وطن عزیز میں کوئی تہوار نہ آئے

رمضان المبارک اپنی رحمتیں برکتیں لٹا کر واپس چلا گیا۔ ہم اس زمین کی طرح ہی رہ گئے جس پررحمتیں خوب برسیں مگر رحمتیں جمع کرسکے اور نہ ہی برکتیں سمیٹ سکے۔ بنجر تھے اوربنجر ہی رہے۔ خیر یہ معاملہ اللہ رب العزت کی پاک ذات پر چھوڑا ہے جس کی رحمتوں سے کوئی بھی مایوس نہیں۔ میری تحریر آج ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے رمضان کے روزے اور عبادتیں محض دکھاوے کے لیے کی تھیں،جنہوں نے اپنی ناجائز اورحرام خوری کو اس ماہ مبارک میں بھی ترک نہیں کیا۔ عمرے کی ادائیگی بھی کی اورحج کی تیاریاں بھی کررہے ہیں لیکن اس پیسے سے جو ان کا تھا ہی نہیں،یہ وہ پیسا ہے جو ان لوگو ں نے ماہ مبارک مہینے میں غریب کا خون چوس کر بنایا ہے۔
رمضان المبارک برکتوں اوررحمتوں کا مہینہ ہے اور ماہ مبارک میں مومن کاروبار میں بھی عبادت تلاش کرتا ہے کسی کا حق نہیں کھاتا،کسی کے ساتھ ناجائز نہیں کرتا،روزے کی حالت میں اول فول اپنی زبان سے نہیں نکالتا۔لیکن وطن عزیز میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے کردار اوراخلاق سے انتہائی غلیظ ہوچکے ہیں۔ رمضان المبارک میں جنہوں نے جتنا غریب کو لوٹنا تھا لوٹ لیا،مگر دل پھر بھی نہیں بھرا تھا کہ عید پر مزید لوٹ مار مچالی۔ یہاں ہرشخص نے لوٹ مارمیں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سبزی فروش سے لے کر نان بائی تک نے عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کیا۔ یہ سلسلہ ہر سال اورہر تہوار پر دہرایاجاتا ہے۔ چاند رات کو نائیوں نے عوام سے جہاں ڈبل پیسے وصول کیے وہیں عید پر تندور پر روٹی کی قیمت بھی ڈبل کردی گئی۔ ٹائر پنچر لگانے والے افراد نے بھی دل کھول کر اس کفریہ عمل میں اپنا بھرپور رول ادا کیا۔ موٹر سائیکل کے ٹائر کا ایک پنکچر جو محض چالیس روپے اور پچاس روپے میں لگایا جاتا ہے اس کی قیمت ڈبل کرکے ایک پنکچر سو روپے اور بیس روپے زبردستی عیدی وصول کی۔ سبزی فروش نے ایک کلو ٹماٹر کی قیمت 150روپے وصول کیے جس میں 120روپے ٹماٹر کی قیمت اور 30روپے عیدی شامل تھی۔ عید کے دوسرے دن گلی سڑی سبزی بھی من مانی قیمت پر فروخت کرکے قوم پر یہ احسان کیا کہ سب لوگ عید منا رہے ہیں اور ہم آپ کے لیے دکان کھول کربیٹھے ہیں اس لیے حق جتا کر زبردستی عیدی وصول کی گئی۔
بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہر اس کاروبار میں زبردستی کی عیدی وصول کی گئی جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ کریانہ اسٹور ز پر ہر چیز پر دو پانچ روپے اضافی وصول کیے گئے اس لیے کے عید ہے۔ حکومت نے پہلے ہی غریب کی کمر توڑ رکھی ہے اوپر سے عوام ہی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف عمل ہے۔ چاند رات کو فروٹ فروشوں نے اچانک فروٹ کے ریٹ گرادیے وجہ صرف یہ تھی کہ کل سے کون فروٹ خریدے گا اس لیے منافع جتنا کمانا تھا کما لیا اب سستا بیچ کر عوام پر احسان کررہے ہیں۔ لوگ یقین نہیں کریں گے مگر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا عید کے تیسرے دن ہماری کچرا کنڈی میں سینکڑوں کلو فروٹ جو نہ فروخت ہوسکا وہ وہاں پھینکا گیا تھا۔ کسی غریب کو ایک دس روپے سستا بیچنے میں انہیں موت آتی تھی مگر خراب کرکے پھینکنے میں انہیں ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ ایک دکاندار سے جب میں نے اس پر سوال کیا کہ آپ نے اتنا فروٹ کچرے میں پھینک دیا ہے اگر رمضان میں کچھ سستا کرکے بیچتے تو آپ کو بھی نقصان نہ اٹھانا پڑتا اور یہ رزق یہاں پھینکنے کے بجائے ان کے پیٹ میں چلا جاتا۔ مگر اس شخص کا جواب سن کرمیں لاجواب ہوگیا کہ فروٹ پھینک کر بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اتنا کمالیاتھا اورسستا بیچ کر کاروبارخراب نہیں کرسکتا۔ کسی کے پیٹ میں جاتا ہے یا نہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔
یہ ہی لوگ عمرہ کرنے جاتے ہیں اور وہاں سے واپس آکر دوسروں کو وہاں کی خوبیاں بیان کرتے نہیں تھکتے مگر جب ان لوگوں سے سوال کیاجائے کہ آپ پہلے خود کو تو بدلو تو آگے سے جواب یہ ہی سننے کو ملتا ہے کہ پھیلے دنیا تو بدل جائے ہم بھی بدل جائیں گے۔ دنیا کے بدلنے کاانتظار کرتے کرتے قبر تک پہنچ جاتے ہیں مگر خود کو بدلنے کی ذرا بھی جستجو نہیں کرتے۔
ایک 14سال کی لڑکی کو چاند رات کو ماں کی ڈانٹ کھاتے سن کرمیں بھی شرمندہ ہوگیا جب اس کی ماں نے کہا کہ اگر تجھے 200روپے کی چوڑیاں لے کر دے دوں گی تو باقی بہن بھائیوں کو کیا لے کر دوں۔ چپ کر کے گھر چل اور یہاں میرا تماشہ مت بنا۔ اس ماں نے بھی پورا رمضان چندہ مہم کے اعلانات لازمی سنے ہوں گے اور اس بچی نے بھی۔ اب ان کے دل پر کیا گزری ہوگی،یہ وہ جانتے ہوں گے اور ان کا رب جانتا ہوگا۔
ہماری کالونی میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کراچی کے رہائشی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کی ہیں۔ میرے ذاتی سروے میں یہ بات مشاہدے میں آئی کہ صرف ہماری ہجرت کالونی میں 98فیصد لوگ جو کاروبار کررہے ہیں یا جنہوں نے عمارتیں کرائے پر چڑھا کررکھی ہیں وہ کے پی کے سے آئے ہوئے ہیں۔ باقی علاقوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے جہاں دوستوں کی مدد سے معلوم ہوا کہ وہاں بھی کاروبارکرنے والے زیادہ تر باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں جو پورا سال کراچی کو لوٹتے ہیں اور تہوار ختم ہونے کے بعد کراچی کو گالیا ں بکتے ہوئے اپنے اپنے شہر اور گاؤں کو چلے جاتے ہیں۔جہاں کراچی سے لوٹا ہوا پیسا بڑی عیاشی سے خرچ کرکے واپس کراچی آجاتے ہیں۔
یہ لوٹ مار کاسلسلہ سالہاسال جاری رہتا ہے۔ پہلے رمضان میں لوٹو، پھر عید پر رہی سہی کسر پوری کردو۔ اس کے بعد بقر عید پر عوام پر چھری چلائی جاتی ہے۔ اس کے بعد محرم میں عوام ایک مرتبہ پھر لٹنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا نہیں جو اس لوٹ مار میں شریک نہ ہو۔ پارکنگ مافیا،دودھ مافیا،واٹر ٹینکر مافیا،پبلک ٹرانسپورٹ مافیا،فروٹ مافیا،سبزی مافیا اور دیگر اشیائے خورد ونوش مافیا نے دل کھول کر عوام کو لوٹا۔ اب یہ سب مافیا لوگ حج کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں