کشمیر یا انگاروادی

میرے وطن تیری جنت میں آئیں ایک دن

ستم شعاروں سے تجھ کو  چھڑائیں گے ایک دن

وادی جو جنت تھی، جنت نا رہی، انگار وادی بن گئی، کبھی روح روندی گئی تو کبھی جسم داغا گیا، کبھی میری ماؤں میری بہنوں کے دامن تارتارکیے گئے، وادی جنت نا رہی انگار وادی بن گئی

بنیا اپنی فطرت کے عین تقاضوں کے مطابق جال بُنتا رہا اور ہمارے ساہوکار اپنے دام کھرے کرتے چلے، جنہیں حفاظت کرنی تھی وہ تجارت کرتے رہے، وادی جو جنت تھی، جنت نا رہی انگار وادی بن گئی۔

ستائیس اکتوبر انیس سو سینتالیس جب بھارتی سورماؤں نے نہتے کشمیریوں کو سنگینوں پر چڑھایا، جب ڈوگرا راج اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے کشمیر کو یرغمال بنایا، جنت کی حرمت اس ہی دن تار تار ہو گئی تھی، تب سے آج تک لاکھوں کشمیریوں کا بیگناہ خون ہندو توا تحریک کے سر پر ہے، بیگناہوں کا خون ہندوستان حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر اس کے سیاہ کارناموں کی داستان سنا رہا ہے تو دوسری طرف سید علی گیلانی جیسے شیر اپنی داستانِ شجاعت الگ قلم بند کر رہے ہیں۔

ہندوستان کے مطابق لداخ اور جموں وکشمیر میں ہندوؤں کی آبادی کا تناسب مسلمان آبادی سے بڑھ گیا ہے، لداخ میں باقاعدہ ہندو توا کے تحت آبادکاری ہوئی، پچھلے کئی سالوں سے جموں میں غیر قانونی مائیگریشن اپنی انتہا پر رہی ہے۔

اس سب کے بیچ میں ریاست پاکستان کی خاموشی سوال کھڑا کرتی ہے کہ کیا پاکستان ہندوستان کی کشمیر پر اجارہ داری کو قبول کر چکا ہے؟

زبانی جمع خرچ کے بجائے حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ستم شعاروں سے کشمیر چھڑانے کے لیے ریاست پاکستان کے پاس کوئی واضح حکمت عملی اگر کوئی ہے تو اس پر عملدرآمد کرنے کا شاید ہمارے پاس زیادہ وقت نا ہو، فیصلہ بہت جلد لیکن بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے، لاکھوں شہداء کشمیر کا خون رائیگاں نا جائے۔ہم نے کشمیر آزاد کرانے کی قسم کھائی تھی اب اس قسم کو پورا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے، کشمیر جو جنت تھا، آج بھی جنت ہے۔

میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن

ستم شعاروں سے تجھ کوچھڑائیں گے ایک دن

حصہ

جواب چھوڑ دیں