انسان کی زندگی مسلسل تغیرات کا ایک مجموعہ ہے.دنیامیں آنیوالا کوئی انسان یہ دعوٰی نہ کرسکاکہ اسکی زندگی میں کوئی غم و فکر نہیں.امیروغریب،حاکم ومحکوم,طاقتوراور کمزورہرکسی کے ساتھ زندگی میں خوشی کے ساتھ غم کی کیفیات یقینی طورپرموجودرہتی ہیں.مگرمیرارب اپنے بندوں کو دکھ میں مبتلا کرکےپھرآسانی اور غم سے نجات کا راستہ بھی دکھاتاہے.مایوسی اور دل گرفتگی کے بعدامید کی روشنی ضرور نمودارہوتی ہے.
رسول مقبول ﷺکا فرمان ہےکہ” آدم کابیٹااس حالت میں بنایاگیاہےکہ اس کےپہلومیں ننانوےمصیبتیں ہیں.” (ترمذی)
یہ بات توواضح ہے کہ زندگی سے غم،فکرات اورمصائب کو اکھاڑپھینکناممکن نہیں.مگر ہرمشکل گھڑی میں مایوسی اور ناامیدی سے بچنابھی ضروری ہے.مگر کچھ غم وہ ہیں جوانسانیت اور اعلٰی فکری ذوق کانتیجہ ہوتے ہیں.جوزندگی کےمقاصد کاتعین کرتے ہیں.جوخالق ومخلوق کےرشتےکودوام بخشتےہیں.وہ غم ہیں ابتلائے اسلام اور اصلاح امت کے غم.امت مسلمہ اسوقت پوری دنیا میں جس کسمپرسی اور ظلم وستم کاشکار ہےاسکی فکرکرنااوراس ابترحالت سے نکلنے کی کوشش کو غمِ جان بنالیناتوصرف دردِدل رکھنےوالوں کاہی حوصلہ ہے.اس غم کی چبھن ان ہی حوصلہ مند لوگوں کامقدر ہےجواسکودورکرنےکی اپنی سعی جاری رکھتے ہیں.امیداور مسلسل جدوجہد کی مٹھاس سےمصائب اور حوادث کی کڑواہٹوں کاخاتمہ کرتے ہیں. بلاشبہ اسلام اورمسلمانوں کی حالت پرغمزدہ ہوناہماری غیرت دینی کاتقاضہ ہے.اس امرسےلاتعلقی تو مردہ دلی کی نشانی ہے.اب تو کشمیر سے لے کر فلسطین,شام,عراق اور برما سے لے کر افغانستان تک امت کاوجودچھلنی ہورہاہے لیکن اس بدترین حال پربھی اکثریت کےدل مردہ ہیں اورامیدیں معدوم.کفاراور مشرکین کاہر نیاوارمسلمانوں کومایوسی کی طرف دھکیل رہا ہے.ایسی حالت میں بھی اگر ہمارارجوع صرف اللہ اورقرآن کی طرف نہ ہوتوان کشیدہ حالات کوشکست دیناناممکن ہوجائےگا.اسلام اور اسکے ماننےوالوں کیلیئےآج پھروہی حالات ہیں جوپیارےنبی محمد ﷺ اوردیگرانبیاء کے زمانوں میں رہے.پھرکیاوہ پاک ہستیاں کبھی مایوس ہوئیں؟ہرگزنہیں.
اس قدرغم واندوہ کی کیفیات بھی انکوانکے مقاصد سے برگشتہ نہ کرسکیں بلکہ یہ تکلیف دہ حالات انکی قوتوں ,صلاحیتوں میں نکھاراور شدت کا باعث بنےوہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلیئےاپنے دستیاب وسائل کو پوری طرح استعمال میں لائےبہترین اور مؤثرترین جنگی اورتبلیغی حکمت عملی تیارکی گئیں.وقت کی ظالم اور سرکش طاقتوں کے سامنے ہمت وعزیمت کے پہاڑبن کے کھڑے رہے. ہمیشہ پرامید اوردعاگو رہے.اللہ کی مدداورتائیدحقیقتاََ انکے ساتھ رہیں.کیونکہ اس تھکادینے والی جدوجہدمیں انھیں اللہ سے اس بہترین اجرکی امیدرہی جسکی امیدمخالفین اورکفار کوکبھی حاصل نہیں ہوسکتی.
سورہ النساء آیت نمبر ۱۰۴ میں ارشادباری تعالٰی ہے کہ
“اس گروہ کےتعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ.اگرتم تکلیف اٹھارہے ہوتوتمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھارہے ہیں.اورتم اللہ سے اس چیز کےامیدوارہو جس کے وہ امیدوارنہیں ہیں,اللہ سب کچھ جانتاہےاوروہ حکیم ودانا ہے.”
بلاشبہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کوکشمیرکی آئینی حیثیت کے حوالے سے اٹھائے گئے بھارتی فیصلے نے دنیابھر کی مسلم آبادی کوغم وغصہ میں مبتلاکردیا.دل غم سےبھرگئےاورآنکھیں آنسوؤں سے.لیکن یہی وقت تورجوع الی اللہ کیلیئےبہترین ہے.کشمیری غمزدہ ہیں مگر مایوس نہیں.روشن ضمیری کی بہترین مثال مسلم مجاہدین اس زمین کانمک ہیں جوکسی ملامت و تنقید کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عملی جدوجہدکرتے آرہے ہیں اسکے باوجود بہترسال سے مایوسی کےقریب بھی نہ پھٹکے بھارت نے آرٹیکل 370 کی خلاف ورزی کےتحت کشمیر کی مخصوص حیثیت کے ساتھ جو ظالمانہ اقدام اٹھایا ہے وہ کشمیریوں کی جدوجہد آذادی کو روک نہیں سکتا.کشمیری عوام اورمجاہدین کبھی بھارت کیلیئے نرم چارہ ثابت نہیں ہوئے اسکاثبوت آٹھ لاکھ بھارتی فوجی ہیں جو صرف اس وادی میں تعینات ہیں اور اسکے باوجود کشمیری عوام کی سعی و جہد کو کچلنے میں ناکام .اس لیئے ہمارے لیئے بھی بہترطرزعمل یہی ہے کہ اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھاجائےاور اپنےغم وغصہ کواس انتہاپر جانےسےروکاجائےجہاں پردل شکستگی اور ناامیدی انسان کوبےعمل اورمقصد کےحصول میں سست بنادیتی ہے اپنی قوت,صلاحیت اور دیگروسائل پر یہ مضراثرات نہ پڑنےدیں. کشمیری عوام کے مؤقف کو ہر فورم پر سپورٹ کریں.سب سے بڑااورمؤثرہتھیاردعا ہے جوہروقت تھامے رکھناہے.ظلم کےاندھیروں کے بعد ہی فلاح اوروقارکی روشن صبح طلوع ہوگی ان شاء اللہ.
دل شکستہ نہ ہواورغم نہ کرو,تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو.
(آل عمران- ۱۷۶).