روزنامہ جسارت، جون 8 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے ایک مرتبہ پھر بھارت کے وزیر اعظم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دونوں ممالک کے بیچ جو جو بھی خدشات، مسائل، تنازعات اور رکاوٹیں ہیں ان کو بات چیت کے ذریعے دور کرنے کی پیشکش کی ہے۔ خبروں کو مطابق وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔عمران خان نے مودی کو دوبارہ منصب سنبھالنے پرمبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کشمیر سمیت تمام مسائل کاحل چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کے لیے خطے میں امن و استحکام ضروری ہے اوردونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے ہی اپنے عوام کو غربت و افلاس سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں ترقی کے لیے ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے۔
پاکستان اور بھارت اپنے اپنے وجود میں آنے کے بعد سے تا حال ایک دوسرے سے حالت جنگ میں ہی رہے ہیں اور کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں یہ احساس ہوا ہو کہ یہ دونوں ممالک کسی نہ کسی وقت ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ دونوں کے درمیان سب سے بڑی وجہ تنازع کشمیر ہی رہا ہے لیکن شاید بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں رکھی جا سکتی اس لئے کہ کشمیر کی وجہ سے بہت سارے ایسے معاملہ جو سلگتے ہوئے اشوز کہلائے جاسکتے ہیں، دبے دبے سے نظر آتے ہیں۔ پاکستان صرف وہی نہیں ہے جو اِس وقت تقشے میں نظر آتا ہے بلکہ پاکستان وہ بھی ہے جو 1971 سے پہلے والے نقشے میں موجود تھا۔ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا جس پر بھارت نے لشکر کشی کر کے اس کو موجودہ پاکستان سے جدا کر دیا تھا۔ پھر یہ کہ پاکستان 1971 سے پہلے والے نقشے میں جو دکھایا جاتا رہا تھا، وہی پاکستان نہیں تھا بلکہ پاکستان میں حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ بھی شامل تھے جو ایک طویل عرصے تک دنیا کے مستند نقشوں میں “متنازع” علاقوں کی صورت میں دکھائے جاتے رہے ہیں۔ خطوں سے ہٹ کر بھی پاکستان ایک نظریہ کا نام تھا جس کو اگر بنیاد بنایا جائے تو پاکستان بر صغیرانڈو پاک، جس میں ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان بھی شامل ہیں، ان میں بسنے والے ہر مسلمان کا نام پاکستان تھا اور اس لحاظ سے پاکستان کی ذمہ داری میں تاقیامت یہ ذمہ داری شامل تھی، ہے اور رہے گی کہ ان خطوں میں آباد ایک ایک “پاکستان” (مسلمان) کی حفاظت کرے اور اس خطے میں کسی بھی “پاکستان” کے پاؤں میں کانٹا چبھنے جیسی تکلیف پر اس کی مدد کرے اور اس کی جان و مال کی حفاظت کرے۔ اس لحاظ سے یہ سمجھنا کہ صرف خطہ زمین کا حصول ہی پاکستان تھا یا ہے تو یہ پورے پاکستان کی غلط فہمی ہے۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ پاکستان نے اپنے کسی ایک بھی “پاکستان” کو احساس تحفظ نہیں دیا اور پاکستان کی سرحدوں کے اُس پار جو پاکستان کے کے زمینی خطے تھے اور جو “پاکستان” تھا اس کی حفاطت نہیں کر سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر اور کشمیری تو ہاتھ سے گئے ہی گئے، مشرقی پاکستان بھی اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ جو پاکستان قانونی طور پاکستان میں شامل خطوں کو پاکستان سے جوڑ کر نہیں رکھ سکا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی ہاتھوں اغیار کے حوالے کر دیا اس سے ویسے بھی کیا گلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ خطے جو 1947 کے نقشے میں واقعی شامل کر دیئے گئے تھے یا متنازع قرار دے کر ان کو استصواب رائے کیلئے چھوڑدیا گیا تھا، ان کو باقائدہ پاکستان کا حصہ کیوں نہ بنا سکا۔ رہی یہ بات کہ نظریہ کے لحاظ سے جب برصغیر کا ہر مسلمان “پاکستان” تھا تو پھر پاکستان ان کیلئے 70 برسوں میں بھی مضبوط ڈھال کیوں نہ بن سکا اور ہندوستان میں اس وقت سے لیکر تاحال مسلمانوں (پاکستان) کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہو رہا ہے، ان کی خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے، ان کے مردوں کو گائے کا پیشاب نہ پینے پر جان سے مارا جارہا ہے، ان کا قتل عام کیا جارہا ہے، مکانات مسمار کئے جارہے ہیں اور ان کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے تو وہ خطہ جس کو پاکستان کہاجاتا ہے اس میں کسی بھی قسم کی بے چینی کیوں نہیں پائی جاتی؟۔ یہ ہے وہ سوال جو ہندوستان کے پاکستان (مسلمانوں) کو پاکستان کے پاکستان (مسلمانوں) سے ہے۔
پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور تقریباً ہر بننے والی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح دونوں ممالک کم از کم اس حد تک ایک دوسرے کے اتنا قریب ضرور آجائیں جیسے دنیا کے مختلف ممالک، ملکوں کی سطح پر ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔ سفارتی تعلقات مثالی ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے تجارت ہوتی ہے، تجارتی، سیاحتی اور سفارتی وفود کا آناجا ہوتا ہے، ویزے کی نرمیاں ہوتی ہیں اور مشکل حالات میں ایک دوسرے کے کام آنا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی دوریوں اور فاصلوں کی بد ترین مثال بنے رہے ہیں۔ یہ سمجھ لینا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کبھی نہیں رکھی، غلط ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب جب بھی پاکستان نے بھارت کے ساتھ قربتیں بڑھانے کی کوشش کی، خود پاکستان کے اندر اس کا شدید رد عمل سامنے آتا رہا۔ بھٹو کے شملہ معاہدات ہوں، پرویز مشرف کا ہنودستان کے وزیر اعظم سے بھری کانفرنس میں ہاتھ ملانا یا آگرہ مذاکرات، ہر کوشش کے خلاف پاکستان میں شدید رد عمل پایا گیا، لاہور آمد پر ہاتھ پاؤں توڑنے اور تڑوالینے کی نوبت آئی اور اسی طرح نواز شریف پر بھی “مودی یاری” کا الزام آتا رہا۔ مختصر یہ کہ جب جب بھی پاکستان نے سارے اختلافات ایک جانب رکھ کر یہ چاہا کہ ہم اپنی دوریوں کو قربت میں بدلیں، پاکستان میں اس کے خلاف بہت شدومد کے ساتھ آواز بلند ہوئی۔ اب یہی مسئلہ خود وزیر اعظم عمران خان کو در پیش ہے۔ کیونکہ یہ ماضی میں نواز حکومت کی بھارت دوستی کے شدید مخالف رہے ہیں اس لئے اپوزیشن اور خاص طور سے “ن” کسی صورت اس موقع کو اپنے ہاتھ سے کیسے جانے دیگی۔
عمران خان کی طرح شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب کو جب مبارک باد دیتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی تو ان کی جانب سے بھی یہ مایوس کن جواب ملا کہ آئندہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی میڈیا نے خبر نشر کی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے آئندہ اجلاس میں نریندر مودی اور عمران خان میں ملاقات متوقع ہے، جس میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات پر اہم بات چیت ہوسکتی ہے تاہم بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ملاقات کے حوالے سے تمام خبروں کی سختی سے تردید کردی ہے۔
یہاں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں جب بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی کشیدگی کسی طرح کم ہو، عوام میں اس کا ایک شدید رد عمل سامنے آتا ہے بالکل اسی طرح بھارت میں بھی عوام پاک بھارت دوستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے رد عمل میں جو واضح فرق ہے اس کا دنیا نوٹس لینے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوئی۔ پاکستان کے عوام صرف اور صرف بھارت سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے پسِ پردہ بھارت کا وہ ظلم و ستم ہے جو وہ کشمیری عوام اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر توڑتا ہے لیکن بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا جاتا ہے، ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ان کی عزت و آبرو سے بھی کھیلا جاتا ہے۔ دنیا یہ واضح فرق دیکھنے کے باوجود بھی بھارت میں ہونے والے ظلم پر نہ صرف خاموش رہتی ہے بلکہ زیادہ دباؤ پاکستان پر ہی ڈالا جاتا ہے کہ وہ بھارت سے مذاکرات کرے۔
دنیا کا رویہ اپنی جگہ لیکن دونوں ممالک اگر واقعی ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں تو ان کو اس بات کا اچھی طرح جائزہ لینا ہوگا کہ آخر وہ کون سے عوامل اور عناصر ہیں جو ہمیشہ مذاکرات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اگر ایک دوسرے سے دوستی کے رشتے مضبوط کرنے ہیں تو عوام کی ذہن سازی کرنا ہوگی اور ان عوامل اور عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنا ہونگی جو دونوں ممالک کے تعلقات میں دیواریں کھڑی دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاک و بھارت دوستی پر جور د عمل سامنے آتا ہے یا لاہور یاترا پر جو رد عمل دکھایا گیا وہ اس سوچ کا مظہر ہے کہ کشمیر کا تنازعہ حل کئے بغیر بھارت سے تجارتی تعلقات رکھنا نامناسب ہے اگر مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر کسی بھی نوعیت کے تعلقات بھارت سے استوار کئے جاتے ہیں تو یہ مسئلہ بھی دکن اور جونا گڑھ کی طرح سرد خانے کی نذر ہو جائے گا۔