انسانی تاریخ کے بڑے حصے میں تعلیم کبھی تجارت نہیں رہی۔ سقراط کا زمانہ 300 قبل مسیح کا زمانہ ہے اور سقراط کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ وہ بازار یا کسی اور جگہ پر لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو جمع کرلیتا اور ان سے فلسفیانہ سوالات پوچھتا۔ لوگ سقراط کے سوالات کا اپنے علم کے مطابق جواب دیتے۔ سقراط توجہ سے ان کے جوابات سنتا اور آخر میں اپنی رائے دے کر بتاتا کہ حقیقت کیا ہے۔
اس طرح سقراط نے فلسفے کو اپنے زمانے میں عام کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ سقراط اپنی اس تعلیم کی کوئی قیمت یا معاوضہ وصول نہیں کرتا تھا۔
سقراط کے زمانے میں علم کا چرچا ہوا تو کچھ ایسے ماہرین پیدا ہوگئے جو مال دار لوگوں کو پیسے لے کر فلسفہ پڑھاتے تھے۔ سقراط ایسے لوگوں کو سوفسطائی یا تعلیم کے تاجر قرار دیتا تھا اور ان کا مذاق اُڑاتا تھا۔
سقراط کے شاگرد افلاطون نے اکیڈمی کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کیا تواس کی کوئی فیس نہیں تھی۔ البتہ افلاطون یہ ضرور دیکھتا تھا کہ اس کے طالب علموں میں علم ودانش کی محبت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ جس نوجوان میں فلسفے کا ذوق پایا جاتا وہ افلاطون کی اکیڈمی کا طالب علم بن جاتا۔ اس سلسلے میں طالب علم کی مالی حالت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
ہندو ازم کی تاریخ پانچ چھ ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ ہندو ازم کے آغاز میں برہمن کسی نسل کا نام نہیں تھا۔ اس زمانے میں برہمن کا مطلب تھا روحانی صلاحیتوں سے لیس متّقی انسان۔ ایسا متّقی انسان جو آسمانی کتاب کی تشریح وتعبیر کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس دور میں برہمن عام طور پر تارک الدنیا ہوتے تھے۔ وہ ہمہ وقت مذہب اور مذہبی علم کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے اور اس کا کوئی معاوضہ وصول نہ کرتے۔ معاشرہ برہمنوں کی زندگی اور علم پروری کو احسان کے ساتھ دیکھتا اور برہمنوں کی انتہائی قلیل ضروریات کو پورا کرنا اپنا مقدس فرض سمجھتا۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں بھی علم ایک مقدس چیز تھا اور اس کی فراہمی کا کوئی معاوضہ نہیں تھا۔ لیکن فتوحات اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں مدارس کے قیام کا مرحلہ آیا تو ملوک اور بادشاہوں نے علم سے محبت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے علم اور تعلیم کو ”ریاستی شے“ بنانے اور اس پر ریاست کی مہر لگانے کے بجائے تعلیم کو آزاد رکھا۔
اس کی صورت یہ نکالی گئی کہ تعلیمی اداروں کے لیے بڑی بڑی زمینیں وقف کردی گئیں۔ ان زمینوں پر فصلیں کاشت کی جاتیں اور فصلوں کی فروخت سے حاصل ہونے والے سرمائے سے تعلیمی اداروں کے اخراجات پورے کیے جاتے جن میں اساتذہ کی تنخواہیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ وقف کی یہ روایت آج بھی مسلم دنیا میں کہیں کہیں موجود ہے۔
جدید ریاست کے قیام کے ساتھ ہی تعلیم کی فراہمی کا بوجھ ریاست کے کاندھوں پر آگیا اور ابتداءمیں ریاست نے اس بوجھ کو ذمے داری کے ساتھ اٹھایا بھی۔ لیکن ہمارے زمانہ تک آتے آتے اکثر ریاستوں بالخصوص پاکستان کے حکمران طبقے نے تعلیم کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم نجی شعبے کے حوالے ہوگئی اور نجی شعبے کا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر نجی تعلیمی اداروں کے لیے تعلیم کی فراہمی کوئی مقدس فریضہ نہیں ایک تجارت ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے بعض تعلیمی ادارے خود کو اسکول نہیں ”کمپنی“ کہتے ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں کو طالب علم نہیں گاہک یا ”Client“ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں اساتذہ، اساتذہ نہیں بلکہ طالب علموں کے خدمت گار یا Service Provider ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض نجی اسکولوں میں استاد طالب علم کو مارنا تو دور کی بات اچھی طرح ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اسے ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس نے طالب علم کو ڈانٹا یا مارا ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ اس نے ”کمپنی“ کے ”گاہک“ کو نقصان پہنچایا ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ نجی شعبے میں تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا ایک مقصد منافع کمانا ”بھی“ ہوتا ہے۔ لیکن اب اس فقرے سے ”بھی“ غائب ہو چکا ہے اور اس کی جگہ ”ہی“ نے لے لی ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اپنے تعلیمی ادارے کو ”کمپنی“ قرار نہیں دے سکتا۔
بعض لوگ کہیں گے کہ چند تعلیمی ادارے ہی خود کو کمپنی کہتے ہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے۔ لیکن اکثر نجی تعلیمی ادارے خود کو کمپنی کہتے نہیں مگر تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک کمپنی ہیں۔ تعلیمی ادارے کا یہ تصور تعلیم کی سارے تقدس اس کی ساری عظمت اور اس کے تمام بڑے اغراض ومقاصد کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ رہی سہی کثر طلبہ کو گاہک اور اساتذہ کو طالب علموں کا خادم قرار دینے سے پوری ہوجاتی ہے۔
تعلیمی اداروں کے تجارتی پہلو کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو تعلیمی ادارہ جتنا مہنگا ہے اتنا ہی معیاری ہے۔ حالاں کہ اکثر صورتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سلسلے میں اکثر اوقات اونچی دکان پھیکے پکوان والی صورت ہوتی ہے۔
تعلیم کی نج کاری کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ والدین اور طلبہ کی اکثریت کے لیے تعلیم صرف مادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے۔ جس طرح لوگ رشوت دے کر ملازمت حاصل کرتے ہیں تو وہ ملازمت پر فائز ہو کر خود بھی رشوت کا بازار گرم کردیتے ہیں اسی طرح مہنگی تعلیم والدین اور طلبہ کی اکثریت کے ذہنوں کو آلودہ کر کے انہیں اپنی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل کرنے کی طرف مائل کردیتی ہے۔
تعلیم کی نج کاری کا ایک ہولناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اہلیت وصلاحیت کا سوال اضافی ہوگیا ہے اور اہل اور باصلاحیت طلبہ کی عظیم اکثریت پر اپنی اہلیت وصلاحیت کو پروان چڑھانے کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ اب اہلیت اور صلاحیت کا مفہوم بھی پیسہ ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہی اسکول میں ہے، وہی کالج میں ہے، وہی یونیورسٹی میں ہے۔ چنانچہ وہی اہل اور باصلاحیت ہے اور وہی تعلیم یافتہ ہے
ایک ایسے معاشرے میں جہاں 70 فی صد آبادی کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہو تعلیم کی نج کاری کے مضمرات مزید عیاں ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ ہم نے 1990 میں جب جامعہ کراچی سے ایم اے کیا تو اس وقت جامعہ کراچی کے ایک سمسٹر کی فیس ساڑھے تین سو روپے تھی۔ آج یہ فیس ڈھائی سے تین ہزار روپے ہے۔ ہم اس فیس کو دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ اگر ہمارے زمانے میں جامعہ کی اتنی فیس ہوتی تو ہم سمیت ہزاروں طالب علم جامعہ کراچی میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انسانی تاریخ کے طویل سفر میں عبقریوں یا Geniuses کی عظیم اکثریت متوسط یا زیریں متوسط طبقے سے فراہم ہوتی ہے اور طبقہ امراءسے جو ذہین ترین افراد فراہم ہوئے ہیں ان کی ذہانت اور علم کا سرمائے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بلاشبہ آج اعلیٰ تحقیق کے لیے کثیر سرمائے کی بھی ضرورت ہے مگر اعلیٰ تحقیق اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب بنیادی تعلیم کا نظام سرمائے پر نہیں اہلیت وصلاحیت اور ذوق وشوق پر استوار ہو۔ اہلیت وصلاحیت اور ذوق وشوق ہو تو طالب علم پیلے اسکول سے بھی عبقری بن کر نکل سکتا ہے ورنہ کیمبرج اور ہارورڈ بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔