٭… ہائے گدھے کی قسمت …٭

گدھا بھی قدرت کا بنایا ہوا ایک عجیب جانور ہے یا یہ کہیے کہ ایک بد نصیب ترین جانور ہے۔ بدنصیب یوں کہ اس کی زندگی کے دن کبھی پھرے ہی نہیں، ہمیشہ ہی بدنصیب رہا۔ اس نے ہزاروں سال انسان کے ماتحت زندگی گزاری لیکن کبھی اپنی عزت نہیں بنا سکا۔ یہ کہ یہ ہمیشہ سے گدھا تھا اور اب تک ہے۔ اونٹ اتنا بڑا اور تناور ہونے کے باوجود بہت سے بہت چار لوگ اپنی عماری پر بٹھاتا ہےلیکن دو گدھے کی جوڑی بارہ آدمیوں کو بھی گھسیٹ لیتی ہے۔ کئی کئی کلو وزن خود پر برداشت کرتا ہے۔ سواری بنتا ہےاور کھانے کو کچھ بھی کھا لیتا ہے کچرا تک کھالیتا ہے لیکن  پھر بھی اسکی کوئی اہمیت نہیں اسکی سب سے بڑی بد قسمتی ہی یہ ہے کہ کبھی امیروں نے اسے نہیں پالا، مارکیٹ میں  اسکی  قیمت ڈیڑھ لاکھ ہونے کے باوجود تقریباً ہر غریب کے پاس مل جاتا ہے جبکہ کسی امیر سے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ میں نے گدھا پالا ہے ۔وہ امیر جو شیر ،چیتے سے لیکر تیتر ،بٹیر ،الّو ،چڑیا سب پال لیتا ہے کبھی گدھے کو نہیں پالتا۔اس غریب کے پاس پلنے والا گدھا جس کے اپنے آٹھ بچے ایک کمرے میں سوتے ہوں کیا آسائشات والی زندگی گزارے گا!

سوکھے درخت کے تنے پر بندھے چھوٹے قد،  بدنما شکل اور بغیر بالوں والے جسم پر جگہ جگہ زخم کے نشان سے بھرے مظلوم و مجبور گدھے کو دیکھ کر اکثر مجھے شدید کوفت کا احساس ہوتا ہے۔دل میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ آخر اس کا قصور کیا ہے ؟ وہ گدھا جو مالک کا وزن اٹھانے اور سہارا بننے کے باوجود ہمیشہ اسکی مار اور بےدرد  جھڑپ کا نشانہ بنتا ہے ،عموماً معاشرے میں  قابلِ رحم بھی تصور نہیں کیا جاتا ۔

گدھا بھی قدرت کا بنایا ہوا عجیب نمونہ ہے  ،خدا جانے اس کا قصور کیا تھا کہ وہ کسی جانور کے لیے بھی قابلِ رشک نہیں رہا، مور کو حسین جسم دیا، بلی کو پیاری شکل دی، کوئل کو سریلی آواز دی توعقاب کی پرواز قابلِ رشک، چیتے کی دوڑ نرالی ، شیر کی تو بات ہی الگ ہے، لومڑی کی چال ہے خوبصورت،  ہرن کی آنکھ نشیلی ، خرگوش کی کھال گوری، حتیٰ کے دنبے کے کانوں پر بھی پیار آہی جاتا ہے لیکن گدھا عجیب ہے بہت ہی عجیب۔

 بہرحال جانوروں میں کئی اور بھی جانور ایسے ہیں جو ہمیشہ ہی پھٹکار اور طعنوں میں جیے ہیں  لیکن پھر بھی گدھے نہ ہوۓ ۔ اب کوّے کو ہی لے لیجیے ، بدنما شکل، شدید چبھتی ہوئی آواز لیکن پھر بھی انسان ترس کھاکر کنڈالی میں پانی رکھ ہی دیتا ہے، گدھے پر ہوا ایسا کوئی ترس آج تک میری آنکھوں سے نا گزرا۔ اب گائے، بکرے،اونٹ، بیل، دنبے کو ہی لے لیجیے کھائے جاتے ہیں لیکن اسی قربانی نے کچھ شرف تو بخشا! گدھے کا تو کھانا بھی انسان کو ناگوار ہے۔

گھوڑا بھی تو سواری ہی دیتا ہے لیکن اس قدر باعث عزت مخلوق ، زرافہ کچھ نہیں کرتا لیکن اونچے قد سے مشہور ہے ، ہائے گدھے کی قسمت، کبھی قدآور گدھا بھی نہیں دیکھا گیا۔ حتٰی کچھ بکرے بھی اتنے تندرست ہوتے ہیں کہ آدمی کے قد کو پہنچتے ہیں۔گدھے کا قد بھی لمبا نہیں ہوتا، چھوٹے سے قد کے، کمزور سی جسامت کے ساتھ، گہرے اور خون سے لال گردن پر بنے زخم کے نشان پر روتے گدھے، جنکے آنسوؤں کے نشان آنکھ کے نیچے جم ہی جاتے ہیں، مجھے ہمیشہ شدید کوفت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ کوفت اس لئے کے انہوں نے کبھی اپنی قسمت بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اب اگر بدنصیبی کی ہی بات ہے تو انسان کی گالیوں میں گدھے کے ساتھ ہمیشہ سے اور بھی جانور شامل رہے جیسے الّو، کتا، سور،  لیکن انہوں نے بھی تو اپنی قسمتوں پر کام کیا۔

بےڈھب، سست، موٹے اور لجلجے جسم کے مالک سور کو جب کچھ کام نظر نہ آیا تو اسنے اپنی چربی ہی مزیدار بنادی۔ الو کسی راہ حل کو نا پہنچا تو انسان سے تعلق کو قطع کرلیا اور جہاں تک کتے کی بات ہے خود کو ہر طرح سے ناکارہ جانتے ہوئے کتے نے بڑی چالاکی سے محبت کے ترسے ہوئے انسان کے آگے چاپلوسی شروع کردی۔

جس شخص نے اپنے باپ سے وفا نا کی کتا اسکا بھی وفادار ہوگیا۔ اپنی بھئو بھئو آواز کو وئووئوں کرگیا اور ہمیشہ جس مالک کا کھایا اسی سے وفاداری کی باقی سب پر بھونکا لیکن بے چارے گدھے کو یہ بھی نہ آیا وہ تو جس نے ڈنڈا مارا اسی کے رخ پر چل پڑا وفاداری،مزدوری،محنت،خواری سب کرکے بھی گدھا گدھا ہی رہا کیونکہ وہ کتے کی طرح انسان کو گدھا نہیں بناسکا۔

 ۔ ۔ کئی بار اس سوال نے مجھے کوفت میں مبتلا کیا کے آخر گدھے کا قصور کیا ہے لیکن بلآخر نتیجہ یہ نکالا کہ گدھے کا کوئی قصور نہیں لیکن گدھے کے لئے سزا ہے کیونکہ وہ گدھا ہے۔بہرحال گدھے کی قسمت تو گدھی ہی رہی لیکن گدھے بن کر آپ ہر ڈنڈے پر رخ نہ بدل لیے، اگر جانور ہی بننا ہے تو کتا بن جائیے لیکن گدھے نہ بنئیے کیونکہ یہ سالا گدھا بھی قدرت کا بنایا ہوا عجیب جانور ہے، جیسے کوئی “زندہ عبرت”۔۔۔۔۔۔۔

فرزین فاطمہ زیدی جامعہ کراچی میں تاریخ کی طالبہ ہیں

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں