عوام اور ٹیکس

کئی روز سے ذہن میں مسلسل ایسے خیالات آرہے تھے کہ جس کی وجہ طبعیت میں اضطراب و بے چینی کے ساتھ ساتھ راتوں میں اآنکھوں سے نیند بھی کچھ روٹھ سی گئی تھی،اس بے خوابی میںہر بار اٹھ کر قلم اٹھاتا اور لکھنےکا ارادہ باندھتا پھر ارادہ ترک کردیتا،متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ قلم اٹھایا کچھ سطریں سپردِ قرطاس کیں پھر جی میں کیا آیا کہ ورق پھاڑ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کردی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہا سے شروع کروں اور کہاں پر ختم!۔معاً جھپاکاساہوا،ایک خبر نظروں کی سامنے آئی اور میری تمام تر الجھن ختم ہوگئی۔پاکستان میں امیر ترین لوگوں کی فہرست مرتب کرنا بہت آسان کام ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ٹیکس بھی دیتے ہیں،ظلم بھی سہتے ہیں ،دن رات محنت بھی کرتے ہیں ،دو وقت کی روٹی کمانے کے چکر میں ایک وقت کی روٹی بھی کھانا بھول جاتے ہیں ۔یہ امیر ترین لوگ پاکستان کے ہر گلی محلے میں بستے ہیں،منتخب ہونے کے بعد یہ لوگ صرف حکمرانوں کو ہی نظر نہیں آتے۔
آئیے آج آپ لوگوں کو ان سے ملواتے ہیں ۔شاید ووٹ مانگنے والے حکمرانوں کو بھی کچھ نظرآجائے۔

نمبر 10۔

بلدیہ اورسائٹ ٹائون کی حدود میں ایک آٹھ سالہ بچی گھرمیں غربت کی وجہ سے واٹر ٹینکر چلانے پر مجبور ہوگئی۔ والد کوفالج کا اٹیک ہوا تو گھرمیں کمانے والا کوئی نہیں بچا۔ اس آٹھ سالہ ننھی پری خوشی نے گھر کی ذمے داری اپنے کمزور سے کاندھوں پراٹھانے کا فیصلہ کیا اور ایک بڑی گاڑی کا اسٹیرنگ سنبھال کر اپنے گھر کو سنبھالا دینے لگی۔ ننھی پری شیر شاہ سے رشیدآباد تک واٹر ٹینکر چلاکر 500روپے روزانہ کی بنیاد پر کما رہی تھی جو ماہانہ 15000روپے بنتے ہیں ۔ جس میں سے گھر کا کرایہ ،والد کاعلاج ،راشن ،بجلی اور گیس کا بل بھی اسی میں سے ادا ہوتا ہے۔ باقی بچتا کیا ہوگا یہ حساب آپ خود لگالیں۔ امیر وں کی فہرست میں یہ ننھی پری دسویں نمبر پر موجود ہے۔ خوشی کے حوالے سے کئی کہانیاں سامنے آئیں ہیں مگر آخری ویڈیو میں اس نے جو کہا وہ حکمرانوں کے لیے کافی ہے۔
نمبر(9)

پانچ سالہ ننھا فرہاد خان اسکول ٹائمنگ پر اٹھتا ضرور ہے مگر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ ننھا فرہاد اسکول جانے کے بجائے اسکول کے باہر ٹافیاں ،پاپڑ اورایک روپے والا بسکٹ ایک تھالے میں سجائے اسکول کے گیٹ کے باہر آکر بیٹھ جاتا ہے اور ہر بچے کو اسکول میں جاتے وقت اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بے پناہ حسرتیں لیے بس دیکھتا رہتا ہے۔ جب کوئی بچہ ضد کرکے ننھے فرہاد سے چیز لینے کی ضد کرتا تو اس کی آنکھوں میں چمک آجاتی کہ چلو کوئی تو خریدار آیا، اور اگر اس بچے کے ساتھ جو اسے اسکول چھوڑنے آیا ہے وہ اسے چیز نہ لے کر دے تو اس معصوم کا دل بجھ سا جاتا ہے۔ ننھے فرہاد کے گھرکمانے والا اس کا بڑا بھائی جو محض 15سال کا ہے اورایک موٹر مکینک کے پاس کام کرتا ہے۔ ماں گھرمیں سلائی کرکے گھرکی گاڑی چلانے میں ہاتھ بٹاتی رہتی ہے ۔اس گھر کے اخراجات اورآمدن کا حساب آپ لگانا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔محکمہ انکم ٹیکس اس گھر پر نظر رکھے ،یہاں سے بہت کچھ قومی خزانے کا پیٹ بھرنے کے لیے مل سکتا ہے۔ یہ فیملی امیر ترین فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔
نمبر(8)

ایک بیوہ ماں کے بچے اسکول میں پڑھ رہے ہیں ،والد کے گزرنے جانے کے بعد ماں نے محنت مزدوری کرکے ان بچوں کی تعلیم کاسلسلہ جاری رکھا ہواہے۔ گھر کرایہ کا ہے جس میں گیس بجلی کے بل ملاکرماہانہ 12ہزار روپے اس مد میں نکل جاتے ہیں ،بچے سرکاری اسکول میں پڑھ رہے ہیں لیکن اس کی سالانہ فیس پرائیوٹ اسکول کے برابر ہے۔ بچوں کے روزانہ آنے جانے کا کرائے کا حساب الگ ہے ،اس بیوہ عورت کو مدد کے نام پر صرف جھوٹ اوردلاسے ملتے ہیں۔ پورا دن فیلڈ میں سخت محنت کے بعد گھرآکر جب تھکان سے لیٹتی ہے تو چند منٹوں بعد دوبارہ سلائی کڑھائی والے بچوں کو ٹیوشن دینے بیٹھ جاتی ہے یہ سوچ کر کہ جب بچے اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں گے تو تب آرام کرلے گی۔ لیکن یہ وقت ابھی فی الحال بہت دور ہے،تب تک اسے دن رات محنت کرنا ہوگی ۔ اورایک بات یہ بھی ہے اس بیوہ کو حکومت وقت کی جانب سے نہ تو کوئی اسکیم ملی ہے اور نہ ہی اس کے پاس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کارڈ ہے۔ جس جس پارٹی نے کارڈ اورمدد کرنے کا وعدہ کیا بدلے میں بہت بڑی قیمت بھی مانگی جو اس عورت کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس خاتون کے گھر کا حساب کتاب بہت سادہ سا ہے۔ جس میں فقط قرضہ ہی قرضہ ہے۔یہ گھرانہ ایف بی آر والوں کیلیے انتہائی مفید ہے، اس بے سہارا خاتون کا نمبر فہرست میں 8واں ہے۔
نمبر(7)

پینسٹھ سالہ گلاب خان جس کی عمر آرام کرنے کی ہے مگر وہ ریگل چوک پر کمپیوٹر مارکیٹ میں جگ میں شربت ڈالے گھومتا رہتا ہے ،کبھی کسی دکان پر موجود کسٹمرز سے پوچھتا ہے کہ بھائی صاحب ٹھنڈا شربت پینا ہے صرف دس روپے کا گلاس ہے،کبھی راہ چلتے راہگیروں سے کہتا ہے شربت پی لو ،صرف دس روپے کا گلاس ہے۔ یہ امیر ترین بزرگ روزانہ بمشکل دو سے ڈھائی سو روپے کمارہا ہے جس میں سے یہ اپنے بیوی بچوں کاپیٹ پال رہاہے، گھرمیں کمانے والا کوئی بیٹا نہیں جو سہارا بن سکتا۔ اللہ پاک نے صرف بیٹیوں سے نوازا ہے اب بیٹیاں کتنی ہیں یہ گلاب خان نہیں بتایا،کہتا ہے پٹھان آدمی ہوں کیوں بتائوں کہ کتنی بیٹیاں اور کتنی شادی شدہ اور کتنی کنواری ہیں۔ اللہ پاک نے مجھے سلامت رکھا ہے محنت کررہاہوں ،تنگی اور پریشانیاں ضرور ہیں مگر شکر ہے میرے رب کا کسی کا محتاج نہیں،اللہ کے کچھ نیک بندے ہیں جو مدد کردیتے ہیں مگر اتنی نہیں کہ سب کچھ پورا ہوجائے۔ گلاب خان کی ایک ہاتھ کی انگلیاں کٹی ہوئیں ہیں جس کی وجہ سے وہ بھاری کام نہیں کرسکتا۔ شاید یہی وہ مجبوری ہے جس کی وجہ سے گلاب خان شربت بیچ کر اپنا کنبہ چلارہا ہے۔ اس کی کمائی اور منافع کا حساب کتاب لگا کر ایف بی آر فوری ٹیکس لیٹر اس کے گھرپر بھیج دے۔ گلاب خان کا نمبر فہرست میں ساتواں ہے۔
نمبر(6)

کراچی کا رکشہ ڈرائیورجس کا نام تو معلوم نہیں ہوسکا مگر اس کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر سب کو رونے پر مجبور کردیا۔ اس رکشہ ڈرائیور نے سڑک کے کنارے اپنے رکشے کو آگ لگادی۔ قریبی کھڑا ایک شخص جو اس وقت ویڈیو بنانے میں مصروف تھا اس نے رکشہ ڈرائیور سے جب سوال کیا کہ آپ نے رکشہ کیوں نذرآتش کردیا۔ جس پر رکشہ ڈرائیور نے جواب دیا آج بھی سی این جی بند ہے ،کچھ کمائی نہیں ہوئی اور پھر زارو قطار روتے ہوئے بس اتنا کہا کہ گھر کیا لے کر جائوں ،بچے کھانا مانگتے ہیں ،مالک مکان کرایہ مانگتا ہے ،کریانہ والا ادھار راشن نہیں دے رہا،گیس ،بجلی کے بل واجب الادا ہیں ،یہ سب کہاں سے پورے کروں۔ اس کے دکھ کا تصور تو وہ شخص کرسکتا ہے جو خود صاحب اولاد ہو۔ لیکن اس کے دکھ کا مدوا کرنا حکومت وقت کی بس کی بات نہیں۔ ایف بی آر والوں کو فوری طورپر اس کے گھرریڈ مارنی چاہیے تاکہ بچا کچا ٹیکس کی مد میں لے کر قومی خسارے کو پوراکیا جاسکے ۔ اس امیر ترین رکشہ ڈرائیور کا فہرست میں نمبر چھٹا ہے۔
نمبر( 5)

اللہ بخش ،جسے بابا بخشو کہتے ہیں۔سڑک کنارے کسی وقت فروٹ کی ریڑھی لگا کر اپنے گھر کا چولہا جلایاکرتا تھا۔پھر کچھ یوں ہوا کہ معزز عدالت کو تبدیلی کا خیال آیا اور اس نے پورے شہر کو اکھاڑپچھاڑ کرنے کی ہدایت کردی۔ شاہی افسران نے بھی حکم بجالاتے ہوئے رسمی کارروائیاں کرکے اعلیٰ عدلیہ کوخوش کردیا۔ لیکن ٹھہریے ۔ ابھی کہانی باقی ہے۔ پھر اچانک کے ایم سی کے افسران کو ریڑھیاں نظرآنا شروع ہوگئیں ،ٹھیلے والے آنکھوں پر کھٹکنے لگے اورپولیس کو بھتہ کم ہونے کاافسوس ستانے لگا تو پھر انہوں نے ایک ہی پلیٹ میں کھانے کا سوچا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فی ٹھیلا ماہانہ 5ہزار روپے جو دے گا وہ ہی اپنا ٹھیلا لگائے گا باقی کسی کو اجازت نہیں۔ اب بابابخشو جو مہینے میں بمشکل دس ہزار روپے ہی کماپاتا تھا وہ کس طرح پانچ ہزار روپے رشوت کی مد میں دیتا؟۔ ٹھیلا ضبط ہوتے ہی بابابخشو کے گھرکا چولہا بھی ٹھنڈا ہوگیا۔آج بابابخشو سڑک کنارے کھڑا ہر آنے جانے والے کے آگے ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ شاید اس ملک کا سب سے امیر ترین شخص تھا جسے حکومت نے اچھی طرح کھنگالا تھا۔ آج بابا بخشو کے گھر کے حالات صرف اللہ بخش ہی جانتا ہے ۔ ایف بی آر کو لازمی اس کے گھر کی بھی تلاشی لینی چاہیے۔ شاید اب بھی کچھ بچ گیا ہو۔ بابا بخشوامیر ترین لوگوں کی فہرست پانچویں نمبرپرآتے ہیں۔
نمبر(4)

ہمارے محلے میں ایک فیملی رہا کرتی تھی جس کا گزر بسر صرف اور صرف پانچ روپے والے کیک کی فروخت پر تھا۔تھا اس لیے کہا کہ اب وہ فیملی یہاں سے کوچ کر گئی ہے، اس فیملی میں شوہر جس کا نام اصغر تھا وہ گھر سے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے کیک بنا کر گلی محلوں میں چھابڑی میں رکھ کرفروخت کرتا تھا ۔ پھر ایک دن تبدیلی سرکار نے اس کایہ روزگار بھی چھین لیا،اس کی روزانہ کی آمدن ڈھائی سو روپے ہوا کرتی تھی جب کہ رات میں وہ سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی بھی دیا کرتاتھاجہاں سے اسے ماہانہ 15ہزا روپے ملا کرتے تھے ۔تین بچوں کا باپ انتھک محنت کے باوجود بھی گھرکاخرچ پورا نہیں کرر پارہا تھا،مالک مکان نے ڈالر مہنگا ہونے کا رونا روکر اس پریہ بم گرایا کہ آج سے کرایہ میں 2ہزارروپے اضافہ کررہا ہوں،اگر رہنا ہے تو کرایہ 8ہزار روپے دینا ہوگا ورنہ تمہاری مرضی۔ ایک کمرے کے مکان کاکرایہ آٹھ ہزارروپے ،گیس اور بجلی کا بل ملاکر 10ہزار روپے ماہانہ نکالنا اصغرکے لیے نہایت مشکل ترین کام بن گیاتھا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور کام کرتا رہا ۔ پھر مہنگائی کے مارے اصغر کے گھر جہاں دو وقت کی روٹی بناکرتی تھی وہاں اب ایک وقت کی روٹی بھی مشکل ہوتی جارہی تھی۔قرض سر پرچڑھتا گیا اوربلآخر وہ یہاں سے کہیں دورچلاگیا۔ آخری ملاقات ہوئی تو اس نے نم آنکھوں سے اتنا کہاکہ میں چوری ڈاکا نہیں مارسکتا۔ بیوی بچوں کولے کر کہیں بھی چلا جائوں گا اب یہاں گزارہ بہت مشکل ہورہاہے ۔ بچے بھوک سے بلکتے نہیں دیکھ سکتا۔ پڑوسی کے بچے دس بیس روپے خرچ کرتے ہیں اور میں اپنے بچوں کویہ بھی نہیں دے سکتا۔ اس لیے یہاں سے جارہاہو۔ معلوم نہیں زندگی کہاں لے جائے ۔ لیکن اب میرے ہاتھ کچھ نہیں۔ایف بی آر کو فوری طورپر اس کا ٹھکانہ معلوم کرنا ہوگااس شخص کے پاس اب بھی حکومت کے خزانے میں جمع کرانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ فہرست میں اصغرکانمبرچوتھاہے۔
نمبر(3)

رحیم بلوچ۔ لیاری کا رہائشی تھا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔ حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی ریلیف برداشت نہ کرس کااور خوشی کے مارے خودکشی ہی کرلی۔ جاتے جاتے اپنے بیوی بچوں کو اس خوشی میں اکیلا چھوڑ گیاتاکہ وہ اس ریلیف سے خوب عیاشیاں کرسکیں۔کے الیکٹرک نے بل بھیجا10ہزا رروپے کا،کافی دفتروں کے چکر لگائے مگر کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ تین مہینے تک بل کے چکرمیں لگا رہا اور اس دوران کے الیکٹرک نے ادھر ادھرسے سارے ٹیکس جمع کرکے ایک ساتھ ہی تین ماہ کا بل بھیج دیا۔ جسے دیکھ کر رحیم کے ہوش اڑ گئے ۔ کام کاج پہلے ہی نہیں تھااوپر سے اتنا بل اس کے لیے خودکشی کاباعث ہی بننا تھا۔ گھرمیں فاقے ،مالک مکان کو دو مہینے سے کرایہ ادا نہیں کرپایا ۔ بچارے نے آسان حل نکالا کہ پھانسی لگا کر اس زندگی کا خاتمہ ہی کردوں۔ نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری۔ مگر اسے کیا معلوم کہ اس کے بعد اس گھرپرکتنے لوگوں کی بری نظر یں لگ جائیں گی اورکس طرح اس کے گھروالوں کا گزر بسر ہوگا۔ خود تو چلاگیا مگر پیچھے لمبی داستان چھوڑ گیا۔ حکومت کو پہلی فرصت میں اس کے گھر سے بچا کچا سامان اٹھا لینا چاہیے تاکہ اس گھرکے باقی ممبران بھی اگر خودکشی کرلیں تو کم از کم کوئی رشتے داراس پر قبضہ نہ کرلے۔ فہرست میں رحیم تیسرے نمبر پرہے۔
نمبر(2)

(س) کو اسکول کی طرف سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ اسکول نے آپ کے بچوں کی فیس جو گزشتہ تین سالوں سے نہیں بڑھائی اب پندرہ سو روپے اضافے کے ساتھ فی بچے کی فیس 3500روپے کردی ہے،تین بچوں کی ٹوٹل فیس 10ہزار پانچ سو روپے آپ نے جمع کرانی ہے۔ یہ لیٹرکسی ایٹم بم سے کم نہ تھا۔ بچاری نے برقعہ پہنا اور اسکول چلی گئی۔ ٹیچر سے ملاقات بے کار ثابت ہوئی ، پرنسپل نے یہ کہہ کر ملاقات کرنے سے انکار کردیا کہ ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے ،ایڈمنسٹریٹر سے معاملات طے کرلیں۔ تین دن بعد ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات ہوئی تو صرف اتنا ہوا کہ پانچ سو روپے کم کردیے گئے ،مطلب رائونڈ فگر میں 10ہزار روپے ماہانہ فیس جمع کرانا لازمی قراردے دیاگیا۔ مجبورا بچوں کو اسکول سے نکلوادیا۔ لیکن سرٹیفیکیٹ کے لیے تین سالوں سے جو رعایت مل رہی تھی وہ واپس لے لی گئی اور تمام فیس مکمل جمع کرانے کے بعد سرٹیفیکیٹ دینے کی شرط عائد کردی۔ مجبوراہوکر دوبارہ بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے بچوں کو اسکول سے نکلوا دیا تھا اس لیے نئے سرے سے تمام معاملات ہوں گے۔ جس کا مطلب تھا تمام رعایت ختم،ایڈوانس فیس اورجون جولائی کی فیس یکمشت اداکرنی ہوگی۔ گھرمیں کھانے کیلیے جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ بھلا کس طرح اتنی بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتیں۔ آج اس کے بچے گھرمیں بیٹھے ہیں ۔تمام ترجھنجٹ سے آزاد،نہ اسکول کی فیس کا ڈر،نہ روز روز کے طعنے سننے کو ملیں گے۔ گھرمیں جو دال چٹنی ہوگی اس پر ہی شکر ادا کرتے رہیں گے۔ شوہر تو پہلے ہی دنیائے فانی سے رخصت ہوچکے ہیں اب ان پڑھ (س )اکیلی کب تک اس دنیا کامقابلہ کرے۔جس نے بھی مدد کی اور جس نے بھی کوئی راستہ دکھایا صرف اپنے مطلب کیلیے دکھایا۔ امید رکھیں بہت جلد اس گھر سے بھی خودکشیاں ہوں گی اوروہ سب ایک ساتھ،کیوں کہ ماں کبھی اکیلے اپنے بچوں کو نہیں چھوڑتی۔ حکومت کو خوش ہونا چاہیے کہ آبادی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ بجٹ بنانے میں آسانی پیدا ہوگی۔ ایف بی آر ابھی سے نوٹ کرلے بعد میں کہیں سرکار کانقصان نہ ہوجائے۔ فہرست میں( س) کانمبر دوسرا ہے۔
نمبر(1)

یہ کہانی بھی ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی ہے مگر اس میں ایک بے بس باپ نے بڑی مشکل سے ایک دکان کرایہ پر حاصل کی اور اپنے روزگارکا آغازکیا۔ آمدن اتنی تھی کہ بمشکل ہی گھر کا گز بسر ہورہا تھا پھر اچانک ایک لیٹر موصول ہواکہ آپ کی دکان غیر قانونی ہے اورچوبیس گھنٹے میں اسے خالی کردیاجائے وربصورت نقصان کی ذمے داری خودآ پ پر عائد ہوگی۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد دکان کا سامان گھرمیں شفٹ کردیا اوراگلے دن دکان کو ڈھادیاگیا۔ مالک مکان سے جب اس سلسلے میں ایڈوانس کا تقاضا کیا کہ بھائی آپ کو ایک لاکھ روپے دکان کا ایڈوانس دیا تھا اور ابھی مجھے صرف تین مہینے ہی ہوئے تھے دکان لیے ہوئے تو مالک مکان نے یہ کہہ کر ایڈوانس دینے سے انکارکردیا کہ میرا بھی نقصان ہوا ہے،اب دکان نہیں رہی تو ایڈوانس کس بات کا۔ یہ نقصان اس بے بس باپ کے لیے بہت بڑا تھا جسے وہ برداشت نہ کرسکا اورسیدھا کارڈیو پہنچ گیا۔ جہاں بائی پاس کے بعد اب وہ اس کنڈیشن میں نہیں کہ کوئی بھاری کام کرسکے ۔ اسپتال والوں نے الگ تنگ کرنا شروع کردیا تھاکہ پیسے دو،ورنہ علاج بند کردیاجائے گا۔ گھرمیں رکھا سامان فروخت کرکے فیس ادا کی گئی اوراس طرح اس امیر ترین شخص کی جان چھوٹی۔ آج یہ باپ اپنے بچوں کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں رہ رہا ہے ،بیوی پولیو ورکر بن گئی،بیٹی نے ٹیوشن شروع کردیا ۔ باپ نے گھرکے باہر بچوں کی ٹافیا ں فروخت کرنا شروع کردی ہیں۔ شاید گھرکے حالات بدل جائیں ۔ مگر بائی پاس کے بعد جینے کے لیے درکار ادویات کی بڑھتی قیمتیں اس کے لیے ایک اور بائی پاس کا بندوبست کررہی ہیں شاید یہ آخری بائی پاس ہواس کا۔ تین بیٹیاں ہیں جنہیں بیاہنہ ابھی باقی ہے ،بیٹا بہت چھوٹا ہے اس لیے سہارا نہیں بن سکتا،اورحکومت اتنی اچھی نہیں کہ اس کے گھر کا خرچ اٹھاسکے۔ جس طرح تیزی سے مہنگائی ہورہی ہے اس سے تو لگتا ہے ماں بھی تھک ہارکربہت جلد کارڈیو پہنچے گی ۔بیٹیاں اس وقت ہمت کی مثال بنی ہوئی ہیں مگر ٹیکسزکے آگے کب تک ان کی ہمت چلتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ حکومت کو یہاں بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے بہت کچھ مل سکتا ہے خزانے میں جمع کرنے کے لیے ۔ ایف بی آر نوٹ فرمالے۔ یہ بے بس گھرانہ امیر ترین لوگوں کی فہرست میں پہلے نمبر ہے۔
آئے روز کے نت نئے ٹیکسز یہ کہہ کر لگائے جارہے ہیں کہ ان سے عوام پر بوجھ نہیں آئے گا، مگر درحقیقت کہانی یہ ہے کہ جس چیز پر ٹیکس لگایا جاتا ہے اس کاسیدھا اثر غریب عوام پرپڑتا ہے، کارخانہ ہو یا فیکٹری دکان ہو یا ہوائی روزی ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے ، بہت چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر اگر فلور ملزپر ٹیکس لگتا ہے تو آٹے کی قیمت بڑھے گی ،کاسٹ بڑھنے سے روٹی کی قیمتیں بھی معمول سے ہٹ جائیں گی،ڈبل روٹی ،سلائس ،کیک سمیت ہر اس چیز کی قیمتیں بڑھیں گی جس کا سیدھا تعلق آٹے سے ہوگا۔ یہ بات حکمرانوں کو کبھی سمجھ نہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں کہ فلور ملز پر ٹیکس لگایا ہے عوام پر نہیں ،مگر وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ ٹیکس کی رقم عوام سے نکال لیتے ہیں ۔ اگر ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر کام کرر ہا ہو تو پھر ٹیکس لگانے کا اثر عوام پر نہیں پڑے گا ،تاہم یہاں ایسا کچھ نہیں۔ جس چیز پر ٹیکس لگا ان سب نے قیمتیں دگنی کردیں۔ جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کی آڑ میں اشرافیہ نے دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے شروع کردیے ہیں۔ دس روپے کا ٹیکس بھی عوام سے وصول کرکے اپنے منافع کو آنچ تک نہیں آنے دیتے۔ ملک میں بڑھتی مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت وقت کی اولین ذمے داری ہے ۔ اگر ایسا نہ کیاگیا تو وہ وقت دور نہیں جب بھوک کے ستائے لوگ سڑکوں پرنکل کر آئیں گے جو خونی انقلاب کا راستہ اختیار کرلے گا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں