ساجد کے دل میں کب سے تھا کہ وہ بھی ایک بار قربانی کرے۔ مگر اس کی مالی حالت اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی۔ بڑے دنوں بعد،آج اس کی یہ حالت ہوئی تھی کہ وہ قربانی کر سکے۔ وہ آج بہت خوش تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر منڈی گیا۔ اور وہاں سے اپنی حیثیت کے مطابق ایک بکرا خرید لایا۔
عید الاضحیٰ کے دن، بعد نماز اس نے خشوع وخضوع اس بکرے کی قربانی دی اور باپ بیٹے نے مل کر اس کی کھال نکالی اور تمام آلائشوں سے اس کو پاک و صاف کیا۔ اس کے بعد گوشت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر، ترازو میں تول کر تین برابر حصے کئے۔ ایک غریبوں کے لئے۔ دوسرا رشتہ داروں و دوستوں کے لئے اور تیسرا خود گھر کیلئے رکھا۔ جب سب گوشت تقسیم ہو گیا حقداروں کا تو ساجد نے دیکھا ابھی اور ضرورت مند پڑے ہیں۔
آج اس کو وہ دن یاد آیا۔ جب وہ سنتا تھا۔ لوگ فرج میں رکھ کر مہینوں گوشت کھاتے ہیں۔ مگرغریبوں، محتاجوں کو نہیں دیتے۔ لیکن آج وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آج اللہ نے اس کو یہ دن دکھایا ہے تو ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ اور پھر وہ گوشت بھی جو اپنے گھر کے لئے رکھا تھا اٹھایا اورغریبوں، ناداروں میں تقسیم کرنے لگا۔ شام تک جب سب گوشت تقسیم ہو گیا اور اس کی نگاہ میں کوئی ضرورت مند نہیں رہا، تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
چھوٹا بیٹا پاس آ کر بولا، لیکن ابا اپنے لئے تو کچھ بھی نہیں بچا۔
باپ نے صابرانہ و شاکرانہ نظروں سے بیٹے کو دیکھ کر کہا، بیٹے، یہی تو قربانی ہے۔
بیٹے نے دیکھا باپ کے چہرے پراس وقت جنت سا سکون اور آب زم زم کی سی پاکیزگی ہے۔ بیٹا بھی حلال و پاکیزہ کمائی کا پلا بڑھا تھا۔ باپ کے صابرانہ و شاکرانہ قربانی کے اس جذبے سے بہت خوش ہوا۔
رات کا کھانا بیوی نے وہی دال روٹی بنایا اور سب لوگوں نے ہنسی خوشی سے صبر و شکرکے ساتھ کھایا !!