صد شکر اُس باری تعا لیٰ کا کہ اُس نے مجھ نا چیز پر عنایت اور کرم نوازی کا خزانہ کھول دیا اور حج ۱۴۳۹ھ کے موقع پر اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائی۔ کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کے کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونےوالا ہے۔ نظر جھکاےْ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے چلی جا رہی تھی۔ کوئی تہجد کا وقت تھا۔ خوف اور لوگوں کی باتیں جسے سوچ کر میرا دل اور جسم کانپ رہا تھا کہ اللہ کے گھر کا جلال اور میں گناہگار۔ خیر میں اپنی دعائوں میں گُم تھی کہ بیٹے نے کہا امی اب آپ سامنے دیکھیں۔ میں نے فوراً ہی سامنے نگاہ کی اور مجھے وہ احساس ہوا جو شاید میں نے آج تک کسی کے منہ سے نہ سنا۔ زبان میری اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کر رہی تھی۔ دل کا وہ حال تھا کہ سنبھالے نہ سنبھل رہا تھا۔ ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والے کا گھر، بیت اللہ میرے بالکل سامنے تھا۔ میرا دل چاہا کے میرے پر لگ جائیں اور میں یہ رش عبور کر کے کسی طرح جا کر بیت اللہ سے لپٹ جائوں۔مجھے نور، روشنی اور محبت والا جو منظر وہاں نظر آیا بس یہی دعا تھی کہ مالک یہاں بلایا ہے تو بس مجھ سے راضی ہو جا اور میری بخشش فرمادے۔
میں تو بہت خوش تھی ، نا مجھے کسی قسم کا خوف تھا نا ہی کسی قسم کی غلطی کا احساس۔ میں شوق سے مطاف میں اتُر گئی۔ نمازِ تہجد کے بعد نفل ادا کیے اور پھر طواف شروع کر دیا۔ کبھی آسمان کی طرف دیکھتی تو کبھی کعبے کے فرش کو دیکھتی اور کبھی سوچتی کہ فرشتے بھی توعرش پر طواف کر رہے ہونگے۔
امی کو ہم سے جُدا ہوے بتیس سال بیت گئے ہیں اور ان بتیس سالوں میں میں نے اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کیا۔ مگر یہاں پہنچ کر تو یہ تصور بھی غائب ہو گیا۔ یہاں تو ہر طرف سے مجھے تسلی مل رہی تھی۔ جتنا میری زبان پر ذکرِالٰہی بڑھ رہا تھا اتنا ہی میں اپنے آپ کو مضبوط محسوس کر رہی تھی۔
” اے میرے مالک، تیرے بندے اپنی دنیا سنوارنے،اپنی مال ودولت بڑھانے اوربڑے سے بڑے گھر کے حصول اور اُسے سجانے سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اُنکے مالک و خالق کا گھر کتنا سادہ ہو کر بھی کتنا پُر رونق ہے۔یہاں پرسمجھنے والے کیلئےسادگی کا بہت بڑا سبق ہے۔ اُس مالک کے سامنےجوابدہی ہے۔ اُس نے اپنے بندوں کیلئےضابطہ حیات بنایا ہے جس پر ہمیں عمل کرنا ہےاور اُس پر عمل کے سوا کوئی دوسرا نجات کا راستہ نہیں۔”
کعبے پر پڑی جب پہلی نظر
کیاچیزہےدنیا بھول گیا