خون کے آنسو

صدف نایاب، اسلام آباد
آج پھر ایک دل کو دہلا دینے والا منظر دیکھا، کیسے ایک معصوم کلی کو کچل دیا گیا۔ عقل ابھی تک حیران ہے کہ کیا وہ انسان ہی تھے؟ جنھوں نے اتنا بھی احساس نہ کیا کہ یہ بھی ہماری طرح ایک انسان اور مسلمان ہے۔ مارنے والے بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے تھے یقیناً اور جس کو مارا گیا وہ بھی اس امت کی وہ بیٹی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹی کی تربیت پر جنت کے حقدار ہو۔
آخر کب تک یہ مظالم یونہی اسلامی نظریہ پاکستان میں ہوتے رہیں گے؟ کب تک ہم ایسے ہی خون کے آنسو روتے رہیں گے؟۔ ان سوالوں کے جواب ہم میں سے کسی کے پاس نہیں مگر ہم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ اپنے خاندان کے بیٹوں کی ایسی تربیت کریں کہ کل کو وہ ہمارے لیے بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ اتنی آوازضرور نکال سکتے ہیں کہ مجرم پھانسی کے تختے پر لٹک جائے۔ ان سب سے بڑھ کر بھی یہ کہ دعا کا دامن ہاتھ سے نا چھوٹنے پائے۔ جہاں ایک بے بسی کا احساس گھیرے ہوئے ہے دل کو وہیں امید بھی دل میں زندہ رہنی چاہیے کیونکہ ہر رات کے بعد ہی دن نکلتا ہے۔
آیت کریمہ ہے ”جب زندہ گاڑی ہوئی بچی سے سوال ہو گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی“ اس آیت کی ایک تفسیر اور ایک تصویر آج ان بچیوں کی صورت میں بھی ہمیں نظر آتی ہے۔ جب قیامت کے دن سوال ہو گا ان تمام ننھی پریوں سے ”کہ کس جرم میں تم ماری گئیں“۔ تب کیا ہو گا وہ وقت سوچ کر ایک جھرجھری تو مجرم کے جسم میں بھی دوڑی ہو گی۔
وہ جہالت جس میں عرب گھرے ہوئے تھے۔ وہ آج بھی ویسے ہی زندہ ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت تک کوئی نبی نہیں آئے تھے انہیں سمجھانے ان کے پاس علم نہیں تھا جبکہ آج ہمارے پاس اللہ کا نبی، قرآن اور علم سب موجود ہے۔ مگر ہم ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ایک اندر کی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیے آج کا انسان ہی انسان کو کھا جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔
حفاظت کی دعاؤں سے لے کر احتیاطی تدابیر تک، گھر سے لے کر باہر تک، ناقص تربیت، دین سے دوری اور اللہ کا خوف ختم ہونے اور خسارہ اٹھانے تک، دوپٹہ سے لے کر پردے گراتی ہوئی بے حیائی تک، ایک عام ذہن کے انسان سے حوس پرست بننے تک۔۔ بہت بڑے بڑے مقام ہیں ہمارے سوچنے کے لیے۔ آئیے سوچیے اور عمل کیجیے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں