گمان کی طاقت

تحریر: حوریہ ایمان ملک (سرگودھا)
اچھا گمان کرو اچھا ہی ہوگا، برا گمان کرو گے تو برا ہوگا۔ شاید آپ نے بھی کچھ لوگوں سے سنا ہو کہ جو خیال بار بار ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ سچ ہوجاتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمارے دماغ میں وسوسے اور خیالات آتے رہتے ہیں لیکن جب ہم ان خیالات کو ذہن سے جھٹکنے کے بجائے ان کی پیروی شروع کردیتے ہیں۔ تب ہمارے لاشعور میں ایک یقین پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم لاشعوری طور پر وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو کچھ ہم سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم کچھ برا سوچ رہے ہیں اپنے یا کسی اور کے متعلق برا گمان کررہے ہیں تو ہمارا یقین اس بات پہ پختہ ہونے لگتا ہے۔ اگر ہم اس گمان کو ذہن سے جھٹک دیں اور اپنا دھیان اور توجہ کہیں اور مبذول کرلیں تو گمان کی طاقت کمزور پڑنے لگے گی۔ اس طرح ہم نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
فرض کریں اگر کسی کو یہ خوف ہے کہ وہ آگ میں جل کر مرے گا اور اس پہ یہ گمان غالب رہے تو لاشعوری طور پر اس کا یقین اس بات پہ پختہ ہوتا جائے گا اور نتیجہ وہی ہوگا جو اس نے خود سے سوچا ہوگا۔ اگر کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں تو اس کو مستحکم کیجیے تاکہ اس سے فائدہ پہنچے لیکن برے گمان سے ہمیشہ بچیں۔ ہماری ایک عزیزہ کہتی ہیں میری چھٹی حس بہت تیز ہے۔ پوچھا وہ کیسے؟ تو محترمہ فرمانے لگیں جب کسی کے متعلق میں سوچتی ہوں کہ فلاں شخص مر جائے گا یا فلاں کے ساتھ ایسا ہوگا تو اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
میں تاسف سے سوچنے لگی کہ ہم لوگ کتنے ناسمجھ ہیں۔ اپنے گمان کو پہلے تقویت دیتے ہیں اور پھر اپنی چھٹی حس کا کارنامہ سمجھ کر خود کو معتبر سمجھ لیتے ہیں۔ جس طرح حسد سب کچھ کھاجاتا ہے بلکہ اسی طرح برا گمان بھی سب کچھ ختم کرسکتا ہے۔کیونکہ ہماری مثبت سوچ اور گمان کا ہماری اور ہم سے جڑے لوگوں کی زندگیوں پہ مثبت اثر پڑتا ہے جبکہ منفی سوچ کا اثر بھی منفی ہوتا ہے۔ اسی لیے کوشش کریں کہ ہمیشہ سب کے لیے اور اپنے لیے اچھا اور نیک گمان کریں۔ تاکہ آپ کا گمان اور یقین آپ کیلیے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں نہ کہ نقصان دہ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں