ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ڈاکٹرعلامہ اقبال کے اس شعر میں اتنی گہرائی ہے کہ اگر اس کی تفصیل لکھنا شروع کروں تو سالوں بیت جائیں مگر تشریح مکمل نہ ہو گی۔  ڈاکٹر صاحب پاکستان بننے سے پہلے ہی اتنے پُر امید تھے کہ انہیں یقین تھا جو آج کا نوجوان ہے  اگر وہ تھوڑاسا تدبر کر لے تو پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا مگر افسوس پاکستان کو بنے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا مگر ترقی نہ کر سکا۔ آج بھی ہم آزادی کی سانسیں نہیں لے سکتے۔ اس سے پہلے انگریزوں کے غلام تھے پھر ہندوؤں کے ظلم و ستم سہتے رہے اور آج بھی غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ہم ایک ہجوم تھے ہجوم ہیں اور جو صورت ِ حال ہے ہم ہجوم ہی رہیں گے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ایک قوم بننے ہی نہیں دیا ۔ سب اپنے اپنے مفاد ات کی خا طر عوام کو گروہوں کی شکل میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑاتے رہے۔ الیکشن کمپین ہو یا کسی ایم پی اے،  ایم این اے کا جلسہ، اسپیکر کی آواز پر غریب ہی دوڑا چلا آتا ہے۔ کیونکہ وہ بیوقوف سمجھتا ہے یہ آواز اُس کے دیوتا کی آواز ہے، یہ آواز شائد اُس کے مسیحا کی آواز ہے جو اُ س غریب کے دُکھ درد کو بانٹے گا، زخموں پر مرہم رکھے گا، آنسوؤں کو پونچھے گا، ہمدرد بنے گا مگر افسوس وہ آوا ز بھی صرف مفاد کی آواز ہوتی ہے  اور آج بھی صرف مفاد کی ہی گیم کھیلی جا رہی ہے جس کے مہرے بنتے ہیں ہم عوام۔

جی تو قارئین ایک تلخ حقیقت آپ کی خدمت میں بیان کر تا ہوں کہ پاکستان، پاکستانیوں کے لیے قبرستان ہے۔ جب کوئی پاکستانی امیر ہو جاتا ہے وہ اپنا بنک اکاؤنٹ سوئٹزر لینڈ میں رکھتا ہے، وہ علاج معالجہ کے لیے امریکہ اور برطانیہ جاتا ہے،وہ شاپنگ دوبئی اور یورپ سے کرتا ہے، وہ چائنہ سے چیزیں خریدتا ہے وہ عبادات کے لیے مکہ اور مدینہ جاتا ہے، اس کی اولاد یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہے، وہ سیر سپاٹے کے لیے برطانیہ کینیڈا او ر سوئٹزر لینڈ جانا پسند کرتا ہے اور جب مر جاتا ہے تو دفن ہونے کے لیے اپنے آبائی وطن پاکستان میں دفن ہونا پسند کرتا ہے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر ہم اس پر توجہ نہ دیں تو شعور کی کمی کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان، پاکستانیوں کے لیے ایک قبرستان ہے اور قبرستان کیسے ترقی کر سکتا ہے؟“۔ اِس بات میں کتنی گہرائی ہے؟ ابھی میں آپ سے کسی صدر، وزیر،مشیر کی بات نہیں کر رہا ایک عام پاکستانی جو کسی سرکاری دفتر میں بڑے عہدے پر فائزہے وہ گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے سوئٹزر لینڈ ہر سال جاتا ہے لیکن عام آدمی گرمی میں لوڈشیڈنگ کے عذاب کو برداشت کرتا ہے۔

پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی عوام سے بہت وعدے کرتی ہے،غریبوں کو ہر بار ایک اُمید دی جاتی ہے کہ اب یہ پارٹی غریبوں کی دن بدل دے گی، روٹی، کپڑا اور مکان آسان ہو جائے گا مگر کیا ہی کہنے، عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان چھین لیتی ہے اگر کہاجائے کہ جینے کا بنیادی حق  تک چھین لیتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اگر حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے اور خزانہ خالی ملتا ہے تو، عوام کی کھال کیوں اُدھیڑی جاتی ہے، کیوں نہیں ایم پی ایز، ایم این ایز کی مرعات کم نہیں کی جاتیں، کیوں نہیں ویزوں مشیروں کی تنخواہیں اور مرعات کم کی جاتیں، کئی ایسے سرکاری ادارے ہیں جہاں نوکری کرنے والوں کو تنخواہ کے ساتھ یونٹ فری، پیٹرول فری دیا جاتا ہے۔۔ جبکہ دیگر اداروں میں ماسوائے تنخواہ کے اور کچھ بھی نہیں دیا جاتا تو یہ فری والا سلسلہ بند کر دینا چاہیے، بڑے بڑے افسروں کے پاس سرکاری گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیور اور پیٹرول فری کیوں دیا جاتا ہے، کیا وہ تنخواہ نہیں لیتے؟پاکستان میں پیدا ہونے والا ایک نومولود بچہ لاکھوں روپے کا مقروض پیدا ہوتا ہے جبکہ سیاستدانوں کے بچے کچھ ہی عرصہ بعد اتنے بڑے بڑے بزنس کے مالک بن جاتے ہیں کیسے؟ ملک قرضوں میں ڈبو کر خود عیاشیاں کرتے ہیں کیوں؟کیا یہ ملک اِن لٹیروں کے لیے صر ف عیاشی کا اڈا ہے؟ میں اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے مُلک پاکستان کے فنانس منسٹر شوکت عزیز صاحب جو کہ6 نومبر 1999ء سے 15نومبر 2007ء تک اپنے فرائض سر انجا م دیتے رہے اِن کوان کی وفاداریوں کی عوض اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ویر اعظم بنا دیا جاتا ہے جو اگست 2004 سے  15نومبر تک پاکستان پر حکومت کرتے ہیں جب اِن صاحب کا دور اقتدار مکمل ہوا تو یہ صاحب پاکستان سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر جاتے ہیں آج شائدبہت سے لوگوں کو ان صاحب کا نام بھی یاد نہ ہوگا اور کہاں کس ملک میں تشریف فرما ہیں یہ بھی نہیں معلوم ہو گا۔لیکن جب ان کا انتقال ہو گا ان کی وصیت کی مطابق ان کو اِ ن کے آبائی ملک یعنی پاکستان میں دفن کیا جائے گا تا کہ بیوقوف عوام کو پتہ چلے کہ یہ صاحب ملک ِ پاکستان سے کس قدر مخلص تھے کہ آخری آرام گاہ بھی پاکستان میں ہی پسند فرماتے تھے۔

اِ س ملک کی بد نصیبی کہوں یا عوام میں شعورکی کمی جسے بھی اپنا مسیحا چُنتے ہیں وہی اس بے سہارا ،  نڈھال عوام کا خون چوسنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے، میں کسی بھی حکومت کی خوشامد یا کسی بھی حکومت کے خلاف بات نہیں کر رہا صرف حقیقت بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایک مثال ہمارے سامنے ایم کیو ایم کے بانی جناب الطاف حسین کی بھی ہے محترم عرصہ دراز سے لندن میں سکونت پذیر ہیں لیکن اُن کی پارٹی پاکستان میں حکومت کر تی رہی ہے۔بلاول بھٹو زرداری صاحب جنہوں نے تعلیم باہر سے حاصل کی، ساری زندگی باہر گذاری، سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والا یہ نوجوان سیاستدان جو خود کو غریب کہلواتا ہے اور کہتا ہے کہ میں پاکستان کی غریب عوا م کا سہارا بنوں گا ذرا اِن صاحب سے اتنا تو پوچھیں ”غربت ہوتی کیا چیز ہے؟“ تو موصوف کو یقیناً علم نہیں ہو گا کیونکہ جو تن جانے وہ کوئی نہ جانے۔اِن صاحب کے والدِ محترم اور پاکستان کے سابق صدر محترم آصف علی ذرادری صاحب کی جائیداد، رقوم اور دیگر اثاثہ جات بیرونِ ممالک ہیں جب کہ دونوں باپ بیٹا پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں، بلاول بھٹو ذرداری صاحب کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں مگر اُن صاحب کو مکمل سرکار ی پروٹوکول حاصل ہے۔محترمہ مریم نواز صاحبہ جو پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے سیاسی لیڈر محترم نواز شریف کی صاحبزادی ہیں جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا مگر اُن کے پاس سرکاری پروٹوکول ہمیشہ رہا۔

پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی ”موروثی“ سیاست ہے کسی بھی پارٹی کا نام لے لیں اُن کے بچے تیار ہو رہے ہیں غریب اور دکھی پاکستانیوں پر حکومت کرنے کے لیے۔ہر پارٹی میں کسی کا بیٹا کسی کی بیٹی، سمدھی، ماموں، چاچے وغیرہ وغیرہ پارٹی چلا رہے ہیں مقصد صرف ا ور صرف پاکستان پر حکومت کر نا اور ایوان میں اپنی تصویر کی نمائش کرنا ہے، اگر پاکستان  یا  پاکستانیوں سے محبت

ہوتی تو عیدیں، شبراتیں ملک سے باہر نہ مناتے، جائیدادیں، پیسے باہر کے ملکوں میں جمع نہ کرتے۔ چلیں اب ذرا بات ہو جائے موجودہ حکومت کی تو جناب دس ماہ میں جتنی مہنگائی کا ہوشربا اضافہ اس حکومت میں ہو ا ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے ایک غریب آدمی دو وقت کی روٹی کیسے پوری کرے بیچاری لاچار عوام ہر بار الیکشن پر یہ سوچتی ہے اب کی بار ان کا نمائندہ ان کی داد رسی کرے گا۔مگر بعد میں وہی لارے، وہی وعدے وہی مکاری، وہی غربت، وہی مہنگائی۔ عوام ساری زندگی اِن کی غلام رہتی ہے پھر ان کے بچوں کی یعنی عوام کی قسمت میں صرف غلامی ہے اور سیاستدانوں کی قسمت میں حکمرانی ہے۔یہ اتنے چلاک اور مکار ہیں کہ تعلیم جو کہ کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے اُس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ حکمرانوں کے خوشامدی اور اشرافیہ کے بچے بڑے بڑے اور اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ غریب کا بچہ ایک عام سے سکول سے اپنی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں اگر غریب میں تعلیم اور شعور بیدار ہو گیا تو ہماری سلطنت ٹوٹ جائے گی عوام بغاوت کر جائے گی اور ہمارے ریاست پر سے حکمرانی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایک عام شہری کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ،صوبائی، قومی اسمبلی کے رکن اور ایک کونسلر کے اختیارات کیا ہیں؟اور ہم نسل در نسل ملکی خزانوں کو لوٹتے رہیں اور ہمیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔یہ بات بھی قابل غور ہے ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستا ہی چلا جا رہا ہے، کوئی بھی ادارہ فائدے میں نہیں جا رہا  جبکہ حکمرانوں کے کاروبار، زمینیں، جائیدادیں  اور پیسوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں۔

پاکستانی عوام نے عمران خان صاحب کو آنکھوں کا تارہ بنایا اور اُمید لگا لی کہ یہ صاحب ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکال کر ملک کو صیحح راہ پر چلائیں گے عوام خوشحال ہو گی، طرز زندگی آسان ہوگا، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اِ ن کی پارٹی میں نہ صرف چہرے پرانے ہیں بلکہ طرز حکومت بھی پرانا ہی ہے، آٹا، دال، چینی اور گھریلواستعمال کی دیگر چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جاری ہیں، میڈیسن (ادوایات) چونکہ بیماری پوچھ کر تو آتی نہیں ہر گھر میں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے جس کے لیے ادویات کا استعمال لازمی ہے اگر یہ کہا جائے کہ روٹی بھلے نہ ملے دوائی کھانا لازم ہے تو غلط نہ ہوگا، ادویات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کہ بس اللہ توبہ اللہ توبہ، ایک غریب آدمی جس کی ایک دن کی آمدن پانچ سو روپے ہے جبکہ مکان کا کرایہ 15000 (پندرہ ہزار)ہے وہ بجلی کا بل، گیس کا بل، بچے کی فیس، ماں کی دوائی پھر بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور پاؤں میں جوتا کیسے خریدے گا؟ ہمارے حکمران جہاں جاتے ہیں ملک پاکستان کوعالمی سطح  پر کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اِ س ملک کا بچہ جو اپنی پاکٹ منی سے ایک لالی پوپ خریدتا ہے وہ بھی ٹیکس ادا کرتا ہے، ایک تھکا ہارا  مزدور  جب گھر آ کر ایک پیالی چائے پیتا ہے تو وہ بھی چائے کی پتی، دودھ،گیس پر ٹیکس ادا کرتا ہے یعنی ایک پیالی چائے پینے کا بھی ٹیکس ادا کر تا ہے جنا ب ویزاعظم صاحب اب آپ کنٹینر پر نہیں کھڑے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ایسا ماحول پیدا   کر یں کہ بیرونی سرمایہ کاری پیدا ہو۔ ملک خوشحال ہو، عوام کی زندگی آسان ہو نہ کہ لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

محترم عمران خان صاحب جب آپ کرکٹ کھیلتے تھے تو آپ کو اسی وطن کی عوام نے آنکھوں پر بٹھایا پھر جب آپ نے ملک کی باگ ڈور سمبھالنے کا خواب دیکھا تو اِسی لاچار عوام نے آپ پر بھروسہ کیا اور آج آپ ایوان میں بیٹھے ہیں۔ اگر آپ نے یہی روش رکھی تو یہ عوام  نظر وں اور دل سے بھی گرِا دے گی۔خدا کے لیے جو وعدے آپ نے کیے اُن کو پورا کریں کابینہ میں 20لوگوں والا وعدہ پورا کریں نا کہ 40 لوگوں کی فوج۔اپنے چہیتوں کے ساتھ بیرونی مما لک کے دوروں پر نظر ثانی فرمائیں اور کم سے کم لوگوں کو دوروں پر لے جائیں تا کہ ملکی خزانے پر بوجھ کم ہو اور باہر فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی بجائے گیسٹ ہاؤس میں رہ کر ایک مثال بنیں۔ایوان صدر میں بھینسوں کی جگہ طوطوں نے لے لی۔ پی ایم ہاؤس، صدر ہاؤس پارلیمنٹ لاجز اور منسٹر کالونیزکے شاہانہ اخراجات کم کریں تاکہ اک عام شہری کو ریلیف ملے جو وعدے کیے تھے اب اُن کی پاسداری کریں۔435 سے زیادہ لوگوں کا نام پنامہ کیس میں شامل ہے اُن کو بھی عدالت کے کٹہرے لا کر کھڑا کریں اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ لُکن چھپائی کا کھیل بند کریں جن پر جُرم ثابت ہو جائے اُن کی جائیدادیں ضبط کریں جیلوں میں عام قیدیوں جیسا سلوک برتیں، انہیں ائر کندیشن کمروں اور مخملی بستروں کی کوئی ضرورت نہیں، اِن سے پیسہ وصولی کا کام شروع کریں اور آئی ایم ایف کے چُنگل سے پاکستان کو آزاد کرائیں۔پاکستانیوں کو قربانی دینا آتا ہے اگر آپ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے کوشش کریں گے تو پور ا پاکستان آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ سب جانتے ہیں یہ مکافات عمل کی زندگی ہے جیسے دلوں پر راج کرنے والے عوامی لیڈر آج جیلوں میں ہیں یہ وقت کسی دوسرے پر بھی آسکتا ہے کیونکہ اشفا ق احمد صاحب فرماتے ہیں ”دھوکہ ایسی چیز ہے جو ہر صورت واپس آتا ہے“۔مثل مشہور ہے اچھے اور بُرے کی پہچان آسان ہوتی ہے لیکن دو بُرے لوگوں میں سے ایک کو چننا بہت مشکل ہو جا تا ہے۔ کہیں آپ کے بارے بھی عوام کی رائے منفی نہ ہو جائے۔دوسرے پاکستانی سیاستدانوں کی طرح آپ بھی پاکستان چھوڑکر نہ چلے جائیں۔اور کہیں یہ بات سچ ہی ثابت نہ ہو جائے کہ پاکستان، پاکستانیوں کے لیے قبرستان ہے۔۔۔ قبرستان کیسے ترقی کر سکتا ہے؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں