حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

پکڑو ، پکڑو۔۔۔۔گلشن چورنگی کی مصروف شاہراہ پہ، نوعمر لڑکے کے پیچھے ایک شخص دوڑا جا رہا تھا،لڑکے کو اتنا وقت بھی نہیں ملا تھا کہ وہ ہاتھ میں پکڑا بٹوہ اپنی جیب میں ہی منتقل کر پاتا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے تیز رفتار گاڑیوں کے بیچ سے معجزاتی طور پہ نکلتے ہوئے سروس روڈ پہ پہنچ چکا تھا۔ موٹر سائیکل چلاتے میاں صاحب نے رفتار ذرا ہلکی کی اور میری نگاہوں نے غیر ارادی طور پہ اس لڑکے کا تعاقب کیا، وہ اب ہجوم میں گھر چکا تھا، یکایک کئی تلخ واقعات کی سرخیاں میرے ذہن میں پھرنے لگیں ، کتنی بار ہجوم کے ہاتھوں مار کھا کے مجرم اپنے جرم سے کئی گنا بڑی سزا بھگت چکے تھے۔سیالکوٹ کے دو حافظ بھائی میری نظروں میں گھومے جو بنا جرم کے ہی جان سے گئے تھے، پھر وہ جلا دئیے جانے والے ڈاکو ۔۔۔۔ اور پھر  اور پھر۔۔۔  اف اللہ، سنیں  اسے تو لوگوں نے پکڑ لیا ہے، اب کیا ہو گا! میں نے بے چینی سے میاں صاحب کو جھنجھوڑ ڈالا، تو کیا اسے پکڑا نہیں جانا چاہیے؟ بٹوہ چھین کے بھاگا ہے آخر ، انہوں نے اچانک سے ڈول جانے والی بائیک  کو سنبھالتے ہوئے کہا۔

ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی میرے دل کی دھڑکنیں بھی، ہم بھی چلیں دیکھنے؟ میرے بھی ہاتھوں میں خارش ہو رہی ہے ، اب وہ مجھے باقاعدہ چھیڑنے پہ اتر ائے تھے ، ہاں چلیں ، اگر آپ اسے وہاں سے بچا کے نکال سکتے ہیں تو چلیں ، میری پیشکش پہ  ایک قہقہہ لگاتے ہوئے انہوں نے بائیک آگے بڑھائی اور سروس روڈ کی جانب موڑ دی، ہر بیوی کی طرح ،میرے میاں بھی میرے لیے وہ ہیرو ہیں جو سب کچھ کر سکتے ہیں ، مجھے یقین تھا کہ وہ اس لڑکے کو ہجوم کے ہاتھوں پٹنے سے بچا لیں گے، یہی سب سوچتے ہوئے ہم ہجوم کے قریب ہی پہنچ چکے تھے ، لیکن یہ کیا؟ وہاں تو کوئی مار پیٹ کا منظر ہی نہیں تھا، سب لوگ ایک دوسرے سے اس واقعے کے بارے میں بات کر رہے تھے اور وہ لڑکا کہیں بھی نہیں تھا۔۔ اتفاق سے وہ جس طرف بھاگا وہیں ایک ہوٹل پہ بیٹھے پولیس اہلکار چائے پی رہے تھے، اور وہ بچہ اب “پولیس” کی حراست میں تھا۔

چلو خیر ہے اب تو تمہیں سکون ہے نا ؟ صاحب نے موٹر سائیکل کو کک لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔  اور میرے ذہن میں رینجرز سے معافیاں مانگتا لڑکا اور پولیس سے معصوم باتیں کرتے ہوئے پٹتا ہوا صلاح الدین گھومنے لگے۔۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں