سورج غروب ہوئے ابھی پون گھنٹہ گزرا تھا کہ خدا بخش اپنی جھکی ہوئی کمر کو سہارا دیتے ہوئے بمشکل جھونپڑے میں داخل ہوا اور اپنے تکان بھرے جسم کو دھیرے سے چارپائی پر بچھے بستر کے حوالے کر دیا۔ اسکی دو بیٹیاں پاس زمین پر بیٹھی سویٹر بن رہی تھیں۔ ایک نے فورا اٹھ کر باپ پر گرم لحاف اوڑھا دیا۔ سارا دن سائیں کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرنے کے بعد اسکا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ سردی کی شدت سے اسکے بازوؤں پر موجود لمبے سفید بال لرز رہے تھے۔ کچھ دیر میں اسکی آنکھ لگ گئی۔
جھونپڑے سے باہر تاحد نگاہ تھر کا بیابان صحرا پھیلا ہوا تھا جہاں ہڈیوں میں گودا جما دینے والی ٹھنڈ نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ تاریکی ہر چیز کو گھیرے ہوئے تھی۔ چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ سائیں کا عطا کردہ جھونپڑا، اندر ایک چارپائی، چند بستر، دو مٹکے، ایک بڑا صندوق، مٹی کا چولہا، ضرورت کے برتن اور دو جوان بیٹیاں؛ یہ تھی خدا بخش کی کل کائنات۔
کچھ دیر بعد ایک مانوس آواز نے ساری فضا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دونوں بیٹیوں نے ایک دوسرے کی طرف سوال بھری نظروں سے دیکھا کہ ابا کو جگا دیں یا نہیں؟ ایک نے کہا ابھی تو ابا تھک کر سویا ہے، سونے دو۔ دوسری بولی تجھے تو پتا ہے اگر ابا کو نہ جگایا تو کتنا ناراض ہو گا۔ ابا کی سخت تاکید کے پیش نظر انہوں نے ابا کو جگا دیا۔
خدا بخش آہستگی کے ساتھ بستر سے اٹھا اور اپنے بوڑھے تھکاوٹ کے مارے بدن کو گھسیٹتے ہوئے جھونپڑے سے باہر لے گیا۔ اسکی بڑی بیٹی مٹکا اٹھائے اسکے پیچھے ہو لی۔ خدا بخش نے اپنی کڑکڑاتی ہڈیوں کو موڑا اور ٹھنڈی زمین پر پاؤں کے بل بیٹھ گیا۔ اسکی بیٹی نے مٹکے سے برفیلے پانی کی دھار ٹپکائی اور خدا بخش نے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر کلی کی، پھر ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ اور بازو دھوئے، پھر بالوں پر پانی کا چھینٹا مارا اور پاؤں دھو کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اسکا کپکپاتا بدن سن ہو چکا تھا جسے اپنے ساتھ لے کر وہ نماز عشاء کیلیے صحرا کی وسعتوں میں واقع مسجد کی جانب چل پڑا۔ مسجد صحرا نشینوں سے آباد تھی۔ خدا بخش نے نماز ادا کی اور رو رو اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کیا۔
صحرا کی بے جان زندگی سے بہت دور پرے شہری آبادی بابوؤں سے بھری پڑی تھی، ان میں ایک جواں سال ڈاکٹر حشمت بھی تھے جو ماہانہ ایک لاکھ روپے تک کما لیتے تھے۔ سارا دن بیٹھ کر مریض دیکھتے اور رات کو اپنی سوزوکی آلٹو میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کرتے، ہیٹر آن کرتے اور گھر کی طرف روانہ ہو جاتے۔
سورج غروب ہونے سے کوئی پون گھنٹہ بعد گھر پہنچتے تو دروازے پر انکی خوبصورت بیوی پورے جمال کے ساتھ انکا استقبال کرتی۔ گھر میں داخل ہو کر بیڈ روم کے باہر جوتا اتارتے اور نرم قالین پر چلتے ہوئے ملحقہ واش روم میں داخل ہو جاتے جہاں ایک خوشبودار تولیہ، امپورٹڈ صابن و شیمپو اور تیز گرم پانی کا شاور انکا منتظر ہوتا۔ نہا دھو کر باہر نکلتے تو چائے تیار پڑی ہوتی۔ پاؤں کے پاس گیس ہیٹر رکھ کر چائے پیتے اور ساتھ ساتھ بیگم سے حال احوال پوچھتے اور پھر ٹی وی آن کر لیتے۔ تازہ خبریں و تجزیے، دو چار کمرشل اور ایک آدھ جھلک ڈرامے کی دیکھتے۔ اس دوران عشاء کی اذان سنائی دیتی تو ٹی وی کی آواز ہلکی کر دیتے۔ اذان کے بعد آواز پھر بلند ہو جاتی۔ کوئی ملنے آ جاتا تو اسکے ساتھ وقت گزار لیتے۔ پھر کسی کا فون آ جاتا یا خود کسی کو فون کر لیتے۔ رات گئے کھانا کھاتے اور ڈکار مار کر سو جاتے۔
آپ ڈاکٹر حشمت اور خدا بخش کا موازنہ کیجیے۔ اللہ کی بیش بہا نعمتوں کے سبب ڈاکٹر صاحب کیلیے نماز ادا کرنا کتنا سہل ہے مگر وہ نماز سے بے نیاز ہیں جبکہ خدا بخش کیلیے نماز کی ادائیگی کس قدر کٹھن ہے مگر وہ نماز سے نہیں چوکتا۔ یہ اپنے اپنے ایمان کی بات ہے۔
ایمان مضبوط ہو تو عبادت کی راہ میں تمام رکاوٹیں پلک جھپکتے عبور ہو جاتی ہیں
اور
اگر ایمان میں کمزوری ہو تو
عبادت نفس پر بوجھ بن جاتی ہے،
عبادت سے فرار کے سو بہانے کام آ جاتے ہیں،
کل سے شروع کرنے کا عزم آج اللہ کی نافرمانی کا جواز فراہم کر دیتا ہے اور وہی جواز اگلے دن زیادہ قوت کے ساتھ میسر ہوتا ہے،
زندگی کے طویل اور موت کے بہت دور ہونے کا شیطانی جھانسہ گلے آ لگتا ہے
جب تک سانس چلتی ہے تب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے مگر جیسے ہی سانسوں کی ڈور ٹوٹتی ہے، قدرت کا غیبی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی اپنے ان نیک بندوں کو بہشتوں میں پہنچا دے گا جو اس سے غائبانہ ڈرتے رہتے تھے اور اسکی نافرمانی سے احتراز برتتے تھے جبکہ کوتاہیوں کے مرتکب ہونے والوں کو یاد دلایا جائے گا کہ ہم نے تمہیں نہ کہا تھا کہ
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ۔ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ
(سورہ 95، آیت 7، 8)
ترجمہ: “جب فرصت ملے تو عبادت میں محنت کیا کرو اور اپنے رب کی طرف راغب ہو جایا کرو”
اور یہ بھی تو کہا تھا کہ
أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ
(سورہ 32، آیت 18)
ترجمہ: “بھلا مومن اور فاسق برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں وہ برابر نہیں ہو سکتے”
پھر انہیں حکم ہو گا
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُون
( سورہ 36، آیت 59)
ترجمہ: “اے مجرمو! آج کے دن علیحدہ ہو جاؤ”
(یعنی دنیا میں تو نیک و بد اکٹھے تھے مگر مجرمو، آج تم نیکوکاروں سے الگ ہو جاؤ۔)
پھر جب سزا یافتہ اور جزا یافتہ لوگ اپنے اپنے مقام کو پا لیں گے تو جنتوں میں سے کھڑکی کھلے گی جس میں سے اہل جنت آگ میں جھلستے ہوئے اہل جہنم کو دیکھ کر سوال کریں گے
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَر (سورہ 74، آیت 42)
ترجمہ: “کونسی چیز تمہیں سقر میں لے آئی”
(سقر جہنم کی کئی وادیوں میں سے ایک وادی کا نام ہے)
وہ جواب دیں گے
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ۔ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ۔ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّين۔
(سورہ 74 ، آیت 43 تا 46)
ترجمہ: “وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مسکینوں کو کھلانے والوں میں سے نہیں تھے اور ہم لگے رہتے تھے ہرزہ سرائی کرنے والوں کے ساتھ ہرزہ سرائی کرنے میں اور ہم آخرت کے دن کو جھٹلانے والوں میں سے تھے”
ہم آج یہ سطور اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ
ابھی ہم زندہ ہیں۔
اصلاح نفس کا موقع آج بھی ہمیں میسر ہے۔
توبہ کے دروازے ہمارے لیے تا حال کھلے ہیں
اور موت کی خبر نہیں کہ کس لمحے آن پکڑے۔
لہذا اللہ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پکڑنے میں دیر کرنا دانشمندی نہیں۔
زندگی پانی کا بلبلہ ہے جس کی عمر نہایت قلیل ہوتی ہے اور جب یہ پھٹتا ہے تو پھر احساس ہوتا ہے۔
بقول خواجہ میر درد
مدرسہ یا دیر تھا، یا کعبہ یا بت خانہ تھا
ہم سبھی مہماں تھے یاں، اک تو ہی صاحب خانہ تھا
وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
خوبصورت انتخاب