پاکستان کے نجی فلاحی ادارے کا کردار اور عوام کا اعتماد

پاکستان کا شما ر دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی معشیت اکثر خسارے میں رہتی ہے۔ ملک کا نظام چلانے کے لئے حکومتوں کو اندرونی اور بیرونی مالی اداروں سے قرضوں کا سہارا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جہاں غیر مستحکم معاشی نظام اور پالیسوں نے مہنگائی کا طوفاں برپا کر رکھا ہے۔ جہاں آبادی کا زیادہ تر حصہ غربت، بھوک و افلاس میں ڈوبا ہوا ہے۔
چونکہ سرکاری سطح پرصحت ومعالج کے ادارے کسمپرسی کا شکار ہیں، مہلک بیماریوں اور وبائی امراض سے لوگوں کی ہلاکتیں کثرت سے ہوا کرتی ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے بھوت بنگلے یا پھراصطبل میں تبدیل کردیے گئے یا پھر ا ن اسکول اور کالج کا وجود یا ان کا نا م ونشان سرے سے ہی موجود نہیں جہاں ان کی ضرورت ہے۔
دراصل ریاست اور اسکے ادارے ان تمام تربنیادی سہولتوں کو عوام کو فراہم کرنے میں ناکام کی طرف گامزن ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عوام الناس میں بدحالی بڑھتی جارہی ہے اور ہمارا ملک ومعاشرہ تنزلی کا شکارہے۔بظاہر ہرطرف مشکلات اور پریشانیاں ہیں مگر اس قوم میں امید ابھی باقی ہے اور یہاں کی عوام کے عزائم بھی کافی بلند ہیں۔
اگر حکومت اور اس کے ادارے کمزوروبے اثر ہیں تو اس قوم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گمبھیر مسائل اور دیگر چیلنجزسے نمٹنے کی بھر پور جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ کوششیں ہر میدان میں آپ کا نظر آئیں گی جس میں صحت و تعلیم سے لے کرلوگوں کو روزگارکی فراہمی تک کی کاوشیں شامل ہیں۔ جی ہاں میرے وطن پاکستا ن میں کئی نجی وفلاحی اسپتال ایسے ہیں جو مفت علاج ومعالج کی سہولیات لاکھوں افراد کو فراہم کررہے ہیں۔ کئی ادراے ایسے ہے جو مفت تعلیم وتربیت ہزاروں غریب بچوں کو مہیا کر رہے ہیں۔کچھ فلاحی ادارے لوگوں کی بھوک مٹانے کے لئے کام کر رہے ہیں اور کچھ یتیم بچوں کی پرورش کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یوں کچھ لوگوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے مگران کے اس فلاحی کاموں میں کئی ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ شامل ہوجاتے ہیں اور اپنی مالی امداد سے ان تمام فلاحی اداروں کے کا ر خیر کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان افراد میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد موجودہے۔
میرے ملک پاکستان کا شمار دنیا کے جدید ترقی یافتہ ممالک میں تو نہیں ہوتا پر ہمارا ملک مالی عطیات کے حوالے سے دنیا کے جدید ترین ملکوں کی صف میں کھڑاہے۔ پاکستان سینٹر آف فیلنتھراپی کے مطابق پاکستان میں سالانہ دو ارب ڈالر کے عطیات غرباء اور مستحق لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔اس رقم کا تخمینہ دوسال قبل لگایا گیا جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عطیات میں گذشتہ سالوں اضافہ ہو سکتا ہے۔ معشیت کے حجم جس کو GDP to charity ratio کہا جاتا ہے، پاکستان کی دیگر ممالک کے نسبت قابلِ ذکر ہے۔ ان عطیات میں قابلِ ذکر حصہ زکوٰۃ، فطرہ اور صدقات کی مد میں دی جانے والی رقوم ہے جو کہ ایک دینی فریضہ ہے۔
رمضان کے آمد ہوتے ہیں یہ تمام فلاحی ادارے کا فی متحرک نظر آتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے صاحبِ نصاب افراد کی ایک بڑی تعداد زکوٰۃ کی ادائیگی اس ماہ ِ مبارک میں ادا کرتی ہے جو کہ مال کی رقم کا صرف ڈھائی فیصد ہے۔
ان اداروں کے مطابق رمضان مبارک میں سال بھر کے عطیات کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ ہوتا ہے جو ہرنجی فلاحی ادارے کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ عطیا ت اس کے معاشی مرکز کراچی سے وصول کیے جاتے ہیں اسی لئے ملک میں کام کرنے والے دیگر خیراتی اور فلاحی ادارے بھی اسے شہرسے ہر سال عطیات وصول کرنے میں مصروف نظرآتے ہیں۔ اس پہلوں کو دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان فلاحی اداروں میں مسابقت کابھی عنصر شامل ہے جس کا اندازہ ان کی مارکیٹنگ واشتہاری مہم سے لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایل آربی ٹی گوگل اور فیس بک پر متحرک نظر آیا، امن فاونڈیشن نے شاپنگ مالوں پر آگاہی اور ڈونیشن سینٹر قائم کیا اور سوشل میڈیا پر اس کو پروموٹ کیا، چھیپافانڈیشن سوشل میڈیا پر کم سرگر نظر آئی، بل بورڈز، ایس ایم ایس، ای میل اور وغیرہ وغیرہ۔ گویا ہر ادارے نے فنڈریزنگ کے لئے بھرپور کوشش کی ہے۔
الخدمت فانڈیشن کے ڈائریکٹر نوید علی بیگ کا کہنا کہ فلاحی ادارے ایک دوسرے کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلہ بظاہر عطیات کہ وصولی میں آتا ہے مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ کئی منصوبے پر اشتراک و تعاون کرتے نظر آتے ہیں۔ ان مزید کہنا تھا کہ عطیات کہ وصولی میں کافی بہتری آئی حالانکہ ملک میں معاشی سرگرمی متاثر ہے۔
ان تمام فلاحی اداروں کی عوامی خدمات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ان کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے عطیات میسر ہوں۔ اس کارخیرمیں ملکی اور غیر ملکی پاکستانیوں کا ایک اہم کردار ہے۔ چونکہ ان اداروں کی خدمات اور ایمانداری پر لوگوں کو بھروسہ ہے اسی وجہ سے ملک اور بیرون ملک بسنے والے مخیر حضرات اور مالی اعتبار سے مستحکم طبقہ ان اداروں کہ دل کھول کر مدد کرتا ہے۔ ذرا سوچے اگر حکومت اور اس کے دیگر ادارے خصوصا ً علاج ومعالج اور تعلیم وتربیت کے شعبہ میں ایمانداری اور خدمتِ خلق سے سرشار ہوکر کا م کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک کے لوگ بھی ٹیکس اسی طرح دیں۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں