شمالی ناظم آباد میں واقع اس گھر میں ہونے والی چہل پہل کے اثرات دروازے کے باہر تک نظر آرہے تھے، فلاحی ادارے گوشہِ عافیت میں آج راحیلہ کی شادی کی تقریب جو تھی، ہم نے جیسے ہی اندر قدم رکھا سامنے کمرے میں گھر کی خواتین کے گھیرے میں دلہن پہ نگاہ پڑی، ان سے ملیئے یہ دلہن کی امی ہیں ،کسی نے تعارف کروایا تو ہم نے پروقار سی شاہدہ کی طرف دیکھا اور حیران رہ گئے ، ارے آپ تو کہیں سے امی نہیں لگ رہیں ، دراصل میں نے راحیلہ کو اپنی بٹی بنایا ہوا ہے ، شاہدہ نے رسان سے مسکراتے ہوئے بتایا ۔ اس دوران گھر کے مختلف کمروں سے زرق برق ملبوسات میں جھانکتی لڑکیاں نظر آئیں ، آپ راحیلہ کو کیا کہہ کر پکارتی ہیں ،میں نے ایک آٹھ نو سالہ بچی سے سوال کیا ، آپی، اس نے شرماتے ہوئے بتایا ، کیسا لگ رہا ہے آپی کی شادی پہ ؟ بہت اچھا لگ رہا ہے ، اس کا زیادہ دھیان نوشابہ کے ہاتھ میں موجود ٹیبلیٹ کی جانب تھا جس سے وہ دلہن کی تصویریں لے رہی تھیں ، دلہن کی مہندی تو بہت خوبصورت ہے، کہاں سے لگوائی ہے؟ ہم نے سوال کیا، ہمارے گوشہ عافیت کی ایک اور لڑکی جس کی شادی یہاں سے ہی ہوئی تھی ،اسی کی نند نے آ کر لگائی ہے مہندی، انتظامیہ کے کسی فرد نے جواب دیا ، اچھا یہاں سے کتنی بچیوں کی شادی ہو چکی ہے؟ ہم نے سوچا لگے ہاتھوں مزید معلومات لے لی جائیں، یہاں سے سترہ بچیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں ، جواب نے ہیں واقعی حیران کر دیا۔ یہیں سے رخصت ہو کر گئی بلقیس سے بھی ملاقات ہوئی جو ، گلشنِ حدید سے لمبا سفر کر کے آئی تھی ، اس کے چہرے پہ وہی خوشی دمک رہی تھی جو میکے آنے پہ عورت کے چہرے کا خاصہ ہوتی ہے۔ واکر کے سہارے چلتی ضعیف سی خاتون کمرے کے دروازے پہ آئیں تو دلہن نے ایک دم سے وہاں موجود شاہدہ کو متوجہ کیا،دادی کو پکڑیں ، شاہدہ تیزی سے آگے بڑھیں اور انھیں تھام کر اندر لے آئیں ، ہم اپنی بچی کو دیکھے آئے ہیں ، انتہائی کمزور سی دادی نے بمشکل کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کپکپاتی آواز میں کہا، ان سے ہماری ملاقات پچھلی مرتبہ بھی ہوئی تھی، اس بار وہ زیادہ کمزور لگیں لیکن ان کے ارد گرد کے لوگوں کو ان کا محبت سے خیال کرتے دیکھ کر بہت اچھا لگ۔ اس دوران محلے سے بھی خواتین آ چکی تھیں ،سب ہی بہت خوش تھیں ، آپ کو کیسا لگتا ہے کہ ایسا ادارہ آپ کی گلی میں ہے، میں نے لگے ہاتھوں اپنے برابرمیں کھڑی خاتون سے سوال کر لیا، بہت اچھا لگتا ہے ، ہم یہاں آتے ہیں درس قرآن سنتے ہیں ، ان لوگوں سے ملتے جلتے ہیں ,قریب تھا کہ وہ اور بھی کچھ بتاتیں کہ بارات کے آنے کا شور اٹھا، دیکھتے ہی دیکھتے سجی سنوری خواتین سے گھر کے تمام کمرے بھر گئے، بارات منگھو پیر سے آئی ہے ، انتظامیہ کی فعال رکن طلعت نصر اللہ نے ہمیں بتایا، دراصل ان ہی کے علاقے میں ہماری ایک بچی رخصت ہو کر گئی تھی، اس کے رکھ رکھاؤ اور اخلاق و کرادر سے متاثر ہو کر یہ لوگ بھی رشتے کے لیئے ادھر آئے ، کتنی پیاری بات ہے نا! جیسے ایک گھر سے ایک بہن سسرال میں اچھا برتاؤ کرے تو دوسری کا بھی وہیں کہیں سے رشتہ آجاتا ہے، میں نے نوشابہ کے کان میں سرگوشی کی، گوشہِ عافیت ان سب کا گھر ہی تو ہے ،بیگم جہاں آراء مظفر اور ان کی ٹیم کی تربیت اور انتھک محنت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا۔ اب جب کہ بارات کے ساتھ آئی خواتین سے کمرہ بھر چکا تھا ، میں اور نوشابہ دوسرے کمرے میں بیٹھی بیگم مظفر کے پاس جا کے بیٹھ گئے ، مظفر ہاشمی صاحب کے بعد ان کے صاحبزادے نے گوشہِ عافیت کو ان کی کمی محسوس نہیں ہوے دی، اس بات ا احساس ہمیں ان کی والدہ کے برابر میں بیٹھتے ہی ہو گیا تھا، جو مستقل فون پہ ان سے رابطے میں تھیں۔ یہ بچی ہمارے پاس دو سال قبل آئی تھی، وہ فون بند کر کے ہم سے مخاطب ہوئیں، اسوقت یہ بہت برے حال میں تھی، یہ بچپن سے ایدھی ہوم میں ہوا کرتی تھی، ذرا بڑی ہوئی تو کسی لڑکی کے ساتھ باہر کی دنیا کی چکا چوند دیکھنے کے شوق میں بھاگ نکلی ، کچھ عرصے اسی لڑکی کی مدد سے میسر ٹھکانے میں رہتے ہوئے مختلف گھروں میں کام کاج کرتی رہی اور اسی دوران ایک ایسی عورت کے ہتھے چڑھ گئی جو اسے ایک اچھی زندگی کے سبز باغ دکھا کر اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئی، یہ کم عمر بچی تھی، جس نے اتنا بڑا قدم ہی ایک اچھی زندگی کی تلاش میں اٹھایا تھا، اسے کیا پتہ تھا کہ جن آسائشوں کا اسے جھانسہ دیا گیا ہے ان کی قیمت ا سقدر بھیانک ہو گی، وہ جب اس عورت سے تعاون کرنے سے انکار کرتی ،اس کے جسم میں سرنج کے ذریعے پیٹرول ڈالا جاتا جس کی وجہ سے وہ اذیت سے تڑپتی رہتی ، نیر ! آج بھی اس کے بازو ؤں پہ تشدد کے نشانات موجود ہیں، مجھے مخاطب کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی ، پھر یہ کسی طرح وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی تو ایک مہربان نے اسے ہمارے پاس پہنچا دیا، یہ بچی پوری زندگی تربیت سے محروم رہی تھی، پھر اسقدر آزمائشوں سے گزر کر اور برے حالات ہو گئے تھے ، ایسے میں ہم نے اس کی مستقل کاونسلنگ کی ، اسے بات کرنے کے ڈھنگ سے لے کر اٹھنا بیٹھنا تک سکھایا، شاہدہ نے اسے اپنی بیٹی بنایا اور ثابت بھی کر دیا کہ کبھی کبھی انسانیت کا رشتہ بھی خونی رشتے کی جگہ لے سکتا ہے ۔ اب راحیلہ کی حالت سنبھل گئی تھی کہ ایک دن اچانک ہماری ایک بچی کے سسرالی علاقے سے کچھ خواتین آئیں ، ہمیں اپنے سسر کے لیئے کوئی اچھا رشتہ چاہیئے ، بہووں نے آنے کا مقصد بتا یا تو ہم نے انھیں راحیلہ سے ملوایا، راحیلہ انھیں فوراً ہی پسند آگئی، راحیلہ نے اس شرط پہ ہاں کی کہ اس کے ماضی کے تمام حالات انھیں بتا دیئے جائیں ، ان لوگوں نے سب کچھ سن کر بس اتنا ہی کہا کہ انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جہاں آراء صاحبہ کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ نکاح کا شور اٹھا ، تھوڑی ہی دیر کے بعد کھانا لگایا گیا اور باوقار طریقے سے راحیلہ کی رخصتی ہوگئی ، ہم نے اوپر سے جھانک کر دیکھا دلہن کے لیئے باقاعدہ سجی ہوئی گاڑی لائی گئی تھی، ماشاء اللہ پورے اہتمام سے یہ لوگ راحیلہ کو لے کر جارہے ہیں میں نے بے ساختہ کہا، ابھی تو آپ نے اس کی بری نہیں دیکھی ، وہاں کی ایک رہائشی نے اشتیاق سے بتایا، ولیمہ ہم نے ہال میں رکھا ہے ، اور کھل کے انتظام کیا ہے ،آپ لوگ ضرور آئیے گا، جاتے ہوئے بہووں میں سے ایک نے دعوت دی۔ ہر فرد راحیلہ کی آئندہ زندگی میں خوشیوں کے لیئے دعا گو تھا، گوشہِ عافیت کے رہائشیوں کی آنکھوں میں نمی اور چہروں پہ مسکراہٹ تھی۔
ہماری نظریں اس دوران بار بار ایک سنجیدہ پیاری سی لڑکی پہ جا کے ٹھہر جاتیں ، اس سے ہماری ملاقات پچھلی بار بھی ہوئی تھی ، یہ بچی ایک ماہ کی تھی جب گوشہِ عافیت میں آئی ،اس کی بڑی بہن کی بھی یہیں سے شادی ہوئی ہے اس نے میٹرک کر لیا ہے اور اب انٹر کر رہی ہے، اس پیاری سی لڑکی کی بھی ایک بہت اچھے گھرانے میں بات طے ہو گئی ہے اور عنقریب شادی ہونے والی ہے۔ اس سے ایک اچھی سی ملاقات اور ساتھ ساتھ شاہدہ سے ملاقات کی تفصیل بھی ان شاء اللہ جلد قارئین کے گوش گزار کریں گے ۔