گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پرایک نیوز چینل کی ایک رپورٹ نظروں سے گذری رپورٹ پر توجہ مرکوز کی تو معلوم ہواکہ یہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ا یک بینک کا منظر ہے کہ جہاں بدین سے تعلق رکھنے والے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اپنی تنخواہیں لینے کے لئے بڑی تعداد میں موجودہیں.موقع کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتےہوئے وہاں موجود ایک نیوز چینل کے رپورٹر نے ان اساتذہ سے تعلیم سے متعلق چند بنیادی سوالات کر ڈالے۔ لیکن یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ وہاں موجود جتنے اساتذہ سے بھی سوالات کئے گئے ان میں سے کچھ اساتذہ نے ان سوالات کے جواب غلط جبکہ کچھ نے خوف کے مارے جوابات دینے سے معذرت کرلی ۔اب وہ سوالات کیا تھے ملاحظہ فرمایئے ۔سورہ کوثر سنائیں سورہ اخلاص سنائیں۔ پانی کا فارمولا بتائیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کا نام بتائیں۔پاکستان کا قومی ترانہ سنائیں۔ اب ان اساتذہ( جن کو استاد کہنا بھی توہین کے زمرے میں آتا ہے) نہ تو ان کو بنیادی سوالات کے جواب معلوم تھے اور نہ ہی پاکستان کا قومی ترانہ یاد تھا جو ہم سب کے لئےایک لمحہ فکریہ ہے۔
میرٹ کی دھجیاں اڑاکر سیاسی بنیادوں پر محکمہ تعلیم میں بھرتی کئے جانے والے لوگوں کو استاد کا لیبل لگاکر نہ صرف تعلیم جیسے مقدس اور انتہائی اہم شعبے کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے بلکہ معلمی جیسے مقدس پیشے کی توہین بھی کی جارہی ہے۔جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس طرح کے نااہل استاد ہوں گے کہ جن کے پاس تعلیم سے وابستہ بنیادی چیزوں کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی معلومات ہی نہیں تو ان کے شاگردوں کی تعلیمی قابلیت کیا ہوگی؟ یہ کیا تعلیم دیں گے ان بچوں کوجو مستقبل کے معمار ہیں؟ وہ ان جیسے نااہل اور پرچی مافیا اساتذہ سے کیا تعلیم حاصل کریں گےاور کیا تہذیب سیکھیں گے؟ اور ان کی نگرانی میں اخلاقیات کا کیادرس پائیں گے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں کہ نہ صرف ان سوالات کے جواب محکمہ تعلیم سندھ کے افسران کے لئیے دینا ضروری ہیں بلکہ اس حوالے سے ان کو سنجیدگی کے ساتھ سوچ وبچار کرکے محکمہ تعلیم میں پائی جانے والی کمزوریوں کا ادراک بھی کرنا ہوگا۔۔سرکاری اسکولوں میں سیاسی بنیادوں پر اور اہلیت کے بغیر صرف اور صرف تنخواہوں کے حصول کے لیئے ایسے نااہل لوگوں کی بھرتیوں کا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا اور اس تعلیم دشمن عمل کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو آنے والے دنوں میں تعلیمی نظام کا حال اس سے بھی بدتر ہوگا کہ جس سے آج ہمارا معاشرہ دوچار ہے۔اورپھر اس پرچی مافیا کی موجودگی میں ہم کیوں کر تعلیمی ترقی کے دعوے کریں۔ لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ محکمہ تعلیم سندھ کے کرتادھرتا اپنے محکمے کا ایک طائرانہ جائزہ لینے اور اساتذہ کی کارکردگی اور ان کے معیار کو پرکھنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس گھمبیر صورتحال کی روشنی میں سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے اور معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے نجی تعلیمی اداروں کے معاملات کو الجھانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور مختلف قسم کے غیر ضروری نوٹیفکیشنز کے ذریعے نجی اسکولوں کے مالکان کو پریشانیوں میں مبتلا کرنے اوران کے مثبت تعلیمی عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف العمل ہیں جو نجی تعلیمی اداروں کو ان کے کام سے روکنے کی ایک مذمومانہ کوشش ہے۔اگر خلوص نیت کے ساتھ دیکھا جائے تو محکمہ تعلیم سندھ کا یہ عمل کسی طور بھی تعلیم کی بہتری کے حق میں نہیں۔
صورتحال کا اگرحقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ بیشتر نجی تعلیمی ادارے اپنے محدود وسائل کے باوجود معیاری تعلیم کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں جن کے نتائج سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں جبکہ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کے یہ اساتذہ ہیں جو پرکشش تنخواہوں اور دیگر سرکاری مراعات کے باوجود ایک نیوز چینل کے اس رپورٹ کی روشنی میں سورہ کوثر۔ سورہ اخلاص۔ پانی کے فارمولے اور قومی ترانے سے ناواقف دکھائی دے رہے ہیں جو صوبہ سندھ میں تعلیم کے زوال کے بنیادی اسباب میں سے ایک انتہائی اہم سبب ہے ۔
یہاں بنیادی بحث یہ نہیں کہ سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کا اور ان کے تعلیمی معیار کا موازنہ کیا جائے بلکہ اصل بحث نیوز چینل کی وہ رپورٹ ہے کہ جس کے تناظر میں بہت سے سوالات جنم لے چکےہیں جن کا براہ راست تعلق محکمہ وزارت تعلیم سندھ سے ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اپنے محکمے کی طرف صرف نظر کرتے ہوئےصورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اساتذہ کی قابلیت کی مکمل جانچ پڑتال کرتے ہوئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی طرف اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاسی اثررسوخ کے بغیراور صرف قابلیت کی بنیاد پر اساتذہ بھرتی کئے جائیں اور تعلیم کے معیار کے حوالے سے کسی قسم کے سیاسی دبائو کو قبول نہ کیا جائےتو لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے نجی تعلیمی اداروں کے بجائے خود آپ کی طرف رجوع کریں گے ضرورت فقط ایمانداری اور مخلصی کے ساتھ ترجیحات کو طے کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ہے۔