ناموس رسالتﷺ اور جماعت اسلامی  کی تاریخی جدوجہد

موجودہ حالات کے تناظر میں کارکنان کے مطالعے کے لئے خصوصی تیار کردی مختصر  مضمون

ناموس رسالت ﷺ ہمارے ایمان کا جز ہے ۔۔۔خیر اور شر کی جنگ میں باطل نے ہمیشہ ختم نبوت کے معاملے کو ہی قوت پہنچائی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایمان بالرسالت کو ضرب لگائے بغیر وہ کبھی دنیا پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتے

کذّاب مرزا غلام قادیانی کے پیچھے بھی وہی قوتیں  کارفرما ہیں جو اسلام کو کمزور کرنا چاہتی ہیں ان کی یہ جدوجہد قیام پاکستان سے قبل جاری تھی جب زیرک رہنما مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سازش کو جان لیا۔۔۔۔۔ وہ مسئلہ قادیانی میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل ہی قادیانیوں نے انگریزوں کو اپنے شیشے میں اتار لیا تھا۔۔۔

تریاق القلوب قادیانیوں کے مجلہ مطبوعہ ضیاء الالسلام قادیان 28 اکتوبر 1902 میں بعنوان  ’’ حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست‘‘ میں مرزا غلام احمد قادنی نے لکھا

بیس برس کی مدت سے میں اپنے دلی جوش و جذبے سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی ،انگلش اور اردو میں شائع کررہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ اور دلی جان نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ کے بے ہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے ،دست بردار ہوجائیں اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو کم از کم یہ ان کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ محسنہ کے ناشکرگزار نہ بنیں اور نمک حرامی سے خدا کے گناہگار نہ ٹھہریں (ص ۳۰۷)

تو یہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ہی تھے جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل قادیانیوں کی انگریزوں کی خوشامد سے مسلمانوں کے کوٹے ہتھیانے کا راز فاش کیا۔

 قادیانیوں نے اپنی پچاس سالہ جدوجہد پرامن اسلام کے نام سے انگریزوں کے سامنے پیش کر کے مسلمانوں کے نام کے کوٹے حاصل کئے اور ہندوستان کے تمام بڑے چھوٹے عہدوں اور دیگر شعبہ جات میں مسلمانوں کے نام کا کوٹہ ہتھیایا جبکہ وہ مسلمانوں کے آخری نبی ﷺ کے خاتم النبین ہونے کے بھی انکاری تھے ۔

آپ مولانا مودودی کی کتاب مسئلہ قادیانی کا مطالعہ کریں تو بخوبی معلوم ہوگا کہ مولانا مودودی ان کی اس شاطرانہ چال سے بروقت آگاہ ہونے اور مستقبل کو زیرک نگاہی سے جانچ لینے کے پیش نظر ہی قیام پاکستان کے فورا بعد 30 اگست 1947 کو  پاکستان ہجرت کرتے ہیں اورمہاجر کیمپس میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو رضاکارانہ خدمات کی ہدایات کرتے ہیں ۔مولانا موودی قیام پاکستان کے محض چھ ماہ بعد ہی حکومت سے ’’ مطالبہ نظام اسلامی‘‘ اپنی ایک تقریر میں پیش کرتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ قائداعظم نے ایک سوال کے جواب میں واضح کہا تھا کہ پاکستان کا قانون قرآن مجید ہوگا۔

25 مارچ 1948 کو جہانگیر پارک کراچی کے عظیم الشان جلسہ عام میں مولانا مودودی نے مشہور چار بکاتی ایجنڈا نظام اسلامی پیش کیا

۱۔ پاکستان کی بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے

۲۔پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہوگا

۳۔تمام قوانین جو اسلامی شریعت کے خلاف ہیں منسوخ ہوں گے

۴۔حکومت پاکستان شرعیت کی حدود کے اندر اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی

مارچ تا مئی 1948 چار نکاتی مطالبہ اسلامی کی تحریک ملک کے گوشے گوشے پھیلتی ہے جون سے اکتوبر تک حکومت اور اسلام مخالف یہ قادیانی طبقہ ، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کر کے بھی جب زچ ہوجاتا ہے تو اکتوبر 1948 میں مولانا سمیت جماعت کی ساری قیادت گرفتار کر لی جاتی ہے جسے مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ چھ چھ ماہ بڑھایا جاتا ہے یہ تمام قیادت بیس ماہ جیل میں رہتی ہے۔اس دوران جماعت اسلامی کے کارکنان قائمقام امیر جماعت عبدالجبارغازی  کی قیادت میں چار نکاتی مطالبہ اسلامی کی تحریک جاری رکھتے ہیں،بالآخر حکومت مارچ 1949 میں قرار داد مقاصد منظور کرلیتی ہے جو مطالبہ نظام اسلامی کے حق میں تھی۔

اس دوران بھی مولانا اور جماعت اسلامی کے اکابر رہنما جیل ہی میں تھے۔ جو کہ 28 مئی 1950 تقریبا بیس ماہ کے بعد مولانا اور ساتھیوں کی رہائی بوجوہ قانونی مجبوری عمل میں آتی ہے

ستمبر 1950 میں حکومت دستوری سفارشات پیش کرتی ہے جس میں اسلام کے خلاف تو کچھ نہیں تھا لیکن عملا قرار داد مقاصدکی روح نکال دی جاتی ہے۔

21 جنوری 1951 ملک کے مختلف فرقے اور مکاتب فکر کے 13 نمائندوں اور سرکردہ رہنماوں کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جو اسلامی دستور کے 22 نکات متفقہ طور پر پیش کرتا ہے۔یہ بائیس نکاتی اسلامی دستور کا مطالبہ جماعت اسلامی کے کارکنان ملک کے چپے چپے میں پہنچاتے ہیں۔1951 کے انتخابات میں صالح نمائندوں کی حمایت کی جاتی ہے۔تین سال گزرنے کے باوجود حکومت کے ایوان میں اسلامی دستور کی تدوین کے معاملے پر خاموشی دیکھتے جماعت اسلامی نو نکاتی ایجنڈا پیش کرتی ہے جس میں گزشتہ چار نکاتی مطالبہ اسلام سمیت شہری حقوق کا تحفظ،مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کے قواعد و ضوابط اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے جیسے نکتے شامل ہوتے ہیں

اس تحریک کے نتیجے میں حکومت 1952 کے آخر میں دستوری سفارشات پیش کرتی ہے ۔۔جس پر غور و حوض کے لئے جنوری 1953 کے دوسرے ہفتے ملک بھر کے 31 یا 33 سربرآوردہ علماء کرام کا اجتماع ہوتا ہے۔علماء مکمل اتفاق رائے سے دستوری سفارشات پر مدلل تجاویز تیار کرتے ہیں۔

اسی ماہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے آل پارٹیز کنونشن کراچی میں منعقد ہوتا ہے جس میں مولانا  مودودی کنونشن کے شرکاء کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی دستوری جدوجہد کی جائے۔

بعد ازاں 27 فروری 1953 آل پارٹیز کنوشن کے شرکاء ڈائریکٹ ایکشن کا فیصلہ کرتے ہیں جس پر جماعت اسلامی اس کی مخالفت کرتی ہے اسے دستوری فورم پر ہی زیر بحث لانے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن اس دوران پنجاب میں تخریبی کاروائیاں زور پکڑتی ہیں جس کی جماعت اسلامی حامی نہیں تھی۔ مارچ 1953 میں مولانا کا مشہور زمانہ پمفلٹ قادیانی مسئلہ شائع ہوتا ہے جو عوام میں مقبولیت حاصل کرتا ہے ۔اس کتابچے میں قادیانیوں کی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے علماء کی جدوجہد اور مطالبات پیش کئے گئے تھے کہ قادیانیوں کو کسی صورت مسلمان تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

28 مارچ 1953 کو مارشل لاء حکام مولانا اور ان کے ساتھیوں کو قادیانی مسئلہ کی اشاعت اور اس تحریک پر گرفتار کرلیتے ہیں۔جس پر مختلف مقدمات وغیرہ سے ہوتے ہوئے بالآخر 11 مئی 1953 کو مولانا کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔معافی مانگنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے جسے مولانا مسترد کردیتے ہیں کہ انہوں نے کوئی خلاف قانون اور خلاف شرع کام نہیں کیا جس پر معافی مانگیں۔

جماعت کے رہنماوں کی رہائی اور اسلامی دستور کا مطالبہ کی تحریک جماعت اسلامی جاری رکھتی ہے۔29 اپریل 1955 پر مولانا کو سزائے موت سے بری کردیا جاتا ہےاور جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع کراچی میں نومبر 1955 میں منعقد ہوتا ہے۔

تمام دینی مکاتب فکر اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے نتیجے میں باالآخر حکومت اسلامی دستور مرتب کرلیتی ہے جسے جماعت اسلامی کی شوریٰ بھی چند ترامیم کے ساتھ منظور کرلیتی ہے۔

1957 میں مولانا عرب ممالک کا دورہ کرتے ہیں جس کا مقصد اسلامی اتحاد کے لئے رائے ہموار کرنا تھا۔مختلف غیر دستوری اور دستوری مارشل لاوں کے دور میں جماعت اسلامی مسلسل زیر عتاب رہتی ہے۔ چھ جنوری 1964 میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے کر پھر مولانا سمیت تریسٹھ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے بعد ازاں پچیس ستمبر عدالت رہا کردیتی ہے۔جماعت اسلامی 1965 کے صدارتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جاتا ہے۔

1968 میں آٹھ نکات پر پانچ سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں جماعت اسلامی شامل ہوتی ہے اور ملک بحالی تحریک چلائی جاتی ہے۔ ملک کے حالات مارشل لاء ،انتخابات اور سیاسی گہما گہمی سے گزرتے ہیں ۔مولانا31 مئی 1970 کو یوم شوکت اسلام منانے کا اعلان کرتے ہیں جس میں اسلامی نظام کے لئے جوش و خروش کا اظہار کیا جاتا ہے۔

اس دوران سقوط ڈھاکہ کا دلخراش واقعہ پیش آتا ہے جماعت اس وقت بھی نظریہ پاکستان کی حمایت کرتی ہے۔ 1973 میں جماعت کے خلاف سختیوں اور مظالم کا دور شروع ہوتا ہے ،جماعت اسلامی کے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کردیا جاتا ہے۔جماعت اسلامی  اور اکابر دینی جماعتوں کی قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی مستقل،جمہوری اور منظم کاوشوں کی بدولت حکومت مجبور ہوجاتی ہے کہ ملک کا اسلامی آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔جہاں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ اور محمد ﷺ  کی شریعت کا بول بالا ہوگا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دشمن  قادیانیت کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے حکومتوں کی چاپلوسی سے اپنی جگہ بنانے کی کوششوں جاری رکھتے ہیں۔ملک کے بیشتر بڑے عہدوں اور مواقع میں اپنی جگہ بنارہے ہوتے ہیں۔

۲۹ مئی ۱۹۷۴ کو نشتر میڈیکل  کالج کے  اسلامی جمیعت طلبہ شمالی علاقہ جات کی سیر  پر بذریعہ ٹرین جاتے ہوئے چناب نگر(ربوہ) کے اسٹیشن پر قادیانیوں کو لٹریچر تقسیم کرتے دیکھ کر نعرہ ختم نبوت ﷺ زندہ باد  ،قادیانیت مردہ باد  بلند کیا قادیانیوں کے خلاف نعرے لگائے۔۔۔۔یہ ربوہ میں ہونا قادیانیوں کو ہضم نہ ہوا اور جب طلبہ ٹور سے واپس اسی اسٹیشن رکے تو قادیانیوں نے پرتشدد حملہ پوری سازش کے ساتھ کیا۔یہ سانحہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلا اور ملک میں نئے سرے سے تحریک شروع ہوئی ۔ اب تک جماعت اسلامی دینی طبقہ کو جس جانب متوجہ  کیا وہ دستوری جمہوری منظم جدوجہد تھی۔دینی طبقہ نے اسلامی ستور کی منظوری کے بعد اس لائحہ عمل کو سمجھ لیا تھا چنانچہ مجلس ختم نبوت تشکیل پاتی ہے  جس میں ۱۹   دینی و سیاسی جماعتیں اور مکاتب  فکر مسلمانوں کے تمام فرقوں کے نمائندہ امل ہوتے ہیں،جماعت اسلامی کے  پروفیسر غفور احمد ،چوہدری غلام جیلانی اور میاں طفیل محمد شامل  تھے۔

۱۶ جون ۱۹۷۴ کو فیص ٓباد سے تحریک ختم نبوت ﷺ کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے جس کو ملک کے گوشے گوشے میں پھیلانے میں نوائے وقت اور جسارت نے نمایاں کرار ادا کیا۔ قادیانیوں کے خلاف  اسلامی جمیعت طلبہ تشدد کیس  نے ملک کے کونے کونے میں مسلمانوں کا ایمان  ختم نبوت ﷺ جگا دیا قایانیوں کا سوشل بائیکاٹ ہوا جبکہ دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے صوبے پر قادیانی حنیف رامے براجمان تھا ۔۔۔۔۔اور قیام پاکستان   قبل سے ہی بڑے  چھوٹے عہدوں پر قادیانیوں کا قبضہ تھا۔اس تحریک کی آواز اسمبلی تک پہنچی۔قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے دو مہینے میں   28اجلاس اور96 نشستیں  کیں،قادیانیوں کے خلیفہ مرزا ناصر کو 42 گھنٹے اور لاہوری شاخ کے صدر الدین کو 7 گھنٹے        اپنے موقف کی وضاحت وکالت کا پورا موقع دیا لیکن وہ لوگ  اپنے موقف کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

7 ستمبر 4 بج کر 35  منٹ پر  قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔

قارئین اب تک کی ساری بات ایک سرسری سا جائزہ تھا جماعت اسلامی سنجیدگی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی ستور اور فتنہ قادیانیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی رہی۔مقدمات کا سامنا کیا،جیلیں کاٹیں،پابندیاں سہیں،لیکن عملی ستوری جدوجہد کو پایہ تکمیل پہنچا کر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار  کروا کر دم لیا۔اس دور میں قادیانی سر ظفر اللہ خان کو وزیر مملکت بنانے پر علماء نے تحریک چلائی گزشتہ سال 2017 میں  موجودہ حکومت کے آنے سے قبل 2017 میں ن لیگ کی سرپرستی میں ایک نئی سازش کا آغاز اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی کے ممبران کے حلف نامے میں ایمان باالرسالت ﷺ بطور خاتم النبین کے الفاظ کو تبدیل کرنے کی پراسرار مہم شروع ہوتی ہے ۔جماعت اسلامی کے قانونی مشیر ایڈووکیٹ سیف اللہ گوندل حلف نامے کی تبدیلی کی متعلق سب سے پہلے سینیٹر سراج الحق کو آگاہ کرتے ہیں،سینیٹر سراج الحق اپنے پارلیمانی  لیڈرز تک اس ایشو کو اٹھانے کا پیغام دیتے ہیں۔ جماعت کے ایم این اے طارق اللہ  قومی اسمبلی میں چیلنج کرتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی میں حلف نامہ ممبر قومی اسمبلی میں سے ختم نبوت کی شق تبدیل کرنے پر کوئی بحث نہیں کی گئی اور بحث کے   بغیر  منظور کرلیا گیا

اس کا شاخسانہ 2014 سے شروع ہوتا ہے جب الیکشن قوانین میں اصلاحات کے  لئے گورنمنٹ ’’ پارلیمانی کمیٹی‘‘  بناتی ہے جس کی 118 میٹنگز ہوتی ہیں جس میں ذیلی 93 اور مرکزی کمیٹی کی 25 میٹنگز شامل  ہیں۔اور الیکشن بل 7  اگست 2017  کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

اس سارے عرصے میں پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کے مطابق  کسی بھی میٹنگ میں  ختم نبوت ﷺ  سے متعلقہ حلف نامے میں تبدیلی کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ۔قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل کی پی ڈی ایف کاپی کا لنک

Draft election bill 2017 for views/comments of public at large

نئے  حلف نامے میں   الفاظ ایسے تبدیل کئے گئے کہ پاکستان کے دستور کے خلاف ختم نبوت ﷺ پر ایمان نہ رکھنے والا یعنی قادیانی بھی پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا تھا۔اصل  حلف نامے سے   “” OATH    and    SOLEMNLY SWEAR “” کے الفاظ حذف کردئیے گئے۔

22 اگست کو الیکن اصلاحات بل قومی اسمبلی  میں منظور ہوا،سینٹ میں 24 اگست کو پہنچا۔جماعت اسلامی کے قانونی مشیر سیف اللہ گوندل صاحب نے بل کا تفصیلی مطالعہ اور تجزیہ کیا اورسراج الحق صاحب کو اس خاموش شگاف تبدیلی پر اآگاہ کیا جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر حمد اللہ کو بریف کیا۔حافظ حمد اللہ نے  بل میں حلف نامے کو اصل حالت میں قائم رکھنے کی  ترمیم پیش کی  جو 13 کے مقابلے 34 ووٹوں سے مسترد کردی گئی۔سینیٹ کے بعد یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں 2 اکتوبر کو  آیا ،جماعت اسلامی    کے ایم این اے طارق اللہ صاحب نے  حلف نامے  کو  اصل حالت میں بحال کرنے کی ترمیم پیش کی۔جس سے باقی ارکان اسمبلی بھی اس خاموش سازش سے آگاہ ہوئے  ملک بھر میں بات پھیلی جس پر دینی طبقے کی جانب سے شدید ردعمل آنے پر حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کرتے 16 نومبر کو حلف نامے کی تبدیلی واپس لے لی۔

قارئین موجودہ حکومت  ،اور پاکستان کے دیگر اداروں کی قادیانیت نوازی اب کسی سے ڈھکی چھپی  نہیں ۔انتخابات میں الیکشن قواعد کی بے ضابطگیوں کے باوجود جماعت نے آنے والی حکومت کو خوش آمید کہا اور توقع ظاہر کی وہ پاکستان کے عوام کے لئے حقیقی معنوں میں تبدیلی لائیں

عاطف میاں قادیانی کی  بطور اقتصادی مشیر کی تقرری ہو یا وزیر اطلاعات کا بیان کہ قادیانی اقلیت ہیں ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا سے لیکر  لمز جیسے ملک کے بڑے ادارے کے طلبہ کا ربوہ  جا کر قادیانیوں  سے اظہار  یکجہتی ،اور برطانوی  لارڈ جو کہ قادیانی ہیں ان سے ملاقات اور قادیانیوں کے حقوق کے تحفظ کا اظہار

کون سے حقوق  ہیں جو اس ملک میں قادیانیوں کو نہیں دئیے جارہے۔تعلیم روزگار سہولتیں کسی بھی چیز پر پابندی نہیں ہے۔ہم ان کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے  وہ مسلمانوں کا فرقہ نہیں ہیں۔۔۔

وہ پاکستان کی اقلیت ہیں  ،ان کو برابر حقوق ملتے ہیں کیا وہ خود کو اقلیت مانتے ہیں ؟؟؟ نہیں  اور یہی مسئلہ ہے۔

پاکستان میں موجود عیسائی،ہندو و دیگر  اقیلیتیں خود کو عیسائی،یہودی،ہندو اور سکھ کہتے ہیں قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں جب کہ آنحضور ﷺ کو آخری نبی ماننے والا مسلمان نہیں۔

وہ کہہ دیں کہ وہ قادیانی ہیں جو مرزا غلام کے پیروکار ہیں  ۔۔۔خود کو اقلیت تسلیم کریں ۔۔۔خود کو  مسلمان کہہ کر دنیا بھر میں متعارف کرواتے ہیں،مسلمانوں کو کافر اور متشدد قرار دیتے ہیں،انتہائی مضحکہ خیز طرفہ تماشا یہ ہے کہ  خود کو مسلمانوں کا فرقہ کہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔۔۔کہ جو انکے مرزا کو  نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے

دنیا بھر میں وہ خود کو احمدیہ اسلام کہہ کر مسلمانوں کا ایک فرقہ کہتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے مختص کوٹوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن مسئلہ قادیانیت کتاب میں مولانا مودودی نے خود مرزا غلام احمد قادیانی کے مقالوں تحاریر کتب سے حوالے دئیے جس میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو ماننے والے اگر مرزا غلام قادیانی پر ایمان نہیں لائیں گے تو وہ کافر ہیں۔۔۔

1974 کی قومی اسمبلی میں مولانا اللہ وسایا کی بیان کردہ کاروائی پر  وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب  دوران جرح پوچھا گیا کہ جو  امت محمدی کا  مسلمان مرزا غلام احمد قادیانی کو اللہ کا نبی نہیں مانتا کیا وہ آپ کے نزدیک کافر ہے ۔۔۔۔۔ مرزا ناصر نے جب یہ اقرار  کیا تو بھٹو جیسا دنیا میں ڈوبا مسلمان طیش سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔  مرزا ناصر کی اس بات پر بھٹو کا ایمان اتنا پرجوش ہوا کہ اس نے ان کو غیر مسلم قرار دینے میں توقف نہ کیا۔

لیکن موجودہ حکومت اس ایمانی حمیت  سے بھی عاری نظر آتی ہے جو آئے روز ختم نبوت ﷺ کے اس اہم حساس معاملے کو کبھی آسیہ مسیح کیس کی برطانوی پشت پناہی پر اور کبھی قادیانیوں کی مستقل سرپرستی کا کھلا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوک رہی

قارئین جماعت اسلامی اپنی 70 سالہ جدوجہد میں ہمیشہ زیرک نگاہی سے دین اسلام پر ہر حملے کا سامنا کیا ہے۔جماعت اسلامی کا قیام پاکستان کو فورا چھ ماہ کے پیش کردہ 4 نکاتی اسلامی نظام کا مطالبہ ہو،مسئلہ قادیانی لکھنے اور اسلامی نظام کے مطالبے پر امیر جماعت اور اکابرین جماعت کی پے دے پے گرفتاریاں اور مولانا کی پھانسی تک کا حکم ہو،1951 میں  13 علماء  کے اجلاس میں 22 نکاتی اسلامی دستور کے نکات کی منظوری،1953 میں 31 علماء کے اجتماع میں دستودی سفارشات کی تیاری ہو یا آل پارٹیز کنونشن میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی دستوری جوجہد پر قائل کرنا ہو،1956 کا اسلامی دستور جو قرار داد مقاصد کی بنیاد پر بنا ہو یا  1968 میں 8 نکات پر قائم 5 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہو ،31 مئی 1970 کو یوم شوکت اسلام ہو یا  اتراکیت کے سامنے ڈاکٹر نذیر احمد شہید سمیت تشدد اور پابندیوں کا سامنا،اسلامی جمیعت طلبہ کے ربوہ اسٹیشن پر قادیانیت مردہ باد کے نعرے اور ان پر تشدد کا کیس ہو یا 1974 میں مجلس ختم نبوت کی 19 سیاسی دینی جماعتوں کے اتحاد میں جماعت اسلامی کے 3 رہنماؤں کی شمولیت ،ملک کے گوشے گوشے میں مسئلہ ختم نبوتﷺ کے لٹریچر ،اجتماعات عام جلسوں اور پروگراموں میں رائے عامہ کی ہمواری۔۔۔۔۔آپ کو جماعت اسلامی ہی اس کی بنیادوں میں نظر آئے گی

الیکشن 2013 کے بعد ایم ایم اے  میں شمولیت جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے منظور کی،اس وقت حلف نامے کی تبدیلی اور ایک دینی طبقے کا ملک میں شوریدگی مچا کر دینی طبقے کی عملی سیاسی جمہوری جدودجہد کو سبوتاژ کرنا بھی سبھی دیکھ رہے تھے۔جماعت اسلامی کی قیادت نے ہمیشہ سنجیدہ ،فکری اور   دور اندیشی  کو پیش نظر رکھ کر جدوجہد کی اور ملک کے دیگر مکاتب و سیاسی جماعتوں کو دینی اور قومی معاملات پر مشترکہ جدوجہد پر اکٹھا کیا۔ ملک کے سیکولر اور اسلام مخالف طبقے نے  اسلامی دینی جماعتوں کی  جمہوری سیاسی جدوجہد   کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔الیکشن 2017 کی  بے ضابطگیوں پر  عالمی اور قومہ تجزیہ نگار این جی اوز نے عدم اطمینان کا اظہار کیا  ہے۔

ملک کا وزیراعظم    عاطف میاں کی تقرری پر  احتجاج کرنے والوں کو چھوٹا سا طبقہ کہتا ہے جب کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں حرمت رسول ﷺ پر ملین مارچ تاحد نگاہ   شمع ختم رسالت ﷺ کے پروانوں کا سمندر نظر آتا ہے۔جو یہ ثابت کرتا ہے کہ عاشقان ختم نبوت ﷺ اپنی زندگیاں حرمت رسول ﷺ پر قربان کرنے میں ہر گز دریغ نہیں کریں گے ان شاء اللہ

نوٹ؛اس مضمون میں قیام پاکستان سے جماعت اسلامی کی اسلامی دستور کے لئے جدوجہد،علماء و دینی مکاتب کو ایک پلیٹ فارم پر دستوری جمہوری جدوجہد پر اکھٹے کرنا اور اس کا حصہ بننا ،دین محمد ﷺ  پر حملوں کو ایک ہوکر جواب دینے کے تاریخی حوالوں کی مختصر داستان شامل ہے۔جس کے لئے درج ذیل کتب سے مدد لی گئی

۔مسئلہ قادیانی از مولانا  سید ابوالاعلیٰ مودودی

۔ پارلیمنٹ میں قادیانیت کو شکست کی مکمل روداد     از مولانا اللہ وسایا

  • ختم نبوت سے متعلقہ حلف نامہ ممبر پارلیمنٹ میں تبدیلی کی روداد (بلاگ jamaat.org )
  • الیکشن اصلاحات کمیٹی 2014 تا 2017  ڈرافٹ اور الیکشن کمیشن کی سائیٹ پر موجود حلف نامہ
  • شازیہ عبدالقادر لاہور
حصہ

جواب چھوڑ دیں