ڈیڈی، ڈئیر اور سسٹم 

دوسری قسط

‘ڈیڈی’ کے ڈنڈے کا fear ڈئیر کو کبھی cheer نہ کرنے دیتا۔ جب کبھی ڈئیر کے دل سے ڈیڈی کے ڈنڈے کا fear ختم ہوجاتا اور وہ Cheer کرنے بھی لگتا تو جلد ہی اپنی chair کو share کرنے پر مجبور کردیا جاتا۔

ڈیڈی اپنا ڈنڈا لہراتے ، ڈئیر کی کرسی گھماتے اور اپنے ڈئیر کو اتار کر ڈئیر کے ڈئیر کو اس پر بٹھاکر اپنا ڈئیر بنا لیتے۔

‘ڈئیر’ کا کہنا تھا کہ ‘سسٹم’ ڈیڈی پر depend کرتا ہے اور ‘سسٹم’ کاماننا تھا کہ سارے ‘ڈئیرز’ ڈیڈی پر dependent ہیں۔جبکہ صحیح بات تویہ تھی کہ ڈیڈی دونوں کو صرف defend کرتے پھر depend وہ اپنے آپ ہی کرنے لگتے۔

ڈیڈی اور ڈئیر سسٹم کی اس چکی کے دو پاٹ کی طرح تھے۔ جس میں پستے صرف کمزور،  بے بس اور غریب عوام تھے۔ جن کو ہر بار ایک خوبصورت خواب دکھایا جاتا جس میں ‘کچھ  نیا’ ہوتا لیکن ابھی چند سال گزرتے پرانا ہوکر وہ خواب ایک بدنما داغ نکلتا۔ پھر اس خواب کا عذاب بھی بےچارے عوام ہی کو سہنا پڑتا۔

لیکن آخر کب تک؟

ایک وقت ضرور آئے گا جب خواب دیکھتے،  عذاب سہتے یہ عوام خواب کے سراب سے نکل کر اپنا ڈئیر خود چن پائنگے جو امانت اور دیانت سے گھر کو چلا کر پائیدار ترقی لائنگےاور ڈیڈی کے ڈنڈے کو سسٹم کے دھندے سے نکال کر کر گھر کے دشمنوں پر برسائنگے اور ڈیڈی ، ڈئیر اور عوام مل سسٹم کو مضبوط بنائنگے۔  ان شاءاللہ

حصہ

جواب چھوڑ دیں