مفادات کی جنگ اور پاکستان

یوں تو ساری جنگیں مفادات کی خاطر ہی لڑی جاتی ہیں۔مگر مختلف ممالک میں موجود ایک قسم کا گروہ جسے لوگ ’اشرافیہ‘ بھی کہتے ہیں، اپنے مفادات کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔یہ گروہ ہر سطح پر متحرک ہوتے ہیں۔یہ بہت با اثر لوگ ہوتے ہیں۔ جو ریاست کے مختلف معاملات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔لوگ اسے ’اسٹیبلشمنٹ‘ بھی کہتے ہیں۔اس میں امراء، جاگیردار،سیاستدان،طاقتور اعلی عہدیدار، اور دیگر بااثر لوگ موجود ہوتے ہیں۔
پاکستان جہاں اندرونی و بیرونی محاذوں پر الجھا ہو ا ہے،وہیں اس طبقے کی مفادات کی لڑائیوں کا بھی شکار ہے۔ذاتی مفادات کی لڑائیوں کو ہمیشہ آمریت، جمہوریت، غربت، کرپشن، اور احتساب کی آڑ میں لڑا جاتا ہے۔یہ ذاتی مفادات ہی ہوتے ہیں، جو وفاداریاں تبدیل کرواتے ہیں۔ مختلف طاقتوں کی گود میں اٹھکیلیاں لی جاتی ہیں۔پارٹیاں بدل جاتی ہیں،مگر کے مفادات نہیں بدلتے۔دولت و شہرت کی یہ منزل نسل در نسل منتقل بھی ہوتی ہے۔
پاکستان آزادی سے لے کر آج تک ان کی مفاداتی لڑائیوں کو بھگت رہا ہے۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان دو لخت ہوا،خطے میں تنہائی کا شکار ہوا،معاشی لحاظ سے کمزور ہوا،دہشتگردی کی لپیٹ میں آیا، مسلم ہمساؤں سے بہتر تعلقات کو فروغ نہ دے سکا،اندرونی انتشار کا شکار ہوا، اور دیگر نقصانات کا شکار بنا۔
گزشتہ چند دنوں سے گہما گہمی عروج پر ہے۔اپنے اپنے مفادات کا دفاع جاری ہے۔ آپسی لڑائیوں میں ملک لہو لہان ہے۔کوئی ملک کی مرہم پٹی کیوں کرے؟کسی کو حکومت بچانے کی فکر ہے، تو کسی کو گرانے کی۔
حکومت اپنی ڈوبتی ناؤ بچانے کے لئے گرفتاریوں کا سلسلہ کار بڑھا رہی ہے۔کہیں منشیات کی آڑ میں،تو کہیں احتساب کی آڑ میں مخالفین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔دوسری طرف اپوزیشن احتساب کے ڈر سے حکومت کا تختہ الٹانے کی تگ و دو میں ہے۔ویڈیوز تیار کی جا رہی ہیں۔اداروں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کی تگ دو کی جا رہی ہے۔
ماضی میں بھی کبھی بھینس چوری کے کیسز بنائے جاتے تو کبھی منشیات کے۔احتساب کے نام پر ذاتی مفادات کا کھیل کل بھی جاری تھا اور آج بھی ہے۔
مفادات کی اس جنگ میں میڈیا کو بھی تقسیم کیا گیا۔مفادات کی آڑ میں میڈیا کو دبانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔سوشل میڈیا پر گھناؤنے الزامات کی بوچھاڑ اور پراپیگنڈہ جاری ہے۔ یہ مفادات کی جنگ ہی تو ہے کہ، اپوزیشن کو حکومت کی جانب سے عوام پر بے جا ٹیکسز کے مسلط ہونے کی فکر نہیں۔فکر ہے تو صرف اپنے کیسز کی،اپنے بچاؤ کی اور اپنے مفادات کی۔حکومت میں موجود پارٹی کوبھی ملک کی کوئی فکر نہیں، فکر ہے تو صرف حکومت بچانے کی،احتساب کی آڑ میں بدلے کی اور مفادات کی۔کسی کو خبر ہے کہ! معیشت کو مستحکم کرنے کے نام پر حکومت نے کیسی پالیسیاں شروع کی ہیں؟ پالیسیوں کی بدولت، ایک مزدور جو روزانہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، کتنا بے بس ہوگیا ہے؟جو روزانہ اپنی محنت سے گھر کا راشن بھرتا تھا۔ بے روزگار ہوگیا ہے۔پاکستان بھر میں بڑی ٹیکسٹائل کی صنعتیں بند ہوگئیں ہیں۔لاکھوں مزدور بے روزگا ر ہوگئے ہیں۔مالکان کا کیا ہے، ان کے پاس تو بچاؤ کے لئے بہت کچھ ہے۔وہ اپنی کئی نسلوں کو بٹھا کر کھلا سکتے ہیں۔مگر ٹیکسٹائل سے جن مزدوروں کا روزگار منسلک تھا، ان کا کیا بنے گا؟کہاں سے کھلائیں اپنے بچوں کو؟ لوٹ مارشروع کر دیں؟ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے درآمد ہونے والی تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔وہ غریب جو بے روزگاری کا نشانہ بنا ہے،کیسے مہنگائی میں اپنے خاندان کا پیٹ بھرے؟
مانتے ہیں کہ،دنیا بھر میں ’ڈاؤن سائیزنگ‘ کا سلسلہ جاری ہے۔مگر چیزوں کی غیر مستحکم قیمتیں اور بے جا ٹیکس،تو مزدوروں کے لئے موت کی علامت ہیں۔مہنگائی سے کاروباری لوگوں کو شاید کوئی خاص فرق نہ پڑے۔مگر مزدور کی مشکلات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔بڑھتی بے روزگاری کے باعث لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ جو بے بسی، انتہا پسندی اور افراتفری کو فروغ دے رہا ہے۔
موجودہ حالات میں اشرافیہ کے اس طبقے کی مفادات کی جنگ میں نہ صرف غریب و لاچار لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے۔بلکہ ملک کی قسمت بھی داؤ پر ہے۔طبقوں کے درمیان نفرت پروان چڑھ رہی ہے۔لوگ سوشل میڈیا پر اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔حکومت کی سخت پالیسیاں اداروں کی ساکھ کو بچانے کی بجائے متاثر کررہی ہیں۔ذہنی تناؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ایسے میں پس پردہ گناؤنی سازشیں بھی متحرک ہو سکتی ہیں۔افراتفری کو پروان چڑھا کر ملک کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔عالمی سطح پر بہت سی نادیدہ قوتیں ہمیشہ سے یہی چاہتی ہیں کہ،پاکستان ہمیشہ سنگین حالات کا شکار رہے۔تا کہ وہ اسے بنیاد بنا کر خطے میں اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔
پاکستان حکومت،اپوزیشن،اداروں اور عوام کو اپنے مفادات سے نکل کر ملک کی بقا کی خاطر اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔حالات کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا۔انتہا پسندی کی ہوا کو روکنا ہوگا۔بدلے کو پرے رکھ کر، احتساب کا عمل شروع کرنا ہوگا۔حکومت کو جائز تنقید کا نشانہ بنانا ہوگا۔ہر ادارے کو دوسروں پر نظر رکھنے کی بجائے،صرف اپنے معاملات کو انجام دینا ہوگا۔دیکھنا ہوگا کہ موجوہ حالات کے پیچھے کون ہے؟ اور اس کے کیا محرکات ہیں؟ذرا سوچئے!

حصہ
mm
لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں