لگتا ہے یہ بڑے میاں اس عمر میں آکر تھوڑا کھسک گئے ہیں۔‘‘ امین صاحب نے دبی آواز میں سلیم صاحب سے کہا اور ایک پیپر ان کی میز پر رکھ دیا‘‘ ۔
’’کس کی بات کررہے ہو؟‘‘ سلیم صاحب نے پیپر اٹھا کر ایک نظر دیکھا اور فائل میں لگا دیا۔
’’یہی اپنے پیون فاروق بابا کی۔‘‘ امین صاحب نے کھڑے کھڑے کہا۔
’’کیوں خیریت! کیا ہوگیا انہیں؟‘‘ سلیم صاحب نے مسکرا کر امین صاحب کو دیکھا۔
’’آپ نے شاید نوٹ نہیں کیا۔‘‘ امین صاحب سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوگئے اور قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولے۔ ’’جب سے نئے ڈائریکٹر صاحب آئے ہیں‘ ان کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں وہ بڑے میاں! شاید نمبر بنانے کے چکر میں ہیں۔‘‘
سلیم صاحب ہنس دیئے۔ ’’ارے چھوڑو بھئی‘ کیا پیون کی باتیں لے کر بیٹھ گئے‘ بنانے دو غریب کو اگر نمبر بنا رہے ہیں تو ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘
’’جاتا تو خیر کسی کا کچھ نہیں لیکن آگے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے سلیم صاحب! آپ شاید سمجھ نہیں رہے۔‘‘ امین صاحب نے ذومعنی انداز میں کہا۔
اس بار سلیم صاحب تھوڑا چونکے۔ ’’کیا مطلب؟ ویسے ایک بات تو ہے میں نے بھی نوٹ کیا ہے کہ فاروق بابا نئے ڈائریکٹر کے کمرے کے چکر کچھ زیادہ ہی لگارہا ہے۔‘‘
’’اور ہم اتنے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فاروق بابا بڑا اصول پسند ہے۔ کام سے کام رکھتا ہے اور کبھی کسی کی خوشامد یا چاپلوسی نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے کہا۔ ’’ہے نا یہ بات۔۔۔؟‘‘
’’یہ بات تو ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو معلوم ہوگا کہ فاروق بابا کا ایک جوان لڑکا بھی ہے‘ جس کا کبھی کبھی ذکر کرتا رہتا ہے وہ۔‘‘
’’ہاں پتا ہے‘ تو۔۔۔؟‘‘
’’کچھ عرصے پہلے فاروق بابا نے بتایا تھاکہ وہ اس کی نوکری کے لیے پریشان ہیں۔‘‘
’ہاں‘ بتایا تھا مجھے بھی۔‘‘ سلیم صاحب کچھ کچھ سمجھ رہے تھے۔ ’’بلکہ مجھ سے بھی کہا تھا کہ اسے کہیں نوکری دلوادیں۔‘‘
’’بس تو وہ اسی چکر میں نئے ڈائریکٹر کی خوشامد میں لگا ہوگا۔‘‘ امین صاحب نے اصل بات بیان کردی۔
’’ہاں ہوسکتا ہے خیر ہمیں کیا اور اچھا ہے غریب کا بھلا ہوجائے‘ ویسے بھی اب اس کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے ہیں۔‘‘
’’وہ کچھ بھی کرے‘ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ امین صاحب بڑے محتاط اور نپے تلے الفاظ کا استعمال کررہے تھے۔ ’’فکر صرف اس بات کی ہے کہ بڑے میاں خوشامد کے چکر میں ہماری اچھی بُری باتیں نئے ڈائریکٹر کو نہ بتانا شروع کردیں۔‘‘
’’یعنی مخبری۔۔۔!‘‘ سلیم صاحب کے ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمودار ہوگئیں۔
’’جی جناب!‘‘ امین صاحب نے بھویں اچکائیں۔ ’’اب آپ کو تو پتا ہی ہے کہ یہاں سب کا ایک جیسا حال ہے‘ اوپر کی کمائی کے بغیر گزارہ مشکل ہوجاتا ہے‘ ہماری تو ویسے بھی پبلک ڈیلنگ ہے کچھ لے دے کر ہی کام کیے جاتے ہیں یہاں اگر مخبری کے نتیجے میں ہماری کمائی کا یہ ذریعہ بند ہوگیا تو پھر ہم سوکھی تنخواہ پر کیسے اپنے اخراجات پورے کریں گے؟‘‘
سلیم صاحب نے کرسی کی پشت گاہ سے کمر لگالی اور دونوں ہاتھ سر پر باندھ کر بولے۔ ’’یار! یہ تو آپ نے پریشان کردیا مجھے۔‘‘
’’پریشان نہیں‘ خبردار کیا ہے۔ ذرا بڑے میاں سے بچ بچا کر کام کرنا۔‘‘ امین صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟‘‘ امینہ بیگم نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پانی کا گلاس ٹرے پر رکھ دیا۔ ’’کہاں سے ہوگا تین ہزار کا بندوبست‘ ابھی پچھلے مہینے ہی کتابوں اور یونیفارم پر اتنا خرچہ ہوگیا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے‘ کچھ نہ کچھ بندوبست ہوجائے گا۔‘‘ فاروق صاحب نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پھر اسے خالی کرکے کہا۔ ’’اس سے پہلے بھی تو اللہ نے ہمارا کوئی کام نہیں روکا‘ بے فکر رہو۔‘‘
’’آپ اپنے آفس میں بات کرکے دیکھیں کچھ رقم ادھار لینے کی بعد میں تھوڑے تھوڑے تنخواہ میں سے کٹواتے رہیں۔‘‘
’’ادھار صرف بڑے آفیسروں کو ملتے ہیں‘ ایک پیون کو بھلا کیوں ادھار ملے گا‘ ان شاء اللہ کل میں کہیں نہ کہیں سے پیسے کرلوں گا۔‘‘
’’پرسوں عمران کی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔‘‘ امینہ بیگم نے یاد دلایا۔
’’ابھی کل کا دن ہے ہمارے پاس۔۔۔‘‘
’’تو اب کس کے پاس جائیں گے؟‘‘
’’کسی کے پاس نہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر ہاتھ میں لے لی اور کہا ۔ ’’یہ دیکھو‘ ہوگیا نا بندوبست۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ تو کیا اسے بیچ دیں گے؟‘‘ امینہ بیگم کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوگئے
’’ہاں‘ تو کیا ہوا؟ بیٹے کی پڑھائی سے بڑھ کر تو نہیں ہے نا یہ۔‘‘
’’لیکن۔۔۔ یہ تو آپ کے والد کی نشانی۔۔۔‘‘ امینہ بیگم کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’شاید یہ اسی دن کے لیے اب تک میرے پاس تھی کہ میرے بیٹے کے کام آجائے‘ قیمتی گھڑی ہے میرا خیال ہے اس کے دو ہزار تو مل ہی جائیں گے باقی ہزار تو ہم ملا سکتے ہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اب یہ برتن سمیٹ لو‘ وقت زیادہ ہورہا ہے۔‘‘
امینہ بیگم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر پھر خاموش رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ انہیں یہ گھڑی کس قدر عزیز تھی۔ مشکل سے مشکل معاشی حالات میں بھی انہوں نے اسے فروخت نہیں کیا تھا لیکن اب وہ کتنی آسانی سے اسے فروخت کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اس کے باوجود امینہ بیگم جانتی تھیں کہ انہیں گھڑی بیچنے کا دکھ تو ہوگا‘ دوسری طرف ان کے اکلوتے بیٹے عمران کی تعلیم کا معاملہ تھا۔ کالج کی فیس دینی تھی۔
دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ عمران بڑا آفیسر بنے‘ خاص طور پر فاروق صاحب اکثر یہ کہتے تھے کہ میں تو زندگی بھر چپراسی رہا لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا آفیسر بنے۔ ان کے بیٹے عمران کو بھی اپنے والدین کی خواہش کا احترام تھا‘ اس لیے وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کررہا تھا۔ اپنے چھوٹے موٹے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ ٹیوشنز بھی پڑھاتا تھا۔ اس نے تو کئی بار نوکری کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ باپ کا سہارا بن جائے مگر فاروق صاحب نے اسے سختی سے منع کردیا تھا۔
’’ہر گز نہیں۔۔۔ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شوق سے نوکری کرتے رہنا‘ ابھی درمیان سے پڑھائی ادھوری چھوڑ کر نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن ابو۔۔۔‘‘ عمران نے کہنا چاہا۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں‘ جو کہہ دیا سو کہہ دیا اگر نوکری ہی کروانی ہوتی تو اتنا پڑھانے کی ضرورت کیا تھی تمہیں‘ ابھی اگر نوکری کرنے نکلو گے تو زیادہ سے زیادہ کلرک بھرتی ہوگے‘ میں تمہیں بڑا آفیسر بنانا چاہتا ہوں بیٹا۔‘‘
باپ کی ضد کے آگے عمران نے ہمیشہ ہتھیار ڈالے تھے‘ وہ بہت دل لگا کر محنت سے تعلیم حاصل کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اسے پڑھارہے ہیں‘ وہ انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جناب! میرا کام ہوا یا نہیں؟‘‘ آنے والے جوان آدمی نے سلیم صاحب سے پوچھا۔
’’کون سا کام؟‘‘ سلیم صاحب نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ کاغذات کی الٹ پلٹ میں مصروف ہوگئے۔
’’سر! وہ جو میری فائل آپ کے پاس ہے شمشاد اینڈسنز والی۔۔۔‘‘ اس آدمی نے قدرے لجاجت سے کہا۔ ’’پندرہ دن سے چکر کاٹ رہا ہوں سر جی‘ کچھ تو کریں۔‘‘
سلیم صاحب پوری طرح ا س کی جانب متوجہ ہوگئے۔ ’’اچھا اچھا ہاں۔۔۔ یاد آگیا۔۔۔وہ والی فائل‘ آپ کو تو نوٹس بھی بھجوایا گیا تھا ٹیکس بھروانے کا۔۔۔‘‘
’’جی سر! سر اتنی تو ہماری انکم نہیں ہے جتنا ٹیکس لگا کر بھیجا گیا ہے‘ آپ کے تو ہاتھ کا کام ہے۔‘‘ وہ قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولا۔ ’’سر آپ اسے کم کرسکتے ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ مشکل کام ہے۔ اتنی آسانی سے کم نہیں ہوسکتا‘ تمام پروسس دوبارہ کرنا ہوگا‘ نئی فائل بنے گی۔ آپ نے تو بس کہہ دیا کہ کم کردیں۔‘‘ سلیم صاحب کا لہجہ روکھا اور بے زار کن ہوگیا تھا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے سر! میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘
’’سمجھتے ہیں تو پھر ضد نہ کریں بھائی! جتنا ٹیکس لکھ کر بھیجا گیا ہے وہ بھردیں۔‘‘
’’کوئی تو رستہ نکالیں سر!‘‘
سلیم صاحب نے اس بار اسے غور سے دیکھا پھر اپنے دائیں بائیں نظر ڈال کر کہا۔ ’’بیٹھیں۔۔۔!‘‘ وہ جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’شکریہ سر۔۔۔!‘‘
سلیم صاحب نے گلا کھنکار کر ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ہاں اب بتائیں‘ چلیں آپ ہی کوئی راستہ نکالیں۔‘‘ ان کا لہجہ معنی خیز تھا۔ آدمی بے وقوف نہیں تھا‘ سمجھ گیا۔ وہ راستے کی قیمت دریافت کرنے لگا۔ اپنی نشست پر بیٹھے امین صاحب ان دونوں کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔ اسی لمحے ڈائریکٹر کے روم سے فاروق بابا باہر آئے۔
’’سلیم صاحب یہ بڑے صاحب نے دی ہے۔‘‘ فاروق بابا نے بتایا اور ساتھ ہی ایک نظر وہاں بیٹھے شخص پر ڈالی۔
’’اچھا اچھا‘ ٹھیک ہے‘ میں دیکھ لوں گا۔‘‘ سلیم صاحب تھوڑا گھبرا گئے۔فاروق بابا چلے گئے۔
’’ہاں تو سر جی! پھرپچیس طے ہیں نا۔۔۔؟‘‘ سامنے بیٹھے آدمی نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا۔
’’کام مشکل ہے بھئی‘ بڑا رسک بھی ہے۔ میں صرف چالیس کی ڈیمانڈ کررہا ہوں۔‘‘ سلیم صاحب نے اس کی فائل کی ورق گردانی کرنا شروع کردی۔
’’آپ کو فائل مل گئی؟‘‘ اچانک ایک آواز ابھری۔
سلیم صاحب نے چونک کر سر اٹھایا اور بوکھلا کر کھڑے ہوگئے۔ سامنے نیا نوجوان ڈائریکٹر کھڑا تھا۔
’’کک۔۔۔ کون سی۔۔۔ کون سی فائل؟‘‘ وہ ہکلانے لگے۔ ان کے چہرے پر ایک دم ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
’’ابھی فاروق بابا نے جو دی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ تو مل گئی۔‘‘
’’تو اس میں اتنا گھبرانے والی کون سی بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے انہیں غور سے دیکھا پھر ایک نگاہ کرسی پر بیٹھتے شخص پر ڈالی۔ ’’کوئی کام ہے آپ کو؟‘‘
’’ہاں جی! وہ میری فائل ہے ان کے پاس۔‘‘ آدمی کے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔ ’’یہ جو سامنے رکھی ہے۔‘‘
ڈائریکٹر نے اس کی فائل سلیم صاحب کے سامنے سے اٹھائی اور ایک نظر کاغذات پر ڈال کر کہا۔
’’اس میں نوٹس کی کاپی بھی منسلک ہے‘ اب کیا پرابلم ہے؟‘‘
’’سر! میں کہہ رہا تھا کہ شاید ٹیکس زیادہ لگایا گیا ہے‘ اسے ذرا دیکھ لیں۔‘‘
’’اس کے اندراج تو بتارہے ہیں کہ تمام فیگرز درست ہیں۔‘‘ڈائریکٹر نے فائل کا دوبارہ جائزہ لیا۔ ’’آپ کو اس میں درج ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوگی۔‘‘ پھر وہ سلیم صاحب کی طرف مڑا۔ ’’یہ فائل آپ نے مجھے تو نہیں دکھائی؟ کب سے ہے یہ آپ کے پاس؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔‘‘ سلیم صاحب کے تو چھکے چھوٹ گئے۔‘‘
’’اسے ایک ہفتہ ہوا ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے آدمی سے پوچھا۔
’’جی نہیں سر! پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔‘‘ بے اختیار آدمی نے سچ بول دیا۔
ڈائریکٹر نے خاموش نظروں سے سلیم صاحب کو گھورا اور فائل لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے کہا تھا ناکہ ہوشیار رہنا۔‘‘ امین صاحب دبے لہجے میں بول رہے تھے۔ ’’لگتا ہے کہ یہ مخبری فاروق بابا نے کی ہے۔‘‘
’’بڑا بے عزت کیا تھا ڈائریکٹر نے اپنے روم میں بلا کر۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بتانے لگے۔
’’ظاہر ہے‘ وہ تو کرنا تھا۔ ایک اہم بات بتاؤں میں آپ کو؟‘‘ امین صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ ’’کل اتفاق سے میں چھٹی کے بعد بھی دیر تک آفس میں موجود تھا پھر میں نکل کر بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کررہا تھا تو میں نے ڈائریکٹر کو کار میں جاتے دیکھا‘ پتا ہے اس کے ساتھ کون بیٹھا تھا۔‘‘
’’کون۔۔۔؟‘‘ سلیم صاحب نے نظریں اٹھائیں
’’یہی آپ کے فاروق بابا۔۔۔‘‘ امین صاحب نے مسکرا کر بتایا۔
’’اچھا تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے آنکھیں پھاڑیں۔ ’’اتنا شیشے میں اتار لیاہے اس پیون نے ڈائریکٹر کو۔‘‘
’’دیکھ لیں‘ آخر کام بھی تو نکلوانا ہے نا۔‘‘
اتنے میں انہوں نے فاروق بابا کو ڈائریکٹر کے روم سے ٹرے لے کر نکلتے دیکھا‘ جس پر چائے کا کپ رکھا تھا۔ امین صاحب نے فاروق بابا کو آواز دی‘ وہ ان کے پاس آگئے۔
’’جی جناب؟‘‘ فاروق بابا نے مؤدبانہ لہجے میں پوچھا۔
’’بابا! چائے تو پلادیں ہمیں‘ ہم بھی اس آفس میں کام کرتے ہیں۔ جب سے نیا ڈائریکٹر آیا ہے‘ آپ نے تو ہمیں منہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے۔‘‘ امین صاحب کے لہجے میں طنز نمایاں تھا۔ فاروق بابا نے چونک کر انہیں دیکھا پھر آہستگی سے کہا۔
’’میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑے۔
’’ایک منٹ بابا!‘‘ امین صاحب نے انہیں روکا۔ فاروق بابا مڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔ ’’ایک بات پوچھنی تھی آپ سے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘
’’آپ نئے ڈائریکٹر کے ساتھ آفس آتے جاتے ہیں اس کی گاڑی میں؟‘‘ امین صاحب نے گال کھجاتے ہوئے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مزید کہا۔ ’’میں نے دیکھا تھا آپ کو اس کے ساتھ گاڑی میں۔‘‘
فاروق بابا کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔
’’وہ۔۔۔ کل انہوں نے زبردستی بٹھالیا تھا‘ ورنہ میں تو بس میں آتا جاتا ہوں۔‘‘
’’اوکے! بس یہی معلوم کرنا تھا۔‘‘ امین صاحب مسکرادیئے۔ فاروق بابا چلے گئے۔
’’دیکھا‘ صحیح کہا تھا نا میں نے؟‘‘
’’یار امین صاحب! مجھے تو لگتا ہے یہ بڈھا مخبریاں کرتا رہے گا اور ڈائریکٹر ہمیں کھانے کمانے نہیں دے گا۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بول رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امی۔۔۔‘‘ عمران اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا جہاں امینہ بیگم کولر میں پانی بھررہی تھیں۔ ’’یہ آج کل ابو اتنی دیر میں کیوں آرہے ہیں؟ ان کی چھٹی تو شام میں ہوجاتی ہے۔‘‘
’’کام زیادہ ہے نا آفس میں۔‘‘ امینہ بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’اس لیے رکنا پڑتا ہے۔‘‘
عمران ان کے نزدیک آیا اور کولر اٹھا کر باورچی خانے میں رکھ دیا پھر باہر آکر بولا۔
’’امی! آپ کچھ چھپا رہی ہیں‘ سچ سچ بتائیں؟‘‘
’’میں کیوں چھپانے لگی‘ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ ’’ایک تو گرمی میں کمروں کے اندر بیٹھا نہیں جاتا۔‘‘ وہ دوپٹے سے ہوا جھلنے لگیں۔ عمران نے اپنے کمرے میں سے پیدسٹل فین لاکر صحن میں رکھ دیا اور خود بھی پلنگ پر آبیٹھا۔
’’ اب بتائیں امی! کیا بات ہے؟ دیکھیں جب تک آپ صحیح بات نہیں بتائیں گی‘ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگے گا۔‘‘
امینہ بیگم نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور آہستگی سے بولی۔
’’بیٹا! بولنا نہیں اپنے ابو سے انہوں نے منع کیا تھا مجھے کہ تمہیں نہ بتاؤں۔‘‘
’’وعدہ! میں انہیں نہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’اصل میں۔۔۔‘‘ امینہ بیگم نے اٹک اٹک کر بتانا شروع کیا۔ ’’وہ تمہاری یونیورسٹی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں نا انہیں۔۔۔ انہیں پورا کرنے کے لیے وہ ایک جگہ اور جاتے ہیں نوکری کرنے۔۔۔ چار گھنٹے دیتے ہیں ‘ تھوڑے پیسوں کا آسرا ہوجاتا ہے مگربیٹا! تمہیں میری قسم‘ انہیں کچھ نہ بولنا ورنہ۔۔۔ ورنہ وہ مجھ سے سخت ناراض ہوجائیں گے۔‘‘
عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔وہ چند لمحے اپنی ماں کو دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فاروق بابا۔۔۔‘‘ سلیم صاحب نے زور سے آواز دی۔ ان کی آواز پر آفس کے لوگ چونک کر انہیں دیکھنے لگے۔ فاروق بابا تیزی سے ان کی جانب آئے۔
’’جی سر۔۔۔ جی؟‘‘ فاروق بابا نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’یہاں کی صفائی کس کی ذمہ داری ہے میری یا آپ کی؟‘‘ سلیم صاحب کاٹ کھانے کو دوڑے۔
’’میری ہے سر!‘‘
’’تو پھر یہ ٹیبل دیکھیں میری۔۔۔ اس کی صفائی کیا میں آکر کیا کروں روزانہ؟‘‘ انہوں نے ٹیبل کی ٹاپ پر انگلی پھیر کر بتایا۔
’’سر میں روز آکر سب سے پہلے تمام ٹیبل صاف کرتا ہوں۔‘‘ فاروق بابا کا رنگ ہلکا پڑگیا تھا۔
’’پتا نہیں کیسی صفائی کرتے ہیں‘ بس ایک ہلکا سا کپڑا مارنے کو صفائی نہیں کہتے۔ ذرا ہاتھ جما کر صاف کیا کریں۔‘‘ سلیم صاحب اپنے اندر کا دبا غصہ ان پر اتار رہے تھے۔
’’کیا ہوگیا سلیم صاحب! آرام سے۔۔۔ آرام سے۔۔۔ اس میں اتنا غصہ کرنے والی بات کون سی ہے۔‘‘ امین صاحب اور دیگر افسر وہیں ان کے پاس آگئے تھے۔ ’’اب ان بے چارے فاروق صاحب کے جسم میں جتنی طاقت ہوگی اتنا ہی کریں گے نا۔‘‘
’’جب نہیں ہوتا کام تو گھر بیٹھ جائیں‘ کسی نے زبردستی تو نہیں کہا نا کام کا۔‘‘
’’ارے صاحب! اب تو یہ بے چارے ویسے ہی ریٹائر ہونے والے ہیں‘ کچھ دنوں کی بات ہے۔‘‘ امین صاحب بڑی چالاکی اور غیر محسوس طریقے سے فاروق بابا کی حمایت کررہے تھے۔ ’’چلیں چھوڑیں‘ صبح صبح غصہ نہ کریں‘ جائیں بابا! آپ چائے پلادیں ہمیں۔‘‘
اس لمحے ڈائریکٹر وہاں داخل ہوا تھا۔ اس نے لوگوں کو سلیم صاحب کی ٹیبل کے پاس دیکھا تو وہاں چلا آیا۔
’’خیریت تو ہے نا؟‘‘ اس نے فاروق بابا اور پھر امین صاحب کو دیکھا‘ وہ ان کے نزدیک تھے۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘ کسی کے بولنے سے قبل فاروق بابا بول پڑے۔
’’کچھ نہیں سر! وہ بس سلیم صاحب کو فاروق بابا سے تھوڑی شکایت ہوگئی تھی کہ ان کی ٹیبل ٹھیک سے صاف نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے عام سے انداز میں کہا۔ سلیم صاحب نے انہیں گھور کر دیکھا۔
’’جی سلیم صاحب! یہ ٹھیک بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے سلیم صاحب سے استفسار کیا۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ بس مجھے ایسا لگا تھا ورنہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ سلیم صاحب گڑبڑا گئے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ صفائی تو روز کی طرح ٹھیک ہوئی تھی‘ بس انہیں تو غصہ نکالنا تھا۔
’’سر میں آئندہ خیال رکھوں گا۔ ‘‘ فاروق بابا آہستہ سے بولے۔ ’’مجھ سے کوتاہی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’اوکے ! سلیم صاحب کی ٹیبل ٹھیک طرح سے صاف کردیا کریں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈائریکٹر اپنے روم میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ آفس میں آج یہ چھوٹی سی پارٹی کس لیے رکھی گئی ہے؟‘‘ ڈائریکٹر بول رہا تھا۔ بڑے ہال میں آفس کے تمام افراد جمع تھے۔ بڑی ٹیبل پر کھانے پینے کی بہت سی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ’’آج اس آفس کے پرانے خدمت گار فاروق بابا کا آخری دن ہے۔ اب وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ مجھ سے زیادہ بہتر آپ لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے کتنی محنت اور لگن سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور برسوں تک اس آفس کے لوگوں کی خدمت کی۔ آج میں آپ کو فاروق بابا کے بارے میں وہ بات بتانے جارہا ہوں جو آپ میں سے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
تمام افراد خاموشی سے ڈائریکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ فاروق بابا کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو ڈائریکٹر نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے روک دیا لیکن سلیم صاحب درمیان میں بول اٹھے۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ ان کے بارے میں کیا بتانے والے ہیں۔‘‘ ڈائریکٹر نے ایک نظر انہیں دیکھا او رمسکرا کر بولے۔
’’لیکن سلیم صاحب! دوسرے افراد نہیں جانتے۔ میں انہیں بتادوں کہ فاروق بابا کا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے‘ فاروق بابا کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر بنے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھی تعلیم دی‘ اچھے اسکول اور کالج میں پڑھایا۔ اس کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے‘ بہت سی قربانیاں دیں‘ خواہش یہی تھی کہ وہ ان کی طرح پیون نہ بنے۔‘‘ اتنا کہہ کر ڈائریکٹرچند لمحوں کے لیے رکا۔ اس وقت سلیم صاحب دوبارہ بول پڑے۔
’’مجھ سے بھی فاروق بابا نے کچھ عرصہ پہلے اپنے بیٹے کے لیے نوکری کا کہاتھا۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ ڈائریکٹر نے سر ہلایا۔ ’’انہوں نے آپ سے ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں سے کہہ رکھاتھا لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘‘
’’سر جی! رہنے دیں۔۔۔ جانے دیں اس بات کو۔‘‘ اچانک فاروق بابا کی آواز ابھری۔ ڈائریکٹر ان کی طرف مڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اب آپ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں‘ اب میں آپ کا سر جی نہیں۔۔۔ بیٹا ہوں ابو! آپ کی قسم کو میں نے پورا کیا ہے۔‘‘
کیا۔۔۔؟‘‘ ہال میں تحیر خیز آوازیں گونجیں۔ لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
’’جی ہاں۔۔۔ فاروق بابا میرے والد ہیں اور میں ہی ان کا وہ بیٹا ہوں‘ جس کے بارے میں میں نے ابھی بتایا تھا۔‘‘ ڈائریکٹر نے بات آگے بڑھائی۔ ’’انسان چاہے کچھ بھی کرلے‘ ہوتا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔ میرٹ پر میری سلیکشن ہوگئی‘ جب کہ اس نوکری کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لاکھوں روپے دینے کو تیار تھے۔ میں نے ڈیوٹی جوائن کرتے ہی اپنے والد سے کہا کہ اب وہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے سختی سے انکار کردیا اورکہا کہ جس نوکری کی وجہ سے پیسے کما کرمیں نے تمہیں تعلیم دلوائی اور اس مقام تک پہنچایا میں اس سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔ یہ میرے لیے نوکری نہیں عبادت ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی قسم دی کہ میں آفس میں کسی کو نہ بتاؤں کہ ہمارا رشتہ کیا ہے۔ آفس میں تم میرے آفیسر رہوگے‘ میں ان کی قسم کے آگے مجبور ہوگیا تھا۔ یہ مجبوری آج ختم ہوچکی ہے۔ میرے ابو کو یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں آیا کریں یا واپس گھر جائیں‘ کبھی کبھی میں زبردستی انہیں گاڑی میں یہ کہہ کر بٹھالیتا تھا کہ اب تو ڈیوٹی ٹائم ختم ہوچکا ہے‘ آپ مجھے گناہ گار نہ کریں۔ آخری بات یہ کہ انہوں نے مجھ سے کبھی کسی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔‘‘
سلیم صاحب‘ امین صاحب اور دیگر افراد منہ کھولے یہ سب سن رہے تھے۔ یہ سب ان کے لیے حیرت انگیز واقعہ تھا۔ سلیم صاحب شرمندگی کے مارے زمین میں گڑھے جارہے تھے۔ اب ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی باقی نہ رہی تھی کہ وہ فاروق بابا جیسی عظیم ہستی سے معافی مانگ لیں۔
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...