کے جرائم میں سب سے بڑا جرم یہ بھی درج ہے کہ ان لوگوں نے انبیاء کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ بھی رنگے ہیں اور ان کو بدترین تشدّد کا نشانہ بنایاہے۔ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والی اسرائیلی قوم انسانیت کی دشمن کیونکر نہ ہو یہ بات صدیوں کی تحقیق سے بھی ثابت ہوچکی ہے اسرائیل کے قیام کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے جب یہودیوں کو ساری دنیا میں بکھیر دیا گیا تو یہ دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیل گئے ان کی بڑی تعداد یورپ اور روس میں جابسی مگر ان کی انسانیت کے خلاف سازشیں جاری رہیں جس کو یورپی اقوام اور روسی جان چکے تھے ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے یورپی بھی پریشان تھے۔ ہٹلر کی یہودیوں کے خلاف کاروائی کے بعد امریکہ کے اعتراز کے جواب میں ہٹلر نے کہا تھا کہ ’’ یہ معمول کی بات ہے‘‘ حقیقت یہی ہے خود امریکہ میں بھی آٹھ کروڑ ریڈ انڈینز کو نام نہاد امریکیوں نے قتل عام کرکے اقلیت میں تبدیل کردیا تھا۔ یورپ میں رہنے والی اقوام نے یہودیوں کے آئے روز کی سازشوں سے تنگ آکر ان کو یورپ سے نکالنے کی ایک راہ نکالی اور وہ اسرائیل کے قیام کا منصوبہ تھا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ اور روس سمیت پور ی دنیا سے یہودیوں کو لاکر فلسطین کی زمینوں میں آباد کیا گیا اس کام میں تمام یورپی قوموں نے یہودیوں کو ہر ممکن سہولتیں دیں تاکہ جلد از جلد تمام یہودی اسرائیل میں جاکر بس جائیں اور یورپی ممالک اور روس جہاں یہ بڑی تعداد میں آباد تھے یہودیوں سے پاک ہوجائیں۔ ساری دنیا سے یہودی خاندانوں کو اسرائیل میں جمع کرنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ چونکہ مسلم ممالک کے درمیان یہ ناجائز ریاست قائم کی گئی ہے تو اس کا ردعمل مسلمانوں کی طرف سے اور بالخصوص اہل فلسطین کی طرف سے شدّت کے ساتھ آرہا ہے جو کہ ایک فطری اور دینی تقاضا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہی ہے یہودی ذہن انسانیت کش بھی ہے۔ اس ذہن کی عکاسی ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے جس میں دنیا کا موجودہ سودی معاشی نظام یہ بھی یہودیوں کا ترتیب دیا ہوا ہے جس کی تفصیل کےلیے ایک اور کالم کی ضرورت ہے۔ اس کالم کا مقصد اقوام عالم کو بیدار کرنا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ یہودی صرف مسلمانوں کے دشمن ہیں بلکہ یہودی ساری انسانیت کے دشمن ہیں۔ حالیہ لبنان میں ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی کےذریعے اقدام قتل عام اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج پیجر اور واکی...

سیرت النبیﷺاورسائنس

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا رحمت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔  صحابہ کرام کےدور میں ہدایت کے لیئے رحمت معجزات کی شکل میں موجود تھی جبکہ موجودہ دور میں یہ رحمت سائنس اور ٹیکنالوجی کی صورت میں موجود ہے آپﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا تم میرے دوست ہو جب کہ بعد میں آنے والے میرے بھائی ہیں صحابہ نے فرمایا ہم نے دین کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے دیکھا ہے انہوں نے مجھے نہیں دیکھا۔ آپ نے علماء کو ہر دور کے جدید علوم سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا حدیث کا مفہوم ہے جو عالم جدید علوم کو نہ سیکھے وہ عالم دین نہیں، ہر سنت سائنس ہے ایران کے بادشاہ نے مدینہ  منورہ کے لیے ایک حکیم بھیجا وہ چھ مہینے مدینہ منورہ میں رہا کوئی مریض علاج کرانے نہ آیا اس نے واپس جا کر بتایا وہ لوگ سنتوں پر عمل کرتے ہیں اس لیے بیمار نہیں ہوتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے آج سائنس یہ ثابت کرتی ہے زمین کے جراثیم زمین کی سطح پر نہیں جہاں ڈائنگ ٹیبل کی حد شروع ہوتی ہے وہاں سے شروع ہوتے ہیں اسی لیے آپ کے سامنے میز پر کھانا رکھا گیا تو آپنے کھانے سے انکار کر دیا ۔ہاتھ سے کھانا سنت ہے آج سائنس بتاتی ہے ہاتھ کی شعاعیں کھانے میں شامل ہوتی ہیں تو کھانا ہضم ہوتا ہے ایک حدیث ہے اللہ اس کے چہرے کو تروتاز رکھے جو دستر خوان پر گرے زرات کو کھا ئے  شاہ ایران کی دعوت میں ایک صحابی کے ہاتھ سے نوالہ گر گیا وہ اٹھا کر کھانے لگے تو پاس کسی نے اشارے سے روکنا چاہا تو صحابی نے فرمایا میں ان جاہلوں کے لیے سنت نہیں چھوڑ سکتا ۔آپ ﷺ نے فرمایا کھانا کھا کر 40قدم چلو چاہے تمہیں کانٹوں پہ چلنا پڑے۔آج جو رات کو کھانا کھا کر واک نہیں کرتے انہیں شوگر اور دیگر امراض ہو رہے ہیں آپ  ﷺنے زندگی میں کبھی باسی کھانا حتیٰ کہ صبح کا بنا شام کو نہیں کھایا آج سائنس بتاتی ہے باسی کھانا کینسر کا سبب بنتا ہے آپ رات کی روٹی صبح کھاتے آج ڈاکٹر بتاتے ہیں ایسی روٹی کھانے سے شوگر نہیں ہوتی مسواک سے دانتوں کو کیڑا نہیں لگتا اور خون تازہ دانتوں کو ملتا ہے دانت لمبے عرصے تک ساتھ دیتے ہیں الغرض سنتوں کے فوائد پر کتابیں لکھی جا سکتی  ہیں بارش کو قرآن و حدیث میں رحمت کہا گیا آج سائنس بتاتی ہے بارش کا ایک قطرہ 8بیرئر سے ٹکرا کر زمین پر گرتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بارش کا قطرہ انسان کی کھوپڑی میں سوراخ کر کے زمین میں بھی سوراخ کر دیتا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اللہ کی رحمت کی ایک شکل ہے ہر سائنسی ایجاد میں اللہ کی مدد شامل ہوتی ہے سائنس دان خود اپنے تجربات بتاتے  ہیں  سلائی مشین ایجاد کرنے والے سائنٹسٹ نے بتایا اس کی سائنس سوئی میں آکر پھنس...

خبر لیجیے زباں بگڑی - اطہر ہاشمی

طنز و مزاح

اسکول کھول دیں

جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں  آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔  خالہ،  پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔  بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔  اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔ اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ  سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش  ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں  حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں  بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو  کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...

کہاں کی بات کہاں نکل گئی

قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...

والدین اور بیٹیاں

آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے"  جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو  leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔

زندگی بدل گئی !

شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔ فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔ خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔ ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...

بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان

بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔ ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔ کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔ ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔ ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔ نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔ I am vaccinated کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔ یہ بلائے ناگہانی ہے بس...

ہمارے بلاگرز