کچھ فرق نہیں تم میں ہم میں

پاکستان ہو یا مصر، دونوں کی عجب کہانی ہے، وہاں بھی انتخابات ہوئے تھے یہاں بھی انتخابات کی روایت پرانی ہے۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ انتخابات انتخابات کھیل کون رہا ہے اور کھیلتا کون رہا ہے۔ اب کوئی مجھے صرف اتنا بتادے کہ جو سارا کھیل بنانے والا ہوتا ہے بھلا وہ کھیل بگاڑنے کا اختیار نہییں رکھتا ہوگا؟۔ کیا وہ چاہے گا کے اس کے بنائے کھیل اور سجائی بساط پر کوئی اور چھا جائے اور اس کی حیثیت ایک مہرے سے بھی کم ہو جائے؟۔ کیا وہ اپنے میدان کی جیت کو پلیٹ میں سجا کر کسی کے حوالے کر دے گا؟۔ 1958 کے بعد سے تا حال بازی ایسی پلٹی کہ بنا بنایا کھیل کسی اور ہی کے قبضہ قدرت میں آگیا۔ اس دن سے تا حال چوہے بلی کا جمہوری کھیل پاکستان میں جاری ہے۔ جس کی بساط ہے وہ دوسرے کو پیشکش تو ضرور کرتا ہے کہ وہ اس کھیل میں شریک ہو، پاس بھی بلاتا ہے، ساتھ بھی بٹھا تا ہے، داؤ پیچ بھی سکھاتا ہے اور “شہ مات” کے ہنر بھی بتاتا ہے لیکن جس وقت بھی اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ سامنے والا کھلاڑی “شاطر” بھی ہوتا جارہا ہے اور “شہ مات” کا خطرہ اسے بھی لے بیٹھ سکتا ہے تو وہ نہ صرف پوری بساط کو لپیٹ دیتا ہے بلکہ “شاطر” بن جانے کے زعم میں مبتلا پر ابتلا بن کر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے اپنے راستے سے یا تو بالکل ہی صاف کردیتا ہے یا پھر اس قابل ہی نہیں رہنے دیتا کہ وہ اس کا حقیقی “مقابل” بن سکے۔

پاکستان کی سیاست کی یہ تلخ حقیقتیں ہیں کہ یہاں انتخابات تو ہوتے ہیں اور حکومتیں بھی بنتی ہیں لیکن اگر کسی منتخب حکومت کی یہ سوچ ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد عوام کی نمائندہ حکومت ہے اور وہ جو بھی اقدامات اٹھائی گی وہ عوام کے مفادات میں اٹھائے گی اور جو بھی قوانین وضع کریگی گی وہ سارے کے ساے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہونگے کیونکہ وہ عوام کی نمائندہ حکومت ہے، تو یہ سب اس کی خام خیالی ہے اس لئے کہ وہ بے شک عوام کی رائے سے ہی منتخب ہوئی ہوتی ہے لیکن اس کی اپنی زندگی کا انحصار “طاعت شعاری” پر ہوتا ہے چنانچہ پاکستان میں بڑی بڑی حکومتیں پانی کا بلبلہ بھی ثابت نہیں ہوتی رہی ہیں۔

میرا مصر بھی پاکستان جیسا ہی ثابت ہوا۔ وہاں بھی انتخابات ہوئے تھے۔ وہاں کے عوام نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ وہاں بھی کوئی عوام کا منتخب کردہ فرد قوم کا حاکم بنا تھا اور وہاں بھی ایک “شاطر” پیدا ہوا تھا لیکن وہاں کے عوام اور خود “شاطر” یہ بھول گئے تھے کہ جس کے ہاتھ بساط ہے اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک ڈنڈا بھی ہے اور وہ بساط کو بھینس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور زمانہ جانتا ہے کہ بھینس اسی کی کہلاتی ہے جس کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے۔ مالک خواہ کتنا ہی شور مچاتا رہے کہ بھینس اس کی ہے، اندھیر نگری کے قاضی کا فیصلہ ہمیشہ اس کے حق میں جاتا ہے جس کے ہاتھ میں وہ ڈنڈا دیکھ رہا ہوتا ہے۔

سابق مصری صدر محمد مرسی کو منگل کی علی الصبح سپرد خاک کر دیا گیا۔ طرہ جیل کے اسپتال میں انہیں غسل دیا گیا اور ان کی نماز جنازہ طرہ جیل کی مسجد میں ہی ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے اور سیکورٹی کی آڑ میں مصری فوج اور پولیس نے عام شہریوں کو نماز جنازہ میں شرکت سے روک دیا تھا۔ آخری رسومات میں صرف سابق صدر کے اہل خانہ کو شرکت کی اجازت دی گئی، آبائی قبرستان میں دفن کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی، جس کے بعد انہیں نصر شہر کے قبرستان میں سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

جیسے انسانوں میں کچھ اقوام قسمت کی ماری ہوتی ہیں اسی طرح کچھ خطہ زمین اپنی قسمت میں جہالت، ظلم اور جبر لیکر دنیا میں آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ مصر وہ خطہ زمین ہے جہاں فراعین کی حکومتیں رہی ہیں اور شاید ان کی نحوست اس سر زمین کی قسمت بن چکی ہے۔ وہاں آوازِ حق جب بھی بلند ہوتی ہے فراعین وقت اس کا اسی طرح گلا گھونٹنے کی سعی و جہد میں لگ جاتے ہیں جس طرح حضرت موسیؑ کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اخون المسلمین کے ساتھ ہونے والے ظلم کی تاریخ کوئی بہت ماضی کی بات نہیں۔ اس وقت کے فرعون نے بھی اس جماعت کو جو اللہ کی سر زمین پر اللہ ہی کے نظام کے نفاذ کی جد و جہد کر رہی تھی، اتنی بیدردی کے ساتھ کچلا کہ خواتین اور بچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ صدر مرسی کی شہادت اور پھر جس انداز میں کرفیو جیسے ماحول میں ان کی تد فین ہوئی، اس میں اور حسن البنا شہید کی تدفین میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اخوان المسلمین کے سر براہ امام حسن البنا کو 12 فروری 1949ء کی شب قاہرہ میں ایک سازش کے تحت رات کی تاریکی میں گولی مار کر شہید کر دیا گیاتھا۔ ملک بھر میں سخت کرفیو لگا دیا گیا تھا اور ان کی لاش اٹھانے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی تھی یہاں تک کہ خواتین کو ان کی تدفین کرنی پڑی۔ اسی قسم کی مناظر چشم فلک نے پاکستان میں بھی دیکھے ہیں جو تاریخ کے سیاہ ترین باب میں لکھے جائیں گے۔

پاکستان کی سیاسی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مصر سے بہت مختلف نہیں۔ پاکستان میں بھی ایک طویل دورانیہ براہ راست عسکری حکومتوں کا رہا ہے۔ وہ دورانیے جو بظاہر سویلین حکومتوں یا جمہوری حکومتوں کے ادوار میں شمار کئے جاتے ہیں وہ بھی “سرآئینہ کوئی اور، اور پس آئینہ کوئی اور ہے” کی فسوں کاریوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان ہی میں کچھ وہ ادوار بھی ہیں جس میں “پس آئینہ” والا بھی صاف دکھائی دیتا رہا ہے جس میں جنیجو دور اور مسلم لیگ ق والا دور سر فہرست ہے۔ ماضی میں بھٹو دور بھی کوئی آزادانہ جمہوری دور نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس کے بعد بننے والی اب تک تمام جمہوری حکومتوں کا دور خالص جمہوری کہلانے کا مستحق ہے البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پہلے ادوار میں سر آئینہ والا نظر آتا رہا ہے لیکن بعد والے ادوار میں پس آئینہ والا محسوس تو ضرور کیا جاتا رہا ہے مگر ظاہری آنکھیں اسے دیکھنے میں ناکام رہی ہیں۔

مصر ہو یا پاکستان، یہاں بساط سجانے اور بچھانے والا خواہش تو اس بات کی ضرور رکھتا ہے کہ دنیا اسے ایک آزاد جمہوری ملک سے پکارے لیکن دونوں ممالک کے اصل شاطر چاہتے یہ ہیں کہ اس کی بساط پر جو بھی کھیلے وہ اپنی “بساط” سے بڑھ کر نہ کھیلے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب بھی کسی نے اپنی بساط سے زیادہ پھیلنے کی کوشش کی اس کی ٹانگیں کھینچ لی گئیں اور بساط لپیٹ دی گئی۔

پاکستان ہو یا مصر، دونوں سیاسی میدان کی ایک جیسی کہانیاں رکھتے ہیں۔ یہاں انتخابات کے بعد بھی کبھی یہ نہیں لگا کہ انتخابات ہوئے ہیں۔ منتخب حکومتیں ہر جانب سے جکڑبندی کا شکار دکھائی دی ہیں اور اگر ان میں سے کسی نے بھی اس بات کی کوشش کی کہ وہ اپنی بساط بھر کھیلیں، وہیں ان کے سارے مہرے بکھیر دیئے گئے ہیں، کھیل روک دیا گیا ہے اور انھییں یا تو سولی پر چڑھا دیا گیا ہے یا کال کوٹھڑی میں دکھیل دیا گیا ہے۔

مسلمانوں کے جتنے بھی ممالک ہیں ان میں سے 99 فیصد سے زیادہ اپنی ہی بد اعمالیوں کا شکار ہیں۔ اللہ کی رسی کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور آپس میں ہی دست و گریبان ہیں۔ شور تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ دنیا والے متعصبانہ سلوک کر رہے ہیں اور وہ ان کو ختم کرنے کے درپے ہیں، یہ جھوٹ بھی نہیں ہے لیکن سنجیدگی سے غور کیا جائے تو وہ خود اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور یہ محض اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے اُس رسی کو چھوڑدیا ہے جسے تھامے رکھنے کا حکم ہے۔ جب تک وہ اللہ کی جانب رجوع نہ کریں گے اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ انھیں کھوئی ہوئی جاہ و حشمت حاصل ہو سکے اور وہ دنیا پر غالب آسکیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ؎

دکھ جتنے ہیں کم ہو جائیں

میں تم یہ وہ “ہم” ہو جائیں

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں