شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

تحریر کی دو قسموں، نظم ونثر میں سے نظم کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ چنانچہ مشہور شاعر احمد فراز جب صنف شاعری پر لبوں کو جنبش دیتے ہیں تو بول اٹھتے ہیں ؎
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو معجزے ہم بھی اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
علاوہ ازیں، مختصر مگر جامع حدیث مبارک’’ ان من الشعر لحکمۃ‘‘( بعض اشعار حکمت سے بھر پور ہوتے ہیں) ایسا مقدس فیصلہ ہے جس کی تائید گردش زمانہ کرتا رہا ہے۔شاعری پیار و محبت پر مشتمل ہو یا تاریخی روایات پر، گھوڑوں کے انساب کی عکاسی کرے یا حقائق زمانہ پر روشنی ڈالے،مجازی خداؤں کا پرتو ہو یا حقیقی شخصیات کی داستان،بہر حال اس کی اہمیت مسلم ہے۔ شاعری وہ صنف کلام ہے جو سامع کو مسحور کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص نے نہ کبھی شعر سنا ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی کوئی شعر پڑھا ہوتا ہے، اس کے باوجود اگر اس کے سامنے منظوم کلام پڑھا جائے تو وہ بے ساختہ جھوم اٹھتا ہے۔ یہی شاعری کا وہ حسن ہے جس نے اسے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہر زبان کی شاعری ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ صنف کلام کی اس قسم سے لاتعلق ہونا غیر فطرتی روایات کا ثبوت دینے کے مترادف ہے، کیوں کہ ہماری عدم توجہی کے باعث اس کی اہمیت، افادیت اور حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ شاعری اردو میں ہو یا فارسی میں، عربی میں ہو یا کسی اور قدیم زبان میں، مگر اس کی تاثیر مکمل ہے۔ یہ ایک ایسا اثر ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ جس شاعری نے شہرت پائی وہ قدیم عربی شاعری ہے۔ یہ ہر معاشرے میں مقبول ہوئی۔ کئی زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے۔ آج تک بھی باذوق لوگ سوانح، حقائق اور پیار و محبت کے کلام سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے قدیم عربی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں اور عربی سے دیگر زبانوں میں تراجم بھی کراتے ہیں۔
شاعری وہ پر اثر کلام ہے جس نے ایک طرف تو پتھر دلوں کو موم کیا تو دوسری طرف بادشاہوں کو گداگری کی حقیقت کا قائل بھی کیا۔ یہ وہ کلام ہے جس نے کئی ٹوٹے دلوں کو جوڑا اور کئی روٹھے بندنوں کو دوبارہ شیر و شکر کیا۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے شاعری مختلف مزاجوں کے اعتبار سے مختلف انداز اختیار کرلیتی ہے۔ کوئی شاعر مزاحیہ شاعری کرتا ہے تو کوئی شاعری کو تاریخی پس منظر میں لے جاتا ہے۔ کسی کے پاس عشق مجازی اور محبت پر کلام ملے گا تو کوئی عشق حقیقی پر سخن وری کرے گا۔ جن شعراء نے اپنی شاعری کی بنیاد فحش کلام پر رکھی انھیں کوئی خاص پزیرائی نہ مل سکی جبکہ اس کے مقابلے میں طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں شاعری کرنے والوں کو بہت مقبولیت ملی۔ طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں جہاں دیگر کئی شعراء کو شہرت ملی وہیں مشہور زمانہ شاعر سید محمد جعفری نے بھی خوب نام کمایا۔ بالخصوص، ’’آرٹ گیلری ‘‘کے نام سے اُن کی نظم لائق صد تعریف ہے۔ موجودہ دور میں جدید آرٹ گیلری کے نام پر اِس فن کے ساتھ جیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے، اس پر جعفری نے اپنے ہی انداز میں وضاحت فرمائی ہے۔ یہ اشعار انھوں نے اس وقت کہے جب انھیں اس حوالے سے کسی نمائش میں جانا پڑا۔ وہ کہتے ہیں ؎
ایبسٹرکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے
کی تھی ازراہ مروت بھی ستائش میں نے
آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں
لوگ پوچھتے ہیں کیا دیکھا، تو گھبرا جاتا ہوں
مذہبی حوالے سے شاعری کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے اس لیے یہ حسن لغیرہ کے زمرے میں ہی آئے گی، لہذا یہ خود تو بہت معتبر نہیں مگر جہاں اشاعت اسلام کا سبب بنے اور اصلاح انسانیت مطلوب ہو تو وہاں کسی حد تک گنجائش ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی ؎
الا کل شئی ما خلا اللہ باطل
وکل نعیم ۔۔۔۔۔لامحالۃ زائل
کہنے والے شاعر کو’’ مؤحد الجاہلیہ‘‘ کہا تھا۔ معلوم ہوا ضرورت کے وقت اچھے مقاصد کی خاطر گنجائش موجود ہے۔ منظوم کلام کی تاثیر کا اندازہ حضرت مجذوب ؒ کے اُس شعر سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے حضرت تھانوی ؒ کو ان کی ناراضگی کے بعد لکھ کر بھیجا تھا۔ مختصر یہ کہ ایک بار حضرت تھانوی، حضرت مجذوب ؒ سے کسی بات پر ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ مجذوب کو خانقاہ سے باہر نکال دو۔ چنانچہ حضرت مجذوب ؒ کو خانقاہ سے باہر نکال دیا گیا اور وہ خانقاہ کے باہر دروازے کے ساتھ متصل بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر بعد یہ شعر کسی پرچی پر لکھ کر حضرت تھانوی ؒ کی خدمت میں بھیج دیا ؎
تو اپنا در نہ کھولے گا، میں تیرا در نہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے، کہیں تیری کہیں میری
حضرت تھانویؒ کا یہ اشعار پڑھنا تھا کہ فرمایا حضرت مجذوب کو اندر لے آؤ۔ گویا کہ ایک شعر نے بات کہاں سے کہاں پہنچا دی۔ یہ شعر کی وہ تاثیر ہے جو نثر کلام میں نہیں پائی جاتی۔ پھر شاعری پر مختلف زبانوں میں مختلف کتابیں بھی لکھی گئیں۔ عربی ادب و شاعری میں ’’ سبعہ معلقہ‘‘ نے خوب مقام پایا۔ یہ عربی شاعر ی کا بہترین مجموعہ ہے۔ قدیم عرب میں شعر و شاعری کا ذوق کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔’’ امرؤ القیس ‘‘ کو ہی دیکھ لیں، شاعری اس کے انگ انگ میں بسی تھی۔ وہ جب چاہتا اپنے زور کلام سے مٹی کو سونا ثابت کردیتا اور اس کا یہی اثر اس کی اولاد پر بھی خوب ہوا۔ چنانچہ اس کی موت کا واقعہ عربی ادب کے دبستان میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے اور شعراء و ادباء آج تک اس واقعے کی لذت محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ، امرؤ القیس کے دشمن جب اسے پکڑ کر جنگل کی طرف لے گئے اور قتل کرنا چاہا تواس نے کہا کہ میں تمھیں ایک مصرع لکھ کر دیتا ہوں وہ میرے مرنے کے بعد میری بیٹیوں کو دے دینا۔ قاتلوں نے ایسا ہی کیا اور قتل کرنے کے بعد اس کے گھر کی طرف گئے اور ان کی بیٹیوں کو امرؤ القیس کا لکھا ہوا مصرع دے دیا اور یہ بھی بتایا کہ آپ کے باپ کو کسی نے قتل کردیا ہے۔ امرؤ القیس کی بیٹیوں نے اُس مصرعے اور اس کے دوسرے مصرعے سے متعلق سوچ و بچار کی اور پھر کچھ دیر بعد کہا کہ ہمارے والد کے قاتل آپ لوگ ہی ہیں۔ اول اول تو قاتلوں نے انکار کیا مگر جب کوئی راہ فرار نہ پائی تو اقرار کرنے لگے اور ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی جھڑ دیا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ ہم نے آپ کے والد کو قتل کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ والد صاحب نے جو مصرع لکھ کر دیا تھا وہ یہ تھا ؎
یا ابن امرؤ القیس ان ابا کما
اے ابن القیس کی بیٹیوں تمھارا باپ
ہم نے بہت سوچو بچار کی کہ اس کا دوسرا مصرع کیا ہوگا تو آخر کار ہم اسی نتیجے پر پہنچے کہ
قد قتلا و قاتلاہ لداکما
وہ قتل کردیئے گئے اور قاتل تمھارے سامنے ہیں
سبحان اللہ! واقعی عرب کا ذوقِ شاعری انھیں تمام دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔ عرب شاعری منظوم کلام کی دنیا میں ایک شاندار باب ہے۔ ایک مصرعے نے بات کہاں سے کہاں پہنچادی۔ بہر حال فارسی کے علامہ جلال الدین رومی اور حافظ عطار ہوں یا اردو زبان کے میر تقی میر، اقبال، غالب یا داغ دہلوی ہوں، انگریزی کے William words worth ہوں یا Sheakspear، ہر ایک نے سخن وری میں خوب نام کمایا۔ ان تمام شعراء نے اپنے زمانے کی اقدار کی عکاسی کی۔ فارسی، عربی اور اردو بولنے والے سب کے سب ان شعراء کی محنتوں کی قدر کرتے ہیں۔ شاعری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امام شافعی ؒ اگرچہ شاعری کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے، جو کسی حد تک ایک حقیقت بھی ہے، آپ اس حوالے سے فرمایا کرتے تھے ؎
لولا الشعر بالعلماء یزری
لکنت الیوم، اشعر من لبید
شاعری علماء کے لیے نقصان دہ نہ ہوتی
تو میں لبید(عرب شاعر) سے بڑا شاعر ہوتا
اس کے باوجود آپؒ نے شاعری کی اور دیوانِ شافعی کے نام سے آپ کا دیون اہل ذوق کے لیے قابل مطالعہ ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ اکثر شعراء وقت کا ضیاع کرتے ہیں مگر اس فن کو سیکھ کر معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں شاعری کی حقیقت و اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور اس کے علاوہ مروجہ شعر و شاعری سے بھی جان چھڑانا ہوگی، جس کا موضوع فقط پیار و محبت تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ایک فطرتی صلاحیت ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک بہ تکلف شاعر بھی خود کفیل ہوجاتا ہے۔ آج ہمیں ایسے شعراء کی ضرورت ہے جو امت کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائیں۔ جو انسانوں کو حقیقی انسانیت سے روشناس کرائیں۔ ہمیں علامہ محمد اقبال جیسے شعراء کی ضرورت ہے جو ایک طرف تو شاہین بچوں کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرائیں تو دوسرے طرف
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سنا ںاول، طاؤس و رباب آخر
کہہ کر قوم کے عروج و زوال کی حقیقت دو مصرعوں میں بیان کر ڈالیں، تب ہی کہیں جاکر ہم صنف کلام کی اس قسم سے مستفید ہوسکیں گے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں