رائیونڈتبلیغی مرکز اقوام عالم میں پاکستان کاسرمایہ افتخار

پاکستان حرمین شریفین کے بعدعالم اسلام کامرکزومحورہے قدرت نے اسے روحانی ومادی ہردواعتبارسے سیرابی وفراوانی عطاکی ہے۔برصغیرمیں تبلیغ واحیائے دین کے مراکزوخانقاہوں سے مختلف اصلاحی وتبلیغی تحریکیں چلیں جن میں سے ہرایک کی اپنی جگہ اہمیت وافادیت اوردائرہ کارہے لیکن مولاناالیاس کاندھلوی ؒکی دینی دعوت کی تحریک جسے عرف عام میں ”تبلیغی جماعت“کہاجاتا ہے اس اعتبارسے دیگرتمام تحریکوں سے ممتازہے کہ ہندوستان کی بنگلہ مسجدمرکزنظام الدین اولیاء سے شروع ہونے والی یہ تحریک آج دنیاکے ساتوں براعظم کی سب سے بڑی اسلامی غیرسیاسی تبلیغی تحریک بن چکی ہے تقسیم کے بعدپاکستان میں رائیونڈکے مقام پراس کامرکزقائم کیاگیاجوآج پوری دنیاکے مسلمانوں کے لئے ایک مرکزکی حیثیت رکھتاہے یہاں سے پوری دنیامیں تبلیغی قافلے روانہ کیے جاتے ہیں اورپوری دنیاسے ہررنگ ونسل اورمسلک کے مسلمان یہاں دعوت وتبلیغ کی محنت سیکھنے آتے ہیں اس تحریک کی کامیابی میں رضائے الہی،ایثاروقربانی کاجذبہ،اسلام اورمسلمانوں کااحترام،تواضع وانکساری،فرائض کی ادائیگی کااہتمام کے علاوہ ایک بنیادی چیزیہ ہے کہ یہ خالصتا احیائے اسلام کی تحریک ہے نہ کہ کسی مخصوص مکتبہ فکرومسلک کی یہی وجہ ہے کہ تبلیغی مرکزرائیونڈمیں حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی اوردیگرمسالک سے تعلق رکھنے والے افرادکی آمدورفت ہے اورکبھی ان کے درمیان اختلاف پیدانہیں ہوا۔پوری دنیامیں اس تحریک نے پاکستان بارے مثبت پیغام دیاہے۔
اس جماعت سے وابستہ افرادکی عبادت وریاضت،سادگی وعاجزی اورفقیرانہ وزاہدانہ زندگی کودیکھ کرقرون اولی کی یادتازہ ہوجاتی ہے زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے افراداس میں وقت لگاسکتے ہیں فقراء سے سلاطین وقت بھی اس تحریک کاحصہ بن سکتے ہیں خوبصورت محلات میں بہترین بستروں پرآرام کرنے والے اس جماعت میں نکل کرچٹائیوں پرسونے کواپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔ایک امیرکی فرمانبرداری میں اپنی ذاتی رائے اورخواہش کوقربان کرنے کاجذبہ باہمی محبت وبرداشت کوفروغ دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جماعت میں وقت لگانے والوں کی زندگیوں میں بہت جلدانقلاب برپاہوجاتا ہے وہ معصیت وغفلت کی زندگی سے توبہ کرکے اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی فرمانبرداری والی زندگی بسرکرنے لگ جاتے ہیں۔اورصرف اپنی زات کی فکرہی نہیں بلکہ سارے عالم کی اصلاح کواپنافریضہ جانتے ہوئے اس کے لئے شب وروزکوشش کرتے ہیں۔معاشرے کے ایسے افرادجن سے لوگ سلام کرناگوارانہیں کرتے انہیں بھی یہ جماعت خوش آمدیدکہتی ہے۔
ہرکوئی دوسرے کاادب واحترام کرتاہے سب کاایک ہی مشن ہے کہ کس طرح میری اصلاح ہوجائے اورمیں سارے عالم کے انسانوں کی ہدایت کاذریعہ بن جاؤں۔اسی جذبہ کولئے بستی بستی،نگرنگردیوانہ وارگھومنا،لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں سہنا،گرمی سردی برداشت کرناصبرکرنااس تحریک سے وابستہ افرادکاطرہ امتیازہے۔جب ان سے سوال کیاجاتاہے کہ وہ اپناراحت وآرام،گھربار،بیوی بچے سب کچھ کس طرح قربان کرنے پرآمادہ ہوجاتے ہیں؟توان کاجواب یہ ہوتاہے کہ دوجہاں کے سردارامام الانبیاء ﷺاوران کے مبارک صحابہ کرام ؓنے دین اسلام کی تبلیغ کے لئے یہ ساری مشکلات برداشت کی ہیں اوران کے بعدیہ ذمہ داری ہم پرعائدہوتی ہے کہ ہم اس فریضہ کوسرانجام دیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیارکرنی ہے توان کی راہ اختیارکرے جواس دنیاسے گزرچکے ہیں اوروہ حضرت محمدْﷺکے صحابہ ؓہیں جواس امت کاافضل ترین طبقہ ہے قلوب ان کے پاک تھے علم ان کاگہراتھاتکلف وتصنع ان میں کالعدم تھااللہ تعالی نے انہیں اپنے نبی ﷺکی صحبت اوردین کی اشاعت کے لئے چُناتھااس لئے ان کی فضیلت اوربرگزیدگی کوپہچانوان کے نقش قدم پرچلواورطاقت بھران کے اخلا قاوران کی سیرتوں کومضبوط پکڑواس لیے کہ وہی ہدایت کے راستے پرتھے۔
بانی تبلیغی جماعت مولاناالیاس کاندھلوی ؒ ایک فرشتہ صفت انسان تھے خشیت وانابت،حلم وتواضع اوررحمت وشفقت سے بہرہ ورتھے۔مسلمانوں کی اسلام سے دوری،ہندوانہ رسم ورواج کی پیروی وہ عوامل تھے جن کی اصلاح بارے آپ بہت متفکررہتے اکثراوقات گریہ وزار ی اورلوگوں کودین کی دعوت دینے میں گزارتے آپ کی نانی جان رابعہ سیرت نیک خاتون تھیں اکثران کے بارے فرماتیں کہ ”الیاس مجھے تجھ سے صحابہ کرام ؓکی خوشبوآتی ہے“کبھی شفقت سے پیٹھ پرہاتھ رکھ کرفرماتیں کہ کیابات ہے کہ ”تیرے ساتھ مجھے صحابہ ؓ کی صورتیں چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔شیخ الہندمولانامحمودالحسن ؒفرمایاکرتے تھے ”کہ میں جب مولوی الیاس کو دیکھتاہوں تومجھے صحابہ ؓیادآجاتے ہیں“
1944ء میں بانی تبلیغی جماعت مولاناالیاس کاندھلوی ؒکا انتقال فرماگئے جس کے بعدان کے صاحبزادہ مولانا یوسف ؒکو امارت سونپی گئی جنوں نے اپنے والدمحترم کی طرح تقوی وللہیت اورامت پناکی فکرلیے ان کے اس مشن کو مزیدآگے بڑھایا اورپھرآپ کے ہی زمانہ میں دعوت وتبلیغ کی محنت پاکستان سے باہردیگرممالک میں متعارف ہوئی۔
اللہ تعالی کی ذات پر اعتمادوتوکّل، ایمانی قوّت،نمازودعااورحضرات صحابہ کرام ؓکی زندگی سے گہری وافقیت ان کا طرّہ امتیازتھا۔آپ نے عربی زبان میں حیاۃ الصحابہ جیسی عظیم الشان کتاب انتہائی عرق ریزی اورمحبت سے تصنیف کی۔1965ء میں مولانا یوسف کاندھلوی ؒکے انتقال کے بعدجب حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب ؒکوامارت سونپی گئی
دعوت وتبلیغ کی محنت چونکہ ہرگذرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی تھی اورتمام اقوام عالم اس کی عالمگیریت اوراثرانگیزی کی وجہ سے متاثرتھے اس لیے انتظامی مجبوریوں کی بناپرمولانا انعام الحسن صاحب ؒنے ایک مرکزی شورٰی بنادی جس میں ہندوستان اورپاکستان کے بڑے بڑے د س تبلیغی رہنماؤں کو شامل کیا گیا جن میں پاکستان سے محترم حاجی شفیع قریشی ؒ،انجینئربھائی بشیرؒ،ورحاجی عبدالوہاب ؒ،شامل تھے۔1995ء میں مولانا انعام الحسن ؒکی وفات کے بعدپاکستان میں محترم شفیع قریشی صاحبؒکوامارت کی ذمہ داری سونپ دی گئی ان کی وفات کے بعدانجینئربھائی بشیرصاحب ؒپاکستان کی تبلیغی جماعت کے دوسرے امیرمقررہوئے۔جب وہ بھی کچھ عرصہ بعدوفات پاگئے تو1992ء میں بالاتفاق حاجی عبدالوہاب صاحب ؒکو پاکستان کی تبلیغی جماعت کا امیربننے کا شرف حاصل ہواجو ان کی وفات تک رہا۔مرکزی شوری کے ان دس لوگوں میں سے صرف دوحضرات باقی رہ گئے تھے باقی سب وفات پاچکے تھے اس لیے 2010ء کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں پوری دنیا سے آئے تبلیغی جماعت کے سرکردہ مبلّغین کا مشورہ ہواجس میں گیارہ مزیدافرادکومرکزی مجلس شوری میں شامل کیا گیا۔
آج پوری دنیامیں تبلیغی مراکزقائم ہیں اورپاکستان کے رائیوندمرکزکوان تمام مراکزکاہیڈکوارٹرہونے کی حیثیت حاصل ہے۔پاکستان میں دین اسلام کی صحیح نہج پرامن پسندانہ تبلیغ اورنشرواشاعت میں اس کاکردارقابل ستائش ہے یہ تحریک آج تک کسی قسم کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں پائی گئی اس کا صرف ایک ہی منشورہے کہ دین اسلام کی نہج نبوت اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طریقہ پردین اسلام کی دعوت وتبلیغ کرنا۔پاکستان سے باہریورپی ودیگرممالک میں تبلیغی جماعت کوعزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اورغیرمسلم ممالک اس جماعت کواپنے ممالک میں امن کے سفیرکانام دیتے ہوئے ان کااستقبا ل کرتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں