ٹیگ: اصول

اہم بلاگز

حق کا ساتھ دیں

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھےحاضر و موجود سے بیزار کرے۔ مولانا مودودی اپنی کتاب جماعت اسلامی کا مقصد تاریخ اور لائحہ عمل میں لکھتے ہیں "اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہئے ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں۔ جہاں عقل کی پرواز ختم ہو تی ہے وہاں وحی الٰہی آتی ہے اس جگہ عقل کا استعمال کرنا ویسا ہی ہے جیسے آنکھ کے کام کے لیے کان کو استعمال کرنا۔ عقل کو اپنے دائرہ کار میں کام میں لائیں تو کارآمد ہے۔ اسلام اور سیکولر نظام میں یہی فرق ہے۔ سیکولر نظام کے نزدیک علم کے دو ذرائع ہیں حواس خمسہ اور عقل جبکہ اسلام کے مطابق تیسرا ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ جب انسان صرف عقل کو استعمال کرتا ہے تو پھرLGBTاور Human Milk جیسے فتنے سر اٹھاتےاور جیسے چاہو جیو جیسی قباحتیں سامنے آتی ہیں اور پھر سیکڑوں سیاسی ومذہبی جماعتوں کی موجودگی میں امرباالمعروف کا کام امام حسین کی طرح جماعت اسلامی اقتدار کے بغیر بھی انجام دیتی ہے۔ جماعت اسلامی کا تربیتی وتزکیری نظام، شورٰی کا نظام اور الیکشن کا نظام دیگر جماعتوں کے لیے رول ماڈل ہے۔ جماعت پاکستان میں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ جو اقتدار کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں 360 بتوں کی موجودگی میں عبادت پر مجبور تھے مدینہ آمد پر اقتدار ملا، واپس مکہ گئے تو سب سے پہلے بت توڑ کر کعبہ سے باہر پھینک دیے۔ آج بھی فحاشی، ملاوٹ ، اقربا پروری کرپشن اور مافیاز کے بت توڑنا نظام کی تبدیلی اوراسلامی اقتدار سے ہی ممکن ہیں۔ لارنس پرون نے اپنی کتاب The prospect of islam میں طعنہ دیا کہ ہم نے ہندوستان کے دیوانی اور فوجداری قوانین کو دقیانوسی کہہ کر بدلانے کی کوشش کی تو مسلمانوں کو سخت ناگوار گزرا کہ ان کی حیثیت زمیوں جیسی ہو جائے گی اب خود اسلامی حکومتوں نے اسے پسند کر لیا حتیٰ کہ بعض حکومتوں نے پرسنل لاء بھی ہمارے لے لیے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلامی نظام حکومت کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ مظلومی و محکومی کے بادل چھٹ سکیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا افسوس ہم نے جنگل کی صفائی چھوڑ دی تو دنیا خار دار جھاڑیوں سے بھر گئی ۔ جماعت کی قیادت جب سے نوجوان لیڈر کے ہاتھ آئی ہے جماعت مقبولیت کی بلندیوں پر ہے۔ عوام حیران ہیں جنہیں انہوں نے ووٹ نہیں دیے صرف وہی جماعت اشرافیہ کی بدمعاشیوں ، مہنگائی، بےروزگاری، بجلی کے ناقابل برداشت بلوں، ٹیکسوں کے خلاف عوام کی آواز بنی ہوئی ہے اور سراپا احتجاج ہے۔ حق دو عوام کو دھرنا نہیں تحریک ہے جس سے عوام سے زمیوں جیسا سلوک جلد ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ اسلام انسان میں تقویٰ (اللہ سے ڈرنا گناہوں سے بچنا) لاتا ہے۔ کیا یہ چنگیزی نہیں کہ بجلی میں استعمال کروں بل کوئی ریڑھی والا دے گاڑی کا پٹرول کسی مزدور کی جیب سے ادا ہو۔ عوام کو کوئی سہولت دینے کی بجائے ٹیکس پر ٹیکس لگائیں۔ لیکن عوام کو بھی...

ہمتِ مرداں ! مددِ خدا

وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔۔(سورۃ النجم آیۃ 39)۔۔۔انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کیں ہیں، ان کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم ترین درجے پر پہنچا دیتا ہے جبکہ ہمت و حوصلہ سے گریز کرنے والا انسان نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے آس پاس موجود اپنوں کے لیے بھی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ مخملی آرام دہ بستروں پر صرف خواب دیکھتے رہنے سے منزلیں نہیں ملا کرتیں۔ یہ گوہر تو ان کے ہاتھ آتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور صبح دم ان کی تعبیر کے لیے کمر ہمت کس لیتے ہیں۔ اللہ کے پیغمبروں نے اپنے رب کا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لیے دن رات تگ و دو کی۔  ’’دَعَوْتُ لَیْلاً وَّ نَھَاراً‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ نوح علیہ السلام نے کیسے اپنی قوم کے لیے دن رات ایک کیے۔ اللہ کے ان مقرب بندوں نے صرف دعوت و تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ گزر بسر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کمایا بھی۔ کائنات کی عظیم ترین ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائیں اور دین لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمت و حوصلہ سے کام لیتے رہے۔ اپنوں کی بد ترین مخالفت بھی ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ پیدا کرسکی۔ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم طائف میں لہولہان ہونے کے بعد حوصلہ ہار جاتے، کوشش ترک کر دیتے تو یثرب کبھی بھی مدینۃ النبی نہ بنتا۔ گھروں کے دروازے بند کر کے دشمن سے بچنے کی کوشش کرتے تو ڈر اور خوف سے اپنے ہی دل دہلتے رہتے۔ ایک ہزار فرشتے بھی تبھی نازل کیے گئے جب آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی ساری ہمتیں جمع کر کے بدر میں جاپہنچے۔ میدان احد میں قویٰ جواب دے گئے ہوتے تو کعبہ 360 بتوں سے کیسے پاک ہو پاتا اور دنیا ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ سے کیسے آشنا ہوتی۔ طارق بن زیاد نے کشتیاں نہ جلائی ہوتیں تو سر زمین اندلس کفر کے اندھیروں سے کیسے نکلتی؟ ابراہم لنکن، امریکا کا ایک معروف صدر، غریب کسان کا بیٹا تھا جبکہ انگریزی ادب کا تھامس کار لائیل، ایک لوہار کے گھر پیدا ہوا۔ سائنس کی دنیا کو روشن کرنے والا ایڈیسن، اخبار فروش تھا اور نپولین جیسا نامور حکمران جس کا نام تاریخ میں آج تک زندہ ہے، ابتدا میں عام سپاہی تھا۔ یہ دنیا عظیم ترین لوگوں کی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کمزور ترین لوگوں نے مغلوب ہونے کی بجائے غالب آ کر دکھایا۔ حالات کا ڈٹ کر بہادری سے مقابلہ کیا، ثابت کیا حالات انسان کو نہیں انسان حالات کو بدلتا ہے۔ نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا ہمت، محنت،استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلم کار اس مقام خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا دیکھتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سےکرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف...

اٹھو اہلِ قدس کیلئے

آخرت کوئی تھریلر یا ایکشن مووی کا سین نہیں اور نہ ہی جزا وسزا کوئی افسانوی داستان ہے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کر بیان کر دیا ہے۔ قیامت برحق ہے اور ہمیں اعمال کا جواب دینا ہے تو اس ایمان و یقین کا اثر ہماری زندگیوں سے کیوں نہیں جھلکتا؟ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے راستے سے منحرف کیوں ہیں؟ سوالات تو بہت اٹھیں گے مگر وہ کیا حالاتِ ہیں جو ایسے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں، آئیے ! آج کی بات کرتے ہیں۔ آج یعنی "فلسطین" جب ہم یعنی مسلمان، پاکستانی روز قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہوں گے، جب حساب کتاب کا وقت آن پہنچے گا، جب "مسئلہ فلسطین" کے اوراق کھنگالے جائیں گے، جب بات ہو گی "سر زمین قدس کے لوگوں کی" یہ وہ لوگ جن کے ایمان کا تذکرہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا، جب وہ تکلیف میں تھے، ظلم و بربریت کا شکار تھے، اندھا دھند قتل کیے جا رہے تھے، امت مسلمہ کو مدد کیلئے پکار رہے تھے، تو امت نے ان کی پکار پر کان کیوں بند کر لیے، انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا؟ جب وہ ہر ملک سے پہلے پاکستان کو پکارتے تھے۔ جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو سب سے زیادہ یہ عزیز جان لوگ خوش ہوئے اور ان صیہونیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے تھے، اب یہ قوم کہاں ہے جب وہ مر رہے ہیں؟ خواب غفلت کی ایسی کونسی نیند سوئے ہیں جو ان کی تکلیف سے بھری آوازیں سن کر بھی ختم نہیں ہو رہی۔ وہ سر کٹے شہداء، وہ بھوک و افلاس سے مرتے بچے اور نوجوان، وہ جسم کے چیتھڑے اڑ جانے کے مناظر، وہ سروں پر گھر کی پوری چھت کا آن گڑنا، وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار شہر، بچوں ماؤں کی آہ و بکا، باپ جیسے مضبوط تناور درخت کا بھی مرجھا جانا، کیا یہ سب امت مسلمہ کی بےحسی پر ضرب لگنے کیلئے کافی نہیں۔ کیا لذت زبان کے چٹخارے اتنے ضروری ہیں کہ ان مصنوعات سے بھی بائیکاٹ نہ ہو سکا جن کے متعلق واضح ہے کہ وہ صیہونیوں کو باقاعدہ منافع پہنچا رہی ہیں۔۔۔ جب معلوم ہے کہ ایسے ہم ان کے گناہوں میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں، پھر ایک دفعہ بھی ان کو فائدہ پہنچانا کیوں نہیں چھوڑا؟ جب معلوم ہے کہ تھوڑی سی بھی کوشش ہمیں روز محشر فلسطینیوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دے گی تو پھر یہ کوشش کیوں نہیں کی؟ جب پتا ہے کہ حق کے لیے آواز اٹھانا جہاد ہے... ظلم و جبر کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر بات کہنا جہاد ہے،،، اور ہتھیار کے ذریعے جہاد کرنا تو سب سے افضل ہے۔ تلوار سے جہاد تو ایک طرف ہم تو اپنی زبان کا بھی استعمال نہیں کر رہے اور رہا دل میں برا جاننا تو یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے اور یقیناً ہم میں سے اکثریت اس سے بھی...

وطن کی محبت ایمان کا حصہ !۔

”اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں اتنا ہی بڑا ارادہ، اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئیں، پاکستان کی تشکیل و تعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پڑے گی۔“ یہ تاریخی الفاظ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں، جو انہوں نے عید الفطر کے موقع پر پاکستان بننے کے فوراً بعد 18 اگست 1947 کو اپنے پیغام میں پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہے۔ مملکت پاکستان ہمیں ایک دن میں نہیں ملا بلکہ یہ برس ہا برس کی محنت ہے۔ اس کے پیچھے مسلسل جدوجہد، کوششیں، قربانیاں اور بے پناہ مشقت ہے۔ ہمارے بزرگوں نے آزاد ریاست کا تصور پیش کیا اور اپنی انتھک جدوجہد سے نا صرف ہندوؤں بلکہ انگریزوں کے خلاف بھی بھرپور مقابلہ کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ملک ہر پاکستانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک ہے، جس کی بدولت ہم آج آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں اور اپنی زندگی کو کسی غلامی یا آمریت کے بغیر بسر کر رہے ہیں۔ ہمارے دن اور رات، ہماری صبح و شام، ہمارا چلنا پھرنا، اوڑھنا بچھونا، تعلقات، علم اور کاروبار سب آزاد ہیں اور یہ آزادی اسی وطن کی بدولت ہے۔ ہمارے بزرگوں نے آزاد وطن کے حصول کے لیے اپنے کل اثاثے گھر، مال اور جان آزادی کے لیے قربان کر دیے یہاں تک کہ گھروں سے بے گھر ہوئے، ماؤں نے اپنے جگر گوشے نذر کر دیے اور کتنے ہی ہیرے مٹی میں مل گئے۔  تاکہ ان کی نسلیں کسی کی اسیری میں زندگی نہ گزاریں بلکہ ایک خودمختار اور آزاد وطن کی فضاؤں میں سکھ کا سانس لیں۔ یہ قربانیاں الفاظ کی محتاج ہیں، ہم انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جن مشکل حالات میں یہ ملک وجود میں آیا وہ ناقابل بیان ہیں۔ شاعر نے نسل نو کو کس خوبصورت انداز میں پیغام دیا ہے۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے آزادی کے برعکس، غلامی کی تصویر نہایت خوفناک اور الم کی ایک داستان ہے۔ اس میں ہر لمحہ ایک تلوار کی مانند خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے، زندگی کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں اور انسان کا وجود غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں نہ تو خوشی میسر آتی ہے اور نہ ہی سکون۔ آزادی کی قدر اپنے ان لاچار مسلمانوں سے پوچھیں جو سال ہا سال سے کشمیر اور فلسطین میں آزادی کے لیے دن رات اس مٹی کو اپنے اور اپنے پیاروں کے خون سے سینچ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں آزادی کی بے حد قدر کرنی چاہیے اور ہر لمحہ ایک پاکستانی ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان ہمارا...

اگر پاکستان نہ ہوتا تو؟

یہ سوال جیسے ہی میری نظروں کے سامنے آیا اور زبان نے اس کی ادائیگی کی تو دل کانپ سا گیا، ذہن ماؤف ہو گیا، سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ واقعی اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ آج سب کچھ ایسے ہوتا؟ نہیں!! آج کچھ بھی ایسا نہ ہوتا۔ ہم آج ہندوستان کے باسی ہوتے اور سب سے بڑی نعمت جو ہمیں پاکستان میں حاصل ہے، "آزادی"، اس سے محروم ہوتے۔ آزاد ہونے کے باوجود بھی قید میں ہوتے۔ "آزادی" تو وہ نعمت ہے جس کا اگر اصل مطلب ہم جاننا چاہتے ہیں تو ہندوستان میں موجود ان بےبس مسلمانوں سے جانیں جو ایک آزاد ریاست سے محروم ہیں، جنہیں زندگی بھی ان کے دین کے مطابق گزارنے کی اجازت نہیں۔ ان فلسطین کے باشندوں، اپنے بہن بھائیوں سے پوچھیں جو اپنی ہی سر زمین میں مصائب و مظالم برداشت کر رہے ہیں، ان برما کے مسلمانوں سے پوچھیں جنہیں انھی کے ملک سے کشتی پر سوار کر کے بےدخل کر دیا گیا تھا، ان بنگلہ دیشی مسلمانوں سے پوچھیں جنہیں ان کے گھروں سے نکال کر ایک کھلے میدان کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، ان کشمیریوں سے پوچھیں جو خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں مسلمانوں کو ان ہی کے ملک سے دربدر کر دیا گیا اور کہیں انھیں اقلیت ہونے کی بنا پر دبا دیا گیا۔۔۔۔ • اگر آج پاکستان نہ ہوتا تو پھر ہم بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوتے۔ • ہم بھی ان یونیورسٹیز، کالجز اور تعلیمی اداروں کا حصہ ہوتے جہاں ہمیں ہمارا حجاب اتارنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ • داڑھی اور باپردہ ہو کر جس راہ کے مسافر بنتے، وہاں ہم پر دہشتگرد( terrorist) کا ٹیگ چپکا دیا جاتا۔ • ہمیں ہمارے دین و مذہب کی بنا پر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے اور ہم ہمیشہ ترقی کرنے سے رہ جاتے۔ • اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا آج میں انسان تصور کی جاتی؟؟ کیا مجھے وہ بنیادی شہری حقوق دیے جاتے جو مجھے میرے آزاد ملک پاکستان میں حاصل ہیں۔ • جیسے آج اسرائیلی جانور، مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع کر دیتے ہیں، رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں ان پر تشدد شدید تر کر دیتے ہیں، جو اب غزہ میں روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہمیں ہماری مسجدوں میں، عبادت گاہوں میں سجدہ ریز ہونے دیتے؟ کیا مؤذن کو اتنی اجازت دی جاتی کہ وہ ایک بت پرست ملک میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کی صدائیں بلند کرتے؟ • اگر پاکستان نہ ہوتا تو شاید آج ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی کوئی حد نہ ہوتی! مسلمان یعنی ہم اگر اکثریت میں بھی ہوتے تو ہماری نسلیں تباہ کر دی جاتیں۔ • اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہندوستان میں ہونے والے ہر حملے کا سہرا مسلمانوں کے سر پر سجا دیا جاتا۔ • اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا میں، آپ، ہم سب اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے، کیا ہم حق کے لیے آواز اٹھا پاتے؟ نہیں ! ہم جان کو عزیز رکھتے۔ کیونکہ...

خبر لیجیے زباں بگڑی - اطہر ہاشمی

طنز و مزاح

اسکول کھول دیں

جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں  آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔  خالہ،  پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔  بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔  اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔ اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ  سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش  ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں  حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں  بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو  کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...

کہاں کی بات کہاں نکل گئی

قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...

والدین اور بیٹیاں

آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے"  جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو  leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔

زندگی بدل گئی !

شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔ فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔ خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔ ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...

بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان

بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔ ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔ کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔ ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔ ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔ نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔ I am vaccinated کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔ یہ بلائے ناگہانی ہے بس...

ہمارے بلاگرز