عبادت۔۔۔دل سے پڑھی جانے والی ایک دل گداز معاشرتی کہانی

لگتا ہے یہ بڑے میاں اس عمر میں آکر تھوڑا کھسک گئے ہیں۔‘‘ امین صاحب نے دبی آواز میں سلیم صاحب سے کہا اور ایک پیپر ان کی میز پر رکھ دیا‘‘ ۔
’’کس کی بات کررہے ہو؟‘‘ سلیم صاحب نے پیپر اٹھا کر ایک نظر دیکھا اور فائل میں لگا دیا۔
’’یہی اپنے پیون فاروق بابا کی۔‘‘ امین صاحب نے کھڑے کھڑے کہا۔
’’کیوں خیریت! کیا ہوگیا انہیں؟‘‘ سلیم صاحب نے مسکرا کر امین صاحب کو دیکھا۔
’’آپ نے شاید نوٹ نہیں کیا۔‘‘ امین صاحب سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوگئے اور قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولے۔ ’’جب سے نئے ڈائریکٹر صاحب آئے ہیں‘ ان کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں وہ بڑے میاں! شاید نمبر بنانے کے چکر میں ہیں۔‘‘
سلیم صاحب ہنس دیئے۔ ’’ارے چھوڑو بھئی‘ کیا پیون کی باتیں لے کر بیٹھ گئے‘ بنانے دو غریب کو اگر نمبر بنا رہے ہیں تو ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘
’’جاتا تو خیر کسی کا کچھ نہیں لیکن آگے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے سلیم صاحب! آپ شاید سمجھ نہیں رہے۔‘‘ امین صاحب نے ذومعنی انداز میں کہا۔
اس بار سلیم صاحب تھوڑا چونکے۔ ’’کیا مطلب؟ ویسے ایک بات تو ہے میں نے بھی نوٹ کیا ہے کہ فاروق بابا نئے ڈائریکٹر کے کمرے کے چکر کچھ زیادہ ہی لگارہا ہے۔‘‘
’’اور ہم اتنے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فاروق بابا بڑا اصول پسند ہے۔ کام سے کام رکھتا ہے اور کبھی کسی کی خوشامد یا چاپلوسی نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے کہا۔ ’’ہے نا یہ بات۔۔۔؟‘‘
’’یہ بات تو ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو معلوم ہوگا کہ فاروق بابا کا ایک جوان لڑکا بھی ہے‘ جس کا کبھی کبھی ذکر کرتا رہتا ہے وہ۔‘‘
’’ہاں پتا ہے‘ تو۔۔۔؟‘‘
’’کچھ عرصے پہلے فاروق بابا نے بتایا تھاکہ وہ اس کی نوکری کے لیے پریشان ہیں۔‘‘
’ہاں‘ بتایا تھا مجھے بھی۔‘‘ سلیم صاحب کچھ کچھ سمجھ رہے تھے۔ ’’بلکہ مجھ سے بھی کہا تھا کہ اسے کہیں نوکری دلوادیں۔‘‘
’’بس تو وہ اسی چکر میں نئے ڈائریکٹر کی خوشامد میں لگا ہوگا۔‘‘ امین صاحب نے اصل بات بیان کردی۔
’’ہاں ہوسکتا ہے خیر ہمیں کیا اور اچھا ہے غریب کا بھلا ہوجائے‘ ویسے بھی اب اس کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے ہیں۔‘‘
’’وہ کچھ بھی کرے‘ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ امین صاحب بڑے محتاط اور نپے تلے الفاظ کا استعمال کررہے تھے۔ ’’فکر صرف اس بات کی ہے کہ بڑے میاں خوشامد کے چکر میں ہماری اچھی بُری باتیں نئے ڈائریکٹر کو نہ بتانا شروع کردیں۔‘‘
’’یعنی مخبری۔۔۔!‘‘ سلیم صاحب کے ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمودار ہوگئیں۔
’’جی جناب!‘‘ امین صاحب نے بھویں اچکائیں۔ ’’اب آپ کو تو پتا ہی ہے کہ یہاں سب کا ایک جیسا حال ہے‘ اوپر کی کمائی کے بغیر گزارہ مشکل ہوجاتا ہے‘ ہماری تو ویسے بھی پبلک ڈیلنگ ہے کچھ لے دے کر ہی کام کیے جاتے ہیں یہاں اگر مخبری کے نتیجے میں ہماری کمائی کا یہ ذریعہ بند ہوگیا تو پھر ہم سوکھی تنخواہ پر کیسے اپنے اخراجات پورے کریں گے؟‘‘
سلیم صاحب نے کرسی کی پشت گاہ سے کمر لگالی اور دونوں ہاتھ سر پر باندھ کر بولے۔ ’’یار! یہ تو آپ نے پریشان کردیا مجھے۔‘‘
’’پریشان نہیں‘ خبردار کیا ہے۔ ذرا بڑے میاں سے بچ بچا کر کام کرنا۔‘‘ امین صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟‘‘ امینہ بیگم نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پانی کا گلاس ٹرے پر رکھ دیا۔ ’’کہاں سے ہوگا تین ہزار کا بندوبست‘ ابھی پچھلے مہینے ہی کتابوں اور یونیفارم پر اتنا خرچہ ہوگیا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے‘ کچھ نہ کچھ بندوبست ہوجائے گا۔‘‘ فاروق صاحب نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پھر اسے خالی کرکے کہا۔ ’’اس سے پہلے بھی تو اللہ نے ہمارا کوئی کام نہیں روکا‘ بے فکر رہو۔‘‘
’’آپ اپنے آفس میں بات کرکے دیکھیں کچھ رقم ادھار لینے کی بعد میں تھوڑے تھوڑے تنخواہ میں سے کٹواتے رہیں۔‘‘
’’ادھار صرف بڑے آفیسروں کو ملتے ہیں‘ ایک پیون کو بھلا کیوں ادھار ملے گا‘ ان شاء اللہ کل میں کہیں نہ کہیں سے پیسے کرلوں گا۔‘‘
’’پرسوں عمران کی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔‘‘ امینہ بیگم نے یاد دلایا۔
’’ابھی کل کا دن ہے ہمارے پاس۔۔۔‘‘
’’تو اب کس کے پاس جائیں گے؟‘‘
’’کسی کے پاس نہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر ہاتھ میں لے لی اور کہا ۔ ’’یہ دیکھو‘ ہوگیا نا بندوبست۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ تو کیا اسے بیچ دیں گے؟‘‘ امینہ بیگم کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوگئے
’’ہاں‘ تو کیا ہوا؟ بیٹے کی پڑھائی سے بڑھ کر تو نہیں ہے نا یہ۔‘‘
’’لیکن۔۔۔ یہ تو آپ کے والد کی نشانی۔۔۔‘‘ امینہ بیگم کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’شاید یہ اسی دن کے لیے اب تک میرے پاس تھی کہ میرے بیٹے کے کام آجائے‘ قیمتی گھڑی ہے میرا خیال ہے اس کے دو ہزار تو مل ہی جائیں گے باقی ہزار تو ہم ملا سکتے ہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اب یہ برتن سمیٹ لو‘ وقت زیادہ ہورہا ہے۔‘‘
امینہ بیگم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر پھر خاموش رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ انہیں یہ گھڑی کس قدر عزیز تھی۔ مشکل سے مشکل معاشی حالات میں بھی انہوں نے اسے فروخت نہیں کیا تھا لیکن اب وہ کتنی آسانی سے اسے فروخت کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اس کے باوجود امینہ بیگم جانتی تھیں کہ انہیں گھڑی بیچنے کا دکھ تو ہوگا‘ دوسری طرف ان کے اکلوتے بیٹے عمران کی تعلیم کا معاملہ تھا۔ کالج کی فیس دینی تھی۔
دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ عمران بڑا آفیسر بنے‘ خاص طور پر فاروق صاحب اکثر یہ کہتے تھے کہ میں تو زندگی بھر چپراسی رہا لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا آفیسر بنے۔ ان کے بیٹے عمران کو بھی اپنے والدین کی خواہش کا احترام تھا‘ اس لیے وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کررہا تھا۔ اپنے چھوٹے موٹے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ ٹیوشنز بھی پڑھاتا تھا۔ اس نے تو کئی بار نوکری کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ باپ کا سہارا بن جائے مگر فاروق صاحب نے اسے سختی سے منع کردیا تھا۔
’’ہر گز نہیں۔۔۔ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شوق سے نوکری کرتے رہنا‘ ابھی درمیان سے پڑھائی ادھوری چھوڑ کر نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن ابو۔۔۔‘‘ عمران نے کہنا چاہا۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں‘ جو کہہ دیا سو کہہ دیا اگر نوکری ہی کروانی ہوتی تو اتنا پڑھانے کی ضرورت کیا تھی تمہیں‘ ابھی اگر نوکری کرنے نکلو گے تو زیادہ سے زیادہ کلرک بھرتی ہوگے‘ میں تمہیں بڑا آفیسر بنانا چاہتا ہوں بیٹا۔‘‘
باپ کی ضد کے آگے عمران نے ہمیشہ ہتھیار ڈالے تھے‘ وہ بہت دل لگا کر محنت سے تعلیم حاصل کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اسے پڑھارہے ہیں‘ وہ انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جناب! میرا کام ہوا یا نہیں؟‘‘ آنے والے جوان آدمی نے سلیم صاحب سے پوچھا۔
’’کون سا کام؟‘‘ سلیم صاحب نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ کاغذات کی الٹ پلٹ میں مصروف ہوگئے۔
’’سر! وہ جو میری فائل آپ کے پاس ہے شمشاد اینڈسنز والی۔۔۔‘‘ اس آدمی نے قدرے لجاجت سے کہا۔ ’’پندرہ دن سے چکر کاٹ رہا ہوں سر جی‘ کچھ تو کریں۔‘‘
سلیم صاحب پوری طرح ا س کی جانب متوجہ ہوگئے۔ ’’اچھا اچھا ہاں۔۔۔ یاد آگیا۔۔۔وہ والی فائل‘ آپ کو تو نوٹس بھی بھجوایا گیا تھا ٹیکس بھروانے کا۔۔۔‘‘
’’جی سر! سر اتنی تو ہماری انکم نہیں ہے جتنا ٹیکس لگا کر بھیجا گیا ہے‘ آپ کے تو ہاتھ کا کام ہے۔‘‘ وہ قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولا۔ ’’سر آپ اسے کم کرسکتے ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ مشکل کام ہے۔ اتنی آسانی سے کم نہیں ہوسکتا‘ تمام پروسس دوبارہ کرنا ہوگا‘ نئی فائل بنے گی۔ آپ نے تو بس کہہ دیا کہ کم کردیں۔‘‘ سلیم صاحب کا لہجہ روکھا اور بے زار کن ہوگیا تھا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے سر! میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘
’’سمجھتے ہیں تو پھر ضد نہ کریں بھائی! جتنا ٹیکس لکھ کر بھیجا گیا ہے وہ بھردیں۔‘‘
’’کوئی تو رستہ نکالیں سر!‘‘
سلیم صاحب نے اس بار اسے غور سے دیکھا پھر اپنے دائیں بائیں نظر ڈال کر کہا۔ ’’بیٹھیں۔۔۔!‘‘ وہ جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’شکریہ سر۔۔۔!‘‘
سلیم صاحب نے گلا کھنکار کر ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ہاں اب بتائیں‘ چلیں آپ ہی کوئی راستہ نکالیں۔‘‘ ان کا لہجہ معنی خیز تھا۔ آدمی بے وقوف نہیں تھا‘ سمجھ گیا۔ وہ راستے کی قیمت دریافت کرنے لگا۔ اپنی نشست پر بیٹھے امین صاحب ان دونوں کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔ اسی لمحے ڈائریکٹر کے روم سے فاروق بابا باہر آئے۔
’’سلیم صاحب یہ بڑے صاحب نے دی ہے۔‘‘ فاروق بابا نے بتایا اور ساتھ ہی ایک نظر وہاں بیٹھے شخص پر ڈالی۔
’’اچھا اچھا‘ ٹھیک ہے‘ میں دیکھ لوں گا۔‘‘ سلیم صاحب تھوڑا گھبرا گئے۔فاروق بابا چلے گئے۔
’’ہاں تو سر جی! پھرپچیس طے ہیں نا۔۔۔؟‘‘ سامنے بیٹھے آدمی نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا۔
’’کام مشکل ہے بھئی‘ بڑا رسک بھی ہے۔ میں صرف چالیس کی ڈیمانڈ کررہا ہوں۔‘‘ سلیم صاحب نے اس کی فائل کی ورق گردانی کرنا شروع کردی۔
’’آپ کو فائل مل گئی؟‘‘ اچانک ایک آواز ابھری۔
سلیم صاحب نے چونک کر سر اٹھایا اور بوکھلا کر کھڑے ہوگئے۔ سامنے نیا نوجوان ڈائریکٹر کھڑا تھا۔
’’کک۔۔۔ کون سی۔۔۔ کون سی فائل؟‘‘ وہ ہکلانے لگے۔ ان کے چہرے پر ایک دم ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
’’ابھی فاروق بابا نے جو دی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ تو مل گئی۔‘‘
’’تو اس میں اتنا گھبرانے والی کون سی بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے انہیں غور سے دیکھا پھر ایک نگاہ کرسی پر بیٹھتے شخص پر ڈالی۔ ’’کوئی کام ہے آپ کو؟‘‘
’’ہاں جی! وہ میری فائل ہے ان کے پاس۔‘‘ آدمی کے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔ ’’یہ جو سامنے رکھی ہے۔‘‘
ڈائریکٹر نے اس کی فائل سلیم صاحب کے سامنے سے اٹھائی اور ایک نظر کاغذات پر ڈال کر کہا۔
’’اس میں نوٹس کی کاپی بھی منسلک ہے‘ اب کیا پرابلم ہے؟‘‘
’’سر! میں کہہ رہا تھا کہ شاید ٹیکس زیادہ لگایا گیا ہے‘ اسے ذرا دیکھ لیں۔‘‘
’’اس کے اندراج تو بتارہے ہیں کہ تمام فیگرز درست ہیں۔‘‘ڈائریکٹر نے فائل کا دوبارہ جائزہ لیا۔ ’’آپ کو اس میں درج ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوگی۔‘‘ پھر وہ سلیم صاحب کی طرف مڑا۔ ’’یہ فائل آپ نے مجھے تو نہیں دکھائی؟ کب سے ہے یہ آپ کے پاس؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔‘‘ سلیم صاحب کے تو چھکے چھوٹ گئے۔‘‘
’’اسے ایک ہفتہ ہوا ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے آدمی سے پوچھا۔
’’جی نہیں سر! پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔‘‘ بے اختیار آدمی نے سچ بول دیا۔
ڈائریکٹر نے خاموش نظروں سے سلیم صاحب کو گھورا اور فائل لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے کہا تھا ناکہ ہوشیار رہنا۔‘‘ امین صاحب دبے لہجے میں بول رہے تھے۔ ’’لگتا ہے کہ یہ مخبری فاروق بابا نے کی ہے۔‘‘
’’بڑا بے عزت کیا تھا ڈائریکٹر نے اپنے روم میں بلا کر۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بتانے لگے۔
’’ظاہر ہے‘ وہ تو کرنا تھا۔ ایک اہم بات بتاؤں میں آپ کو؟‘‘ امین صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ ’’کل اتفاق سے میں چھٹی کے بعد بھی دیر تک آفس میں موجود تھا پھر میں نکل کر بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کررہا تھا تو میں نے ڈائریکٹر کو کار میں جاتے دیکھا‘ پتا ہے اس کے ساتھ کون بیٹھا تھا۔‘‘
’’کون۔۔۔؟‘‘ سلیم صاحب نے نظریں اٹھائیں
’’یہی آپ کے فاروق بابا۔۔۔‘‘ امین صاحب نے مسکرا کر بتایا۔
’’اچھا تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے آنکھیں پھاڑیں۔ ’’اتنا شیشے میں اتار لیاہے اس پیون نے ڈائریکٹر کو۔‘‘
’’دیکھ لیں‘ آخر کام بھی تو نکلوانا ہے نا۔‘‘
اتنے میں انہوں نے فاروق بابا کو ڈائریکٹر کے روم سے ٹرے لے کر نکلتے دیکھا‘ جس پر چائے کا کپ رکھا تھا۔ امین صاحب نے فاروق بابا کو آواز دی‘ وہ ان کے پاس آگئے۔
’’جی جناب؟‘‘ فاروق بابا نے مؤدبانہ لہجے میں پوچھا۔
’’بابا! چائے تو پلادیں ہمیں‘ ہم بھی اس آفس میں کام کرتے ہیں۔ جب سے نیا ڈائریکٹر آیا ہے‘ آپ نے تو ہمیں منہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے۔‘‘ امین صاحب کے لہجے میں طنز نمایاں تھا۔ فاروق بابا نے چونک کر انہیں دیکھا پھر آہستگی سے کہا۔
’’میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑے۔
’’ایک منٹ بابا!‘‘ امین صاحب نے انہیں روکا۔ فاروق بابا مڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔ ’’ایک بات پوچھنی تھی آپ سے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘
’’آپ نئے ڈائریکٹر کے ساتھ آفس آتے جاتے ہیں اس کی گاڑی میں؟‘‘ امین صاحب نے گال کھجاتے ہوئے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مزید کہا۔ ’’میں نے دیکھا تھا آپ کو اس کے ساتھ گاڑی میں۔‘‘
فاروق بابا کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔
’’وہ۔۔۔ کل انہوں نے زبردستی بٹھالیا تھا‘ ورنہ میں تو بس میں آتا جاتا ہوں۔‘‘
’’اوکے! بس یہی معلوم کرنا تھا۔‘‘ امین صاحب مسکرادیئے۔ فاروق بابا چلے گئے۔
’’دیکھا‘ صحیح کہا تھا نا میں نے؟‘‘
’’یار امین صاحب! مجھے تو لگتا ہے یہ بڈھا مخبریاں کرتا رہے گا اور ڈائریکٹر ہمیں کھانے کمانے نہیں دے گا۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بول رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امی۔۔۔‘‘ عمران اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا جہاں امینہ بیگم کولر میں پانی بھررہی تھیں۔ ’’یہ آج کل ابو اتنی دیر میں کیوں آرہے ہیں؟ ان کی چھٹی تو شام میں ہوجاتی ہے۔‘‘
’’کام زیادہ ہے نا آفس میں۔‘‘ امینہ بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’اس لیے رکنا پڑتا ہے۔‘‘
عمران ان کے نزدیک آیا اور کولر اٹھا کر باورچی خانے میں رکھ دیا پھر باہر آکر بولا۔
’’امی! آپ کچھ چھپا رہی ہیں‘ سچ سچ بتائیں؟‘‘
’’میں کیوں چھپانے لگی‘ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ ’’ایک تو گرمی میں کمروں کے اندر بیٹھا نہیں جاتا۔‘‘ وہ دوپٹے سے ہوا جھلنے لگیں۔ عمران نے اپنے کمرے میں سے پیدسٹل فین لاکر صحن میں رکھ دیا اور خود بھی پلنگ پر آبیٹھا۔
’’ اب بتائیں امی! کیا بات ہے؟ دیکھیں جب تک آپ صحیح بات نہیں بتائیں گی‘ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگے گا۔‘‘
امینہ بیگم نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور آہستگی سے بولی۔
’’بیٹا! بولنا نہیں اپنے ابو سے انہوں نے منع کیا تھا مجھے کہ تمہیں نہ بتاؤں۔‘‘
’’وعدہ! میں انہیں نہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’اصل میں۔۔۔‘‘ امینہ بیگم نے اٹک اٹک کر بتانا شروع کیا۔ ’’وہ تمہاری یونیورسٹی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں نا انہیں۔۔۔ انہیں پورا کرنے کے لیے وہ ایک جگہ اور جاتے ہیں نوکری کرنے۔۔۔ چار گھنٹے دیتے ہیں ‘ تھوڑے پیسوں کا آسرا ہوجاتا ہے مگربیٹا! تمہیں میری قسم‘ انہیں کچھ نہ بولنا ورنہ۔۔۔ ورنہ وہ مجھ سے سخت ناراض ہوجائیں گے۔‘‘
عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔وہ چند لمحے اپنی ماں کو دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فاروق بابا۔۔۔‘‘ سلیم صاحب نے زور سے آواز دی۔ ان کی آواز پر آفس کے لوگ چونک کر انہیں دیکھنے لگے۔ فاروق بابا تیزی سے ان کی جانب آئے۔
’’جی سر۔۔۔ جی؟‘‘ فاروق بابا نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’یہاں کی صفائی کس کی ذمہ داری ہے میری یا آپ کی؟‘‘ سلیم صاحب کاٹ کھانے کو دوڑے۔
’’میری ہے سر!‘‘
’’تو پھر یہ ٹیبل دیکھیں میری۔۔۔ اس کی صفائی کیا میں آکر کیا کروں روزانہ؟‘‘ انہوں نے ٹیبل کی ٹاپ پر انگلی پھیر کر بتایا۔
’’سر میں روز آکر سب سے پہلے تمام ٹیبل صاف کرتا ہوں۔‘‘ فاروق بابا کا رنگ ہلکا پڑگیا تھا۔
’’پتا نہیں کیسی صفائی کرتے ہیں‘ بس ایک ہلکا سا کپڑا مارنے کو صفائی نہیں کہتے۔ ذرا ہاتھ جما کر صاف کیا کریں۔‘‘ سلیم صاحب اپنے اندر کا دبا غصہ ان پر اتار رہے تھے۔
’’کیا ہوگیا سلیم صاحب! آرام سے۔۔۔ آرام سے۔۔۔ اس میں اتنا غصہ کرنے والی بات کون سی ہے۔‘‘ امین صاحب اور دیگر افسر وہیں ان کے پاس آگئے تھے۔ ’’اب ان بے چارے فاروق صاحب کے جسم میں جتنی طاقت ہوگی اتنا ہی کریں گے نا۔‘‘
’’جب نہیں ہوتا کام تو گھر بیٹھ جائیں‘ کسی نے زبردستی تو نہیں کہا نا کام کا۔‘‘
’’ارے صاحب! اب تو یہ بے چارے ویسے ہی ریٹائر ہونے والے ہیں‘ کچھ دنوں کی بات ہے۔‘‘ امین صاحب بڑی چالاکی اور غیر محسوس طریقے سے فاروق بابا کی حمایت کررہے تھے۔ ’’چلیں چھوڑیں‘ صبح صبح غصہ نہ کریں‘ جائیں بابا! آپ چائے پلادیں ہمیں۔‘‘
اس لمحے ڈائریکٹر وہاں داخل ہوا تھا۔ اس نے لوگوں کو سلیم صاحب کی ٹیبل کے پاس دیکھا تو وہاں چلا آیا۔
’’خیریت تو ہے نا؟‘‘ اس نے فاروق بابا اور پھر امین صاحب کو دیکھا‘ وہ ان کے نزدیک تھے۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘ کسی کے بولنے سے قبل فاروق بابا بول پڑے۔
’’کچھ نہیں سر! وہ بس سلیم صاحب کو فاروق بابا سے تھوڑی شکایت ہوگئی تھی کہ ان کی ٹیبل ٹھیک سے صاف نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے عام سے انداز میں کہا۔ سلیم صاحب نے انہیں گھور کر دیکھا۔
’’جی سلیم صاحب! یہ ٹھیک بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے سلیم صاحب سے استفسار کیا۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ بس مجھے ایسا لگا تھا ورنہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ سلیم صاحب گڑبڑا گئے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ صفائی تو روز کی طرح ٹھیک ہوئی تھی‘ بس انہیں تو غصہ نکالنا تھا۔
’’سر میں آئندہ خیال رکھوں گا۔ ‘‘ فاروق بابا آہستہ سے بولے۔ ’’مجھ سے کوتاہی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’اوکے ! سلیم صاحب کی ٹیبل ٹھیک طرح سے صاف کردیا کریں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈائریکٹر اپنے روم میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ آفس میں آج یہ چھوٹی سی پارٹی کس لیے رکھی گئی ہے؟‘‘ ڈائریکٹر بول رہا تھا۔ بڑے ہال میں آفس کے تمام افراد جمع تھے۔ بڑی ٹیبل پر کھانے پینے کی بہت سی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ’’آج اس آفس کے پرانے خدمت گار فاروق بابا کا آخری دن ہے۔ اب وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ مجھ سے زیادہ بہتر آپ لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے کتنی محنت اور لگن سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور برسوں تک اس آفس کے لوگوں کی خدمت کی۔ آج میں آپ کو فاروق بابا کے بارے میں وہ بات بتانے جارہا ہوں جو آپ میں سے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
تمام افراد خاموشی سے ڈائریکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ فاروق بابا کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو ڈائریکٹر نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے روک دیا لیکن سلیم صاحب درمیان میں بول اٹھے۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ ان کے بارے میں کیا بتانے والے ہیں۔‘‘ ڈائریکٹر نے ایک نظر انہیں دیکھا او رمسکرا کر بولے۔
’’لیکن سلیم صاحب! دوسرے افراد نہیں جانتے۔ میں انہیں بتادوں کہ فاروق بابا کا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے‘ فاروق بابا کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر بنے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھی تعلیم دی‘ اچھے اسکول اور کالج میں پڑھایا۔ اس کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے‘ بہت سی قربانیاں دیں‘ خواہش یہی تھی کہ وہ ان کی طرح پیون نہ بنے۔‘‘ اتنا کہہ کر ڈائریکٹرچند لمحوں کے لیے رکا۔ اس وقت سلیم صاحب دوبارہ بول پڑے۔
’’مجھ سے بھی فاروق بابا نے کچھ عرصہ پہلے اپنے بیٹے کے لیے نوکری کا کہاتھا۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ ڈائریکٹر نے سر ہلایا۔ ’’انہوں نے آپ سے ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں سے کہہ رکھاتھا لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘‘
’’سر جی! رہنے دیں۔۔۔ جانے دیں اس بات کو۔‘‘ اچانک فاروق بابا کی آواز ابھری۔ ڈائریکٹر ان کی طرف مڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اب آپ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں‘ اب میں آپ کا سر جی نہیں۔۔۔ بیٹا ہوں ابو! آپ کی قسم کو میں نے پورا کیا ہے۔‘‘
کیا۔۔۔؟‘‘ ہال میں تحیر خیز آوازیں گونجیں۔ لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
’’جی ہاں۔۔۔ فاروق بابا میرے والد ہیں اور میں ہی ان کا وہ بیٹا ہوں‘ جس کے بارے میں میں نے ابھی بتایا تھا۔‘‘ ڈائریکٹر نے بات آگے بڑھائی۔ ’’انسان چاہے کچھ بھی کرلے‘ ہوتا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔ میرٹ پر میری سلیکشن ہوگئی‘ جب کہ اس نوکری کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لاکھوں روپے دینے کو تیار تھے۔ میں نے ڈیوٹی جوائن کرتے ہی اپنے والد سے کہا کہ اب وہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے سختی سے انکار کردیا اورکہا کہ جس نوکری کی وجہ سے پیسے کما کرمیں نے تمہیں تعلیم دلوائی اور اس مقام تک پہنچایا میں اس سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔ یہ میرے لیے نوکری نہیں عبادت ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی قسم دی کہ میں آفس میں کسی کو نہ بتاؤں کہ ہمارا رشتہ کیا ہے۔ آفس میں تم میرے آفیسر رہوگے‘ میں ان کی قسم کے آگے مجبور ہوگیا تھا۔ یہ مجبوری آج ختم ہوچکی ہے۔ میرے ابو کو یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں آیا کریں یا واپس گھر جائیں‘ کبھی کبھی میں زبردستی انہیں گاڑی میں یہ کہہ کر بٹھالیتا تھا کہ اب تو ڈیوٹی ٹائم ختم ہوچکا ہے‘ آپ مجھے گناہ گار نہ کریں۔ آخری بات یہ کہ انہوں نے مجھ سے کبھی کسی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔‘‘
سلیم صاحب‘ امین صاحب اور دیگر افراد منہ کھولے یہ سب سن رہے تھے۔ یہ سب ان کے لیے حیرت انگیز واقعہ تھا۔ سلیم صاحب شرمندگی کے مارے زمین میں گڑھے جارہے تھے۔ اب ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی باقی نہ رہی تھی کہ وہ فاروق بابا جیسی عظیم ہستی سے معافی مانگ لیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں