کے پی کے کا غیر ذمہ دارانہ فیصلہ

جرم جرم ہی کہلائے گا اور خطا بہر صورت خطا۔ جرم کیا گیا ہو یا ہو گیا ہو، سزا تو ملنی چاہیے خواہ سزا کی نوعیت معمولی ہو یا غیر معمولی۔

مجھے آج سے تقریباً 50 برس قبل میرے ایک بہت قریبی دوست نے، جو اُس وقت سعودی عرب بسلسلہ روزگار مقیم تھے ایک واقعہ بتا یا تھا جسے میں آپ سب سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ میرے اور آپ سب کے علم میں یہ بات ہے کہ سعودیہ میں آپ کی گاڑی پر کسی ضرب کا نشان (ڈینٹ) پڑ جائے تو کوئی ڈینٹر آپ کی گاڑی اس وقت تک نہیں لیتا جب تک اس کے ساتھ پولیس رپورٹ نہ ہو۔ پولیس کی رپورٹ میں کسی بھی قسم کے ضرب کی تفصیل درج ہوتی ہے کہ ایسا کیونکر ہوا اور اسی ضرب کے مطابق جرمانے کی تفصیل اور ٹھیک کرانے کی اجازت بھی درج ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ پاکستانی ہونے کے ناطے انھوں نے پولیس رپورٹ کے بغیر ہی اپنی گاڑی پر آئے ضرب کے نشان کو دور کروانا چاہا۔ ان کے علم میں اگر چہ یہ بات تھی کہ یہاں اس قسم کی کسی خرابی کو دور کرنے کیلئے پولیس رپورٹ ضروری ہوتی ہے لیکن کیونکہ ان کی گاڑی میں ضرب کا یہ نشان (ڈینٹ) کسی حادثہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ریورس کرتے ہوئے گاڑی کی پشت پر موجود ایک چٹان سے ٹکرا جانے کے نتیجے میں ہوا تھا اس لئے انھوں نے خیال کیا کہ ڈینٹر کو اصل صورت حال بتانے سے کام چل جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور انھیں پولیس کو رپورٹ کرنا ہی پڑ گئی۔ پولیس نے ان کی گاڑی کا معائنہ کیا لیکن جائے وقوعہ دیکھے بغیر پرچہ کاٹنے سے انکار کیا کیونکہ اس بات کا احتمال تھا کہ گاڑی ممکن ہے کسی اور گاڑی یا کسی اور کی کسی قیمتی چیز سے ٹکرائی ہو۔ انھیں پولیس کو جائے وقوعہ پر لیجانا پڑا۔ پولیس نے نہایت باریک بینی سے چٹان پر ابھرے بڑے پتھر اور گاڑی پر لگی ضرب کے نشان کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ صاحب کا دعویٰ سچا ہے۔ پرچہ کاٹا لیکن “غفلت” لکھ کر 100 ریال جرمانہ کر دیا۔ یہ بات اس دلیل کیلئے کافی ہے کہ جرم جرم ہی ہے خواہ قصداً سرزد ہو یا سہواً البتہ سزا کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اگر کسی کی گاڑی کے نیچے آکر کسی انسانی جان کا زیاں ہو جائے تو اس کیلئے بھی موت سے لیکر قید و بند اور زندگی بھر کیلئے خوں بہا جیسی سزائیں مقرر ہیں۔ موت خواہ مرنے والے کی اپنی کسی غلطی ہی سے کیوں نہ واقع ہو، انسانی جان کی حرمت کی وہاں ایک عظمت ہے جس کی وجہ سے حادثہ کرنے والے کا جرم ناقابل معافی تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں “خار کمر” پر ایک بڑا واقعہ ہوا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ بقول ترجمان پاک فوج، ان کی چوکی پر ایک جماعت کے کارکنان اپنے رہنماؤں کے اکسانے پر حملہ آور ہوں اور وہاں پہرہ دینے والے اہلکاروں کو شہید بھی کریں اور زخمی بھی کریں۔ تصادم سے بچنے، مزید ہلاکتوں کے بڑھ جانے سے باز رکھنے اور حفظ ماتقدم کے پیش نظر جوابی کارروائی کرنی پڑی جس کی وجہ سے کچھ ہلاکتیں ہوئیں اور کافی افراد گھائل بھی ہوئے۔ انسانی خون بہت مقدس ہوتا ہے خواہ وہ حق والوں کا ہو یا وہ لوگ جو فتنہ و فساد برپا کرنا چاہتے ہوں۔ معلومات کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے کیونکہ میڈیا کی اصل صورت حال تک رسائی ممکن نہیں اس لئے ابہام پیدا ہونا انہونی نہیں تھا سو ایسا ہی ہوا اس لئے کہ دوسری جانب (پی ٹی ایم کی جانب سے) سے جو بات میڈیا یا پاکستان کے منتخب ایوانوں تک پہنچی وہ ترجمان پاک فوج کے بیان سے بالکل بر عکس تھی۔ پاکستان میں کسی حقیقت تک پہنچنا کبھی آسان نہیں رہا اور یہی وہ دشواریاں ہیں جس کی وجہ سے عدلتوں تک سے سزا پانے والوں یا بری ہوجانے والوں کے بارے میں قوم مشکوک ہی رہی ہے۔ خار کمر کے اس واقعے کی پارلیمانی حلقوں میں کافی حد تک تشویش پائی گئی اور اس بات کا اظہار کیا گیا کہ واقعے کی آزادنہ تحقیقات ہوں اور جو فیصلہ بھی ہو، واقعے کے ذمے داروں کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کیا جائے اور جس کی جو سزا بنتی ہو کسی لیت و لعل کے بغیر اسے وہ سزا دی جائے۔

ابھی یہ معاملہ ایک سلگتا ہوا اشو بنا ہوا ہی تھا کہ خبروں کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے شمالی وزیرستان کے علاقے “خار کمر” میں پیش آنے والے واقعے میں متاثرہ افراد کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والے پختون قوم کو دوبارہ جنگ میں دھکیلنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جو کہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے واقعے میں جاں بحق افراد کے لیے فی فرد 25 لاکھ روپے جبکہ زخمی ہونے والے افراد کو دس دس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ پاکستان میں، پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کی قربانیوں کی بدولت ہی امن قائم ہوا ہے اور اس امن کو برقرار رکھنے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ ایک جانب ایک بیانیہ ہے اور دوسری جانب صوبائی حکومت کا ایک رد عمل۔ بیانیے کی روشنی میں سزائیں حملہ آوروں کو بہر صورت ملنی چاہئیں کیونکہ ریاست پر حملہ کسی بھی صورت قبول کیا ہی نہیں جاسکتا لیکن جو رد عمل صوبائی حکومت کی جانب سے سامنے آرہا ہے اور جن بھاری معاوضوں کا اعلان کیا گیا ہے تو جرم خواہ قصداً ہوا ہو یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے، ایک عظیم جرم بن رہا ہے جس کی سزا بہر صورت ذمے داروں کیلئے بنتی ہے خواہ اس کی نوعیت کیسی بھی ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی ایم اس واقعے کو اپنے حق میں کیش کرانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن کیا پی ٹی ایم کا یہ دعویٰ کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور ان کے کارکنوں کو بنا کسی جرم مارا اور زخمی کیا گیاہے، صوبائی حکومت کی اس پیشکش کی روشنی میں درست ثابت نہیں ہوجائے گا؟۔

صوبائی حکومت کا یہ اقدام ممکن ہے کہ حالات کی حدت اور تپش کو کم کرنے کی جانب ایک مخلصانہ کوشش ہو لیکن کیا اس سے حدت مزید بڑھے گی یا کم ہوگی، اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا؟۔ “تاوان” بھرنے کا یہ اعلان کیا پاک فوج کے مؤقف کے خلاف نہیں چلا جائے گا؟۔ اگر ان تمام پہلوؤں پر غور کرلیا گیا ہے تو ٹھیک ورنہ اس پیشکش کے نتیجے میں پی ٹی ایم کا اگلا مطالبہ یہ ضرور بنے گا کہ وہ اہل کار جو وہاں ہنگامہ برپا کرنے والے افراد پر آزادانہ گولیاں چلاتے رہے ہیں، ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ان کے اس مطالبے کو کیسے رد کیا جا سکے گا اور پھر آئندہ جب جب بھی پاک فوج کی جانب سے کوئی بیان دہشتگردوں کے خلاف آیا تو کیا قوم اس پر یقین کر لے گی؟۔ ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہی خیال کرتا ہوں کہ صوبائی حکومت کا “تاوان” بھرنے کا یہ اعلان کسی جلد بازی کا شاخسانہ اور مشاورت کئے بغیر ایک اقدام ہے جو خود صوبائی حکومت کیلئے ہی نہیں، وفاقی حکومت کیلئے بھی الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

میری اپنی رائے میں ایسا سب کچھ سیکیورٹی ادارے کی مشاورت کے بعد ہی ہونا چاہیے تھا اس لئے کہ جو حقائق ان کے سامنے ہیں وہ کسی بھی حکومتی نمائندوں یا عہدیداروں کے پاس نہیں ہو سکتے۔ صوبائی حکومت کا “تاوان” بھرنے کا یہ فیصلہ کیونکہ کسی مشورے کے بغیر لگتا ہے اس لئے میری رائے کے مطابق اس پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں