جب سے کشمیر سے تعلق رکھنے والی انیس سالہ اداکارہ ‘زائرہ وسیم’ نے بالی وڈ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے ، سوشل میڈیا میں بھونچال سا آیا ہوا ہے _ ہر کوئی اس پر تبصرے کررہا ہے ، اپنے ذہنی سانچے کے مطابق اس پر رائے دے رہا ہے اور اس اقدام کو صحیح یا غلط قرار دے رہا ہے _ اس شور میں زائرہ کے اپنے احساسات دبنے لگے ہیں ، جو اس نے فلم انڈسٹری چھوڑنے کے اعلان کے ساتھ ظاہر کیے ہیں ، حالاں کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کو پیش نظر رکھا جائے اور اس کے اظہارِ رائے اور طرزِ معاشرت کی آزادی کے حق کو تسلیم کیا جائے _
پانچ سال قبل زائرہ نے عامر خان کی فلم ‘دنگل’ کے ذریعے بالی ووڈ میں قدم رکھا _ پہلی ہی فلم سے وہ مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچ گئی _ اپنی پرفارمنس کی وجہ سے اس نے متعدد ایوارڈز حاصل کیے _ ہر طرح کی دنیاوی آسائش حاصل ہونے اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود اس نے اپنے اندروں میں کچھ کمی محسوس کی ، اس کے ضمیر نے کچوکے لگانے شروع کیے _ دوسری طرف اس کے نفس نے اسے اس کی موجودہ پوزیشن پر مطمئن کرنے اور اسے تھپکیاں دے کر سلانے کی کوشش کی _ ضمیر اور نفس کی کش مکش نے اسے بے چین کردیا _ سکون کی تلاش میں اس نے قرآن مجید سے رجوع کیا تو قرآن نے اس پر رازِ حیات منکشف کردیا _ اس پر واضح ہوگیا کہ وہ جاہلیت کی زندگی گزار رہی ہے ، فلم انڈسٹری کی چمک دمک نے اس کی نگاہوں کو خیرہ کردیا ہے ، اس کے ایمان کی لَو مدھم پڑ گئی ہے اور اس کے رب سے اس کا رشتہ کم زور ہوگیا ہے _ جوں جوں وہ قرآن پڑھتی گئی اس نے اپنے ایمان میں تازگی محسوس کی اور اپنے رب سے رشتہ مضبوط کرنے کا جذبہ بڑھتا گیا _ اس نے اپنے اندر اتنی طاقت محسوس کہ فلم انڈسٹری کی مضبوط بیڑیاں یک لخت ٹکڑے ٹکڑے کردیں _
اکیسویں صدی آزادی کی صدی ہے _ آزادی کو ایک بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے _ کسی بھی صورت میں اس کا سودا نہیں کیا جا سکتا _ سوچنے کی آزادی ، اظہارِ رائے کی آزادی ، مذہب اختیار کرنے کی آزادی ، کھانے پینے کی آزادی ، لباس کی آزادی ، رہن سہن کی آزادی ، طرزِ معاشرت کی آزادی ، وغیرہ _ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ آزادی ہر ایک کو حاصل ہو _ اگر گناہ کرنے کی آزادی ہے تو گناہ ترک کرنے کی بھی آزادی ہونی چاہیے _ اگر اسلام سے دور جانے کی آزادی ہے تو اس سے قریب ہونے کی بھی آزادی ہونی چاہیے _ عریانی اور فحّاشی کی آزادی ہے تو حیا اور پاکیزگی کی بھی آزادی ہونے چاہیے _ اگر بے حجابی کی آزادی ہے تو حجاب اختیار کرنے کی بھی آزادی ہونی چاہیے _ اگر بالی وڈ میں داخل ہونے کی آزادی ہے تو اسے ٹھکرانے اور اس کی دلدل سے نکل آنے کی آزادی بھی ہونی چاہیے _
لیکن زائرہ نے بالی وڈ چھوڑنے کا اعلان کیا کیا کہ شیطان کے کارندے حرکت میں آگئے _ انھیں اس کی یہ ‘ادا’ پسند نہیں آئی _ ایک کارندے نے نصیحت کی کہ ” زائرہ کو فلم انڈسٹری نہیں چھوڑنی چاہیے تھی ، اسلام نے اس سے نہیں روکا ہے _ ” دوسرے کارندے نے طنز کرتے ہوئے پوچھا ہے : ” زائرہ ! اب کیا ؟ نقاب یا حجاب ؟ _” شیطان کی ایک چیلی کہتی ہے : ” بالی وڈ چھوڑنے کا یہ فیصلہ کیسا احمقانہ ہے ؟ مسلم کمیونٹی کے کتنے ٹیلنٹ برقعہ کی تاریکی کے پیچھے چھپا دیے جاتے ہیں _ “
اللہ تعالٰی کا ارشاد برحق ہے :
” اَللّٰهُ وَلِىُّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَوۡلِيٰٓــئُهُمُ الطَّاغُوۡتُۙ يُخۡرِجُوۡنَهُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَى الظُّلُمٰتِؕ (البقرۃ :257)
” اللہ ان لوگوں کا حامی و مددگار ہے جو ایمان لاتے ہیں _ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے _ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں _ وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں _”
بیٹی زائرہ !
تمھارا فیصلہ بالکل درست ہے _ تمھیں نئی زندگی مبارک ہو _ تم نے محسوس کیا کہ تمھارا ایمان اور تمھارا اپنے رب سے رشتہ کم زور ہورہا ہے ، اس لیے تم نے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا ارادہ کیا _ تمھارا یہ ارادہ بہت مبارک ہے _ ندامت کے آنسو تمام خطاؤں اور لغزشوں کو دھو دیتے ہیں _ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمی سے تمام گناہ بخش سکتا ہے _( النساء :48 ) حدیث میں ہے کہ ” بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو اللہ اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے ، بندہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو وہ ایک گز بڑھتا ہے ، بندہ اللہ کی طرف چل کر جاتا ہے تو اللہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے _” ( بخاری : 7405 ، مسلم :2675 )
بیٹی زائرہ !
تم شیطان کے ان چیلوں اور چیلیوں کے بہکاوے میں نہ آؤ _ تم نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر ڈٹی رہو _ اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو _
اللہ تعالٰی ہماری بہن کا راہ حق میں استقامت عطا فرمائے. اور شیطان اور شیطانی چیلوں سے حفاظت فرمائے اور اپنی حفاظت میں رکھے. آمین
Well said sir
It’s a very good decision.. I like that