(یہ تحریر میرا خیال ہے، میری رائے ہے جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن براہِ مہربانی مجھے اپنے الفاظ واپس لینے کو نہ کہا جائے، کیونکہ “چھوٹے طبقے” کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ہر لفظ ایک تلخ حقیقت ہے)
پاکستان کے پہلے میچ سے لے کر آخری میچ تک یہ سوال مجھ سے بہت بار پوچھا گیا، اور پوچھنا بنتا بھی تھا۔ آخر وطن سے محبت کا جذبہ ایسے موقع پر عروج پر ہوتا ہے۔ مگر، میں جیتنے کے حق میں نہیں تھی!
کئی میچ دیکھے اور ہر دفعہ آخری بال تک دعائیں کرتی رہی کہ میرا ملک ہار جائے۔
میرا ملک، میرا وطن جس کی محبت سے میری رگوں میں خون دوڑتا ہے۔ مگر اس سب سے بہت پہلے، میں مسلمان ہوں۔
میں کیوں اپنے وطن کے ایک کھیل میں کامیابی کی خواہشمند رہوں جب کہ اس سرزمین پر ہر وہ کام علی الاعلان کیا جا رہا ہے جو میرے رب کے قانون کے خلاف ہے؟
میں کیوں ایک کپ کے شوق میں یہ بھول جاؤں کہ اس وقت میڈیا انڈسٹری سے لے کر حکومتی عمارتوں تک، کہیں دھوکہ، فریب اور جھوٹ بِک رہا ہے اور کہیں قرآن کی آیتوں کو ڈراموں کے گانوں میں استعمال کیا جا رہا ہے؟
میں کیسے مان جاؤں کہ اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہے جب کے ہر لمحہ کسی نفس کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں میرے دماغ میں گونجتی ہیں؟
اگر میں کہوں کہ ایک باغ کو اکھاڑ دیا گیا ہے اور مالی اس کوشش میں ہے کہ احاطے سے باہر بنے فوارے کے چند چھینٹے مالی پر پڑ جائیں، اور اسی پر وہ خوش ہوجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ گلشن اجڑ گیا ہے، لا الٰہ کا دیس شدید طوفان کی زد میں ہے، پھر کیسے دعائیں کروں کہ چند داموں کا کپ جیت جائے؟
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
یہ وہ آیت ہے جس کی تلاوت پر ہزاروں کا مجمع خاموش تھا مگر حضرت ابو بکر ؓ رو پڑے تھے کیونکہ وہ اس کا مطلب جان گئے تھے۔ اور کہاں ہم گناہگار جو اس آیت کو اپنے حکمرانوں کی جیت سے وابستہ کرنے لگ گئے؟
نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ
کیا آیت کے اس ایک حصے کو لے کر ہر تصویر پر چسپاں کرنے والے جانتے ہیں اس سے آگے پیچھے اللہ کیا فرما رہا ہے؟ ہرگز نہیں!
افسوس کا مقام ہے کہ قرآن کو حدیث کو لے کر بحث کرنی پڑتی ہے مگر دلیل پھر بھی ہار جاتی ہے کیونکہ دین کا ہر ستون ہی مشتبہ بنا دیا گیا ہے۔
وہ سرزمین جس پر سیلاب ٹوٹ پڑے، فصلیں تباہ ہو گئیں کہ رب راضی نہیں ہے اعمال سے، کیا میرے ملک کے اسلامی نظریہ سے زیادہ اہم تھا کہ میں ایک کپ کے یے دعائیں کرتی؟ یا اپنی ٹیم کا ساتھ دیتی؟
جہاں ہر یونی ورسٹی میں کنسرٹس ہوتے ہیں، جہاں ہر چند دنوں بعد فیشن کے نام پر مغربی عورت کا حلیہ سرعام مقبول ہوتا ہے، جہاں غریبوں کے پھل پیروں تلے روند دیے جاتے ہیں، جہاں سروں سے چھتیں چھین لی جاتی ہیں، نازک کلیوں کو نوچ لیا جاتا ہے، تعلیم کے نام پر کرگس کی تربیت دی جاتی ہے، کیا یہ میرے ملک کا حال نہیں؟
مجھے بتائیں میں الفاظ کہاں سے جوڑوں، بات کس طرح کروں؟
مجھے ایک کھیل کی ہار قبول ہے، دل و جان سے قبول ہے ۔۔۔
مگر اپنی پاک سرزمین کے نظریہ کا سودا کسی قیمت پر قبول نہیں!
یہ سب تو کھیل تھا مگر “اسلای جمہوریہ پاکستان” کھیل نہیں ہے!
ایک بار، بس ایک بار یہ وقت اور عہدے، یہ طاقت اور اختیارات ہاتھ سے نکل گئے، تو اس گلشن پر خزاں کا طویل دور آئے گا۔
یہ ملکوں ملکوں کی باتیں، یہ حکمرانی کے قصے، اس سب سے پہلے، ہم مسلمان ہے اور یہ پاک وطن اسی “اسلام” کے نام پر خون کے عوض حاصل کیا گیا ہے۔ یہی ہماری تاریخ ہے اور یہی ہمارا مستقبل۔
مجھے اپنے وطن سے محبت ہے۔ میں پاکستانی ہوں اور یہی میری پہچان ہے۔
مگر اے پیارے وطن! مجھے معاف کرنا، تیری محبت میں تیری جیت کے خلاف ہوں۔ اور جب تک تیرے ہر گلی کوچے میں تیری بنیاد کا نظریہ زندہ نہیں ہوگا، تب تک ہر کھیل میں تیرے خلاف رہوں گی۔ مجھے تیری اساس اپنی جان سے بھی عزیز ہے اے وطن!